پاکستان کو چلائیں اسے چلتا نہ کریں

عبدالقادر حسن  جمعرات 11 مئ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

صرف پاکستان کی ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جس کے بڑے بیک زبان ہو کر اعتراف نہ بھی کریں کہ ان کے ملک کے اندر کرپشن اور بدعنوانی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس ہمہ گیر کرپشن پر ہاتھ ڈالیں تو ملک چلانے والا کوئی باقی نہ رہے گا اور اس طرح ملک کے کام رک جائیں گے ۔

پاکستان کے تمام اخبارات کی شہہ سرخیاں اپنے قارئین اور پاکستانی عوام کو صاف صاف بتاتی ہیں کہ اگر زندہ رہنا ہے تو پھر کرپشن کی تحقیقات میں نہ پڑیں ورنہ ملک کا کام کرنے اور چلانے والا کوئی بھی نہیں بچے گا اور ملک کی انتظامیہ کا چلنا دشوار بلکہ ناممکن ہو جائے گا ۔دوسرے الفاظ میں قومی سطح کی یہ خبر بتاتی ہے کہ ملک میں سر تا پا پھیلی ہوئی کرپشن کو برداشت کریں اور ملک جیسے بھی چلتا ہے اسے ایسے ہی چلانے کی کوشش کریں یوں دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا ملک پاکستان ہے۔

جس نے اپنی وسیع تر کرپشن کے آگے ہتھیار علانیہ ڈال دیے ہیں اور ملک کو عملاً بدعنوانی کے سپرد کر دیا ہے ۔ ہمارے قومی اخباروں کی شہہ ُسرخیاں قوم کو صاف صاف بتاتی ہیں کہ ان کا ملک دنیا کا ایک ایسا بدعنوان ملک ہے جس کی بد عنوانی پر اگر ہاتھ ڈالا جائے تو یہ اپنے وجود تک سے محروم ہو سکتا ہے جس طرح قومی پریس نے قوم کو بتایا ہے کہ کرپشن اس کی رگ و پے میں اس طرح سرائت کر چکی ہے کہ اس پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہیں رہا، اگر ایسی کوئی کوشش بلکہ جسارت کی گئی تو پھر پاکستان نامی ملک سے ہاتھ دھونا پڑیں گے یعنی کرپشن کے خلاف جنگ میں ملک کی سلامتی جا سکتی ہے۔

یہ ہولناک خبر پڑھ کر جو تمام قومی اخبارات کی شہہ سرخی تھی امید تھی کہ اس کے بعد ہماری حکومت مستعفیٰ ہو جائے گی اور ملک کو نہ جانے کس کے حوالے کر دے گی۔  ذہن فوری طور پر فوج کی طرف جاتا ہے جو ہماری آخری امید ہے لیکن ہم اس آخری امید کے پیچھے بھی پڑ گئے ہیں ۔ یہ ایک ایسی تباہ کن اور پریشان کن صورتحال ہے جو ملک سے جمہوریت وغیرہ کو ختم کر دے گی اور نہ جانے پھر یہ ملک کیا اور کیسا ہو گا۔ آپ اسے میری انتہائی مایوسی نہ سمجھیں خود ہمارا پریس اور تمام اخبارات یہی کہہ رہے ہیں، خدا کرے یہ سب غلط ہو لیکن اتنی بڑی غلطی کیسے ممکن ہے کہ کسی ملک کے حالات اس کے خاتمے کی خبر دے رہے ہوں اور ہمارے حکمران وغیرہ یہ سب دیکھ رہے ہوں اور محاورتاً نہیں حقیقت میں بھی آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہوں لیکن سیاسی مخالفوں کو مثالیں کبوتر کی دیتے ہوں ۔

