مہربان ہاتھ

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 11 مئ 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

اِس تصویر میں تین افراد کھڑے ہیں۔ تینوں ہی تین مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ دائیں طرف نیلی قمیض پہنے ہنستا ہُوا جو شخص کھڑا ہے، یہ ہندو ہے اور پیشے کے اعتبار سے سرجن ڈاکٹر۔ اُس کے ساتھ شلوار قمیض میں ملبوس اور واسکٹ پہنے مسکراتا ہُوا جو شخص فضا میں ہاتھ بلند کیے کھڑا ہے، یہ مسلمان ہے۔ اُس کے ساتھ گہرے سانولے رنگ کی جو خاتون پھولدار ساڑھی پہنے کھڑی ہے، یہ مسیحی ہے۔ سرجن کا نام ڈاکٹر سبرامینین آیار، مسلمان کا نام عبدالرحیم اور مسیحی خاتون کا اسمِ گرامی مسز جوزف ہے۔

یہ فوٹو بھارت کے مشہور صوبے ’’کیرالہ‘‘ کی ہے۔ ڈاکٹر سبرامینین کا تعلق کیرالہ کے معروف شفاخانے ’’امریتا اسپتال‘‘ سے ہے۔ وہیں وہ ہیڈ سرجن ہیں۔ عبدالرحیم کا تعلق افغانستان کے صوبے ’’لوگر‘‘ سے ہے۔ اور مسیحی خاتون کیرالہ کے ایک غریب مسیحی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ عبدالرحیم پیشے کے اعتبار سے فوجی کپتان ہیں۔ وہ افغانستان کے صوبہ ’’قندھار‘‘ میں داعش کے دہشتگردوں کی طرف سے زیر زمین دبائے گئے بم صاف کر رہے تھے کہ اُن کے قریب ہی ایک بم پھٹا۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ عبدالرحیم کے دونوں ہاتھ کٹ گئے۔

وہ چند روز کابل کے امریکی اسپتال میں زیر علاج رہے۔ پھر اُنہیں مزید علاج کے لیے کیرالہ کے امریتا ہاسپٹل بھیج دیا گیا۔ اِسی اسپتال میں مسیحی خاتون کا شوہر، جوزف، زیر علاج تھا۔ موٹر سائیکل کے شدید ایکسیڈنٹ میںاُسے دماغ پر شدید چوٹ لگی تو وہ بے ہوش ہو گیا۔ تین دن بعد اُسے ذرا سا ہوش آیا تو اُس نے وصیت کی کہ اگر مَیں مکمل صحتیاب نہ ہو سکا اور اِسی حالت میں مرگیا تو میرے جسم کے سارے اعضا عطیہ Donateکر دیے جائیں۔ شائد مرنے کے بعد کسی مستحق کے کام آ سکیں۔ دوسرے دن ہی اُس شخص پر دل کا حملہ ہُوا۔ یہ ہارٹ اٹیک اتنا شدید تھا کہ وہ جانبر نہ ہو سکا۔ سرجن ڈاکٹر سبرامینین آیار نے فوری طور پر اُس کے ہاتھ سرجری سے کاٹے اور اپنی شاندار میڈیکل مہارت سے ہاتھوں کا ٹرانسپلانٹ کر دیا۔ یہ آپریشن پندرہ گھنٹے جاری رہا تھا۔ اب مسیحی خاتون کے آنجہانی شوہر کے ہاتھ ڈاکٹر سبرامینین کی مہربانی سے عبدالرحیم کو لگائے جا چکے ہیں۔

یہ ہاتھ ایک صحتمند انسان کے ہاتھوں کی طرح کام کر رہے ہیں۔ عبدالرحیم کی مسرت اور خوشیوں کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔ وہ تو بیچارہ عالمِ مایوسی میں یہ خیال کر رہا تھا کہ اب اُسے عمر بھر یونہی ٹُنڈا بن کر، معذوری ہی میں گزارنی پڑے گی۔ اللہ مگر مسبب الاسباب ہے۔ کیرالہ کے ’’امریتا‘‘ اسپتال کے سبزہ زار میں یہ تینوں افراد کھڑے خوشی سے چہک رہے ہیں۔

ڈاکٹر سبرامینین اپنی کامیابی پر نہال ہیں، عبدالرحیم ضایع شدہ ہاتھوں (جو داعش کے دہشتگردوں نے چھین لیے تھے) کی نعمت دوبارہ ملنے پر اپنے رب اور ہاتھوں کا عطیہ کرنے والے بھارتی مسیحی جوزف کے شکر گزار ہیں اور مسیحی خاتون خوش ہے کہ اُس کے جراتمند شوہر کی وصیت کسی مستحق انسان کے کام آ سکی۔ اِس عظیم المرتبت انسانی خدمت اور قابلِ ستائش مثال میں ہندو اور مسیحی مذاہب کے ماننے والے دو انسانوں نے بنیادی اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اور اس مہربانی کا فائدہ ایک مسلمان کو ہُوا ہے اور اُس کا تعلق بھی بھارت سے نہیں ہے۔ انسانی محبت اور باہمی تعاون کا یہ عظیم الشان واقعہ ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان تو وہی ہے جو دوسروں کے دکھ درد بانٹ سکے، نہ کہ اپنے ہم نفسوں کے دکھوں میں اضافے کا باعث بنتا رہے۔ مجھے اِس واقعہ اور مذکورہ تصویر نے حیرت اور بے پایاںخوشی کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔

میرے سامنے ایک اور تصویر پڑی ہے۔ یہ فوٹو بابا محمد یعقوب کی ہے۔ اُن کی عمر 65 سال ہے۔ تعلق ضلع خوشاب کے چک نمبر 9 سے۔ محمد یعقوب کے 9 بچے اور پیشے کے اعتبار سے وہ ایک غریب کسان ہیں۔ معمولی سی کھیتی باڑی ہے۔ اسی سے زندگی کی گاڑی بمشکل کھنچ رہی تھی کہ بابا یعقوب شوگر کے شدید مرض میں مبتلا ہو کر چارپائی سے لگ گئے۔ لنگڑے اور اپاہج ہو کر گھر آ گئے اور معذوری عذاب بن گئی۔ سالِ رواں کے پہلے ہفتوں کے دوران لندن میں بروئے کار انسانیت نواز ادارے ’’المصطفیٰ ویلفئیر ٹرسٹ‘‘ نے خوشاب میں فری آئی کیمپ لگائے تو غریب بابا یعقوب بھی لاٹھی ٹیکتے ہُوئے کیمپ میں آئے۔ لندن، امریکہ اور پاکستان کے والنٹئیر ڈاکٹروں نے بابا یعقوب کی آنکھوں کا مفت آپریشن کیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کی آنکھوں کا چانن لَوٹ آیا۔ اُنہیں ادارہ مذکور کی طرف سے عینک اور ادویات بھی مفت فراہم کی گئیں۔

بابا یعقوب کی غربت اور شدید معذوری دیکھ کر ’’المصطفیٰ ویلفئیر ٹرسٹ‘‘ کے چئیرمین جناب عبدالرزاق ساجد خود بابا جی کے گھر گئے اور اُنہیں پیشکش کی کہ کیوں نہ جدید ٹیکنالوجی سے آپ کو مصنوعی ٹانگ لگا دی جائے۔ بابا یعقوب اس دستگیری پر حیران رہ گئے۔ ’’المصطفیٰ ویلفئیر ٹرسٹ‘‘ نے بیکس معذوروں کی بحالی کے لیے بھی اپنی مہمات جاری کر رکھی ہیں۔ اس کے لیے کوئی حقِ خدمت بھی نہیں لیا جاتا۔ اِسی ادارے کی طرف سے بابا محمد یعقوب کو اب ’’موڈلر‘‘ Modular) (ٹیکنالوجی کی ماڈرن مصنوعی ٹانگ لگائی جا چکی ہے۔

یہ ٹانگ ائر کرافٹ دھاتTataniumسے تیار کی گئی ہے۔ یہ وزن میں بھی نہائیت ہلکی ہوتی ہے۔ بابا یعقوب صاحب اس عنائیت اور مہربانی پر ادارہ مذکور کے شکر گزار ہیں۔ اور عبدالرزاق ساجد صاحب خوش ہیں کہ اُن کی خدمت اور کوششوں سے ایک انسان دوبارہ اپنے کام کاج کے قابل ہو سکا ہے، اُسے بینائی بھی واپس مل گئی ہے اور ایک غریب شخص معذوری و محتاجی سے بھی محفوظ ہو گیا ہے۔ بابا یعقوب اب اپنے کھیتوں اور با جماعت نماز کی ادائیگی کے لیے آسانی سے مسجد میں بھی جا سکتے ہیں۔

یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُسی کی توفیق سے انجام دیے جا سکتے ہیں۔ اللہ ہی کے ہاں اس کا اجر ہے۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ انسانوں کی بے لوث اور بے غرض خدمت کو اللہ تعالیٰ کبھی ضایع نہیں کریں گے۔ روایات میں یہاں تک آیا ہے کہ اللہ تو جانوروں کی خدمت کرنے پر بھی انسانوں پر اپنی بخششوں اور مغفرتوں کے لاتعداد دروازے کھول دیتا ہے۔ زمین پر انسانوں کے ساتھ مہرووفا سے پیش آنے والوں پر یقینا اللہ تعالیٰ عرشِ بریں پر مہربان ہوگا۔ نتائج کاسارا دارو مدار ہی انسان کی نیت پر ہے۔ وزیر آباد سے تعلق رکھنے والے سید برادران (سید لخت حسنین صاحب اور سید ضیاء النور صاحب) کی انسانی خدمت کے لیے وقف آرگنائزیشن ’’مسلم ہینڈز‘‘ اور لاہور میں جناب اخلاق الرحمن کی نگرانی میں بروئے کار ادارہ ’’ہیلپ لائن‘‘ بھی قابلِ ذکر اورقابلِ تحسین ہیں۔ ’’مسلم ہینڈز‘‘ نے ملک بھر میں خاک نشینوں کو مفت تعلیم فراہم کرتے ہُوئے نئے سنگِ میل قائم کیے ہیں۔

اور اخلاق الرحمٰن صاحب لاہور کے اسپتالوں میں زیر علاج غریب مریضوں اور اسپتالوں کے برآمدوں اور صحنوں میں رُلتے اُن کے نادار لواحقین کو دن رات مفت کھانا فراہم کرنے کی حیرت انگیز مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