وزیر اعظم کی اس سمع خراشی سے کچھ دن پہلے ہمارے صدر نے بھی اسی موضوع پر لب کشائی کی ان کا کہنا تھا کہ وہ بدعنوان لوگوں کو انتہا کی حد تک ناپسند کرتے ہیں بلکہ ان کو ان کے ساتھ بیٹھنے سے بد بو آتی ہے ۔ اب یہ پتا نہیں کہ ان کا اشارہ کس طرف تھا لیکن ہمارے ملک کی صورتحال ہی ایسی بن گئی ہے کہ بڑے سے بڑا بااختیار آدمی بھی اسی کا رونا رو رہا ہے لیکن اس کے سدباب کاکوئی بندوبست نہیں کر پا رہا ۔ اس بڑی بد عنوانی کو روکنے کے لیے بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے لیکن یہ فیصلے کون کرے گا کیونکہ اس میں تمام شرفاء کے نام آتے ہیں اور یہ سب آپس میں اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ کرنا ناممکن ہے اور جب بھی ان کے مفاد پر زد پڑتی ہے تو یہ یک زبان بلکہ یکجان ہو کر اس کے مقابلے پر اتر آتے ہیں اور جن کو اس بدعنوانی کو روکنا ہوتا ہے وہی اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

حکمران کا یہ کہنا کہ اگر ہم اس کھلی کرپشن کی تحقیقات میں پڑ گئے تو پھر ملک کا کام کون کرے گا گویا انھوں نے عندیہ دے دیا ہے کہ ملک میں کرپشن بھی جاری رہے گی اور ملکی کام بھی چلتے رہیں گے جو کہ ایک ساتھ ناممکن ہے ۔ انھوں نے لگتا ہے اس معاملے پر اپنی بے بسی کا اظہار کر دیا ہے اور جب ایک حکمران کسی معاملے میں بے بس ہو جائے وہ قوم کے لیے نہایت مایوسی کا لمحہ ہوتا ہے اور اس طرح کی مایوسی سے قومیں بکھر کر گروہوں میں بٹ جاتی ہیں۔قوم کو مایوسی میں دھکیلنے کے بجائے اس کی ہمت بڑھانی چاہیے تا کہ وہ یکجا ہو کر اس کھلی کرپشن کا احتساب کر سکے اور ایسی صورت حال پیدا کی جائے کہ پھر کسی حکمران کو یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑے کہ بدعنوانی کو روکنا اس کے بس کی بات نہیں۔

یہ ایک طویل بحث ہے کہ ایسی صورتحال کیسے اور کیوں پیدا ہو گئی لیکن حقیقت یہی ہے اور حالات اس کی بھرپور گواہی دیتے ہیں ۔ ملک کے ایک عام سے دفتر سے لے کر اور ایک عام سے کارکن تک سبھی جیسے اس ملک سے بے زار ہوں اور اس سے جان چھڑانا چاہتے ہوں جب کہ اس ملک نے ایسے لوگوں کی پرورش بھی کی جو دو وقت کی روٹی کے مستحق بھی نہ تھے ۔ اس ملک کے کھیت بلاشبہ سونا اگلتے رہے اور اب تک یہی حالت ہے ہمارے کاشتکار زیادہ محنت نہ کرنے کے باوجود ان کھیتوں سے اب تک دو وقت کی آسودہ اور پسندیدہ روٹی کھاتے رہے اور کھا رہے ہیں ۔ اسے عزت کی روٹی بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے کھیت بے حد فراغ دلی کے ساتھ ہمارے گھروں کو آباد کیے ہوئے ہیں اور قدرت نے کھیتوں کو جو نعمت عطا کی ہے وہ ہماری قوم کے لیے عزت کا سبب ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ باعزت زندگی قدرت کا ایک عطیہ ہے اور ہم پوری قوم اس سے مستفید ہو رہے ہیں لیکن کیا ہم اس عطیے کے مستحق ہیں ، شاید نہیں ہیں۔

کسی ملک کو چلانے والی کوئی حکمت عملی اس کا ساتھ تو نہیں دیتی ۔ایک چھوٹا سا گھر بھی کسی منصوبہ بندی کے بغیر نہیں چل سکتا کجا کہ ایک بڑا ملک حالات کے تحت چھوڑ دیا جائے کہ وہ بھی دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح چلتا رہے گا جب کہ دشمنوں میں گھرا ہوا پاکستان ایک دن بھی کسی منصوبے کے بغیر نہیں چل سکتا ۔ پاکستان جیسے ملک کو چلانے اور زندہ رکھنے کے لیے جہاد کی ضرورت ہے جو اسے نہ صرف دشمنوں سے بچائے گا بلکہ آگے بھی لے جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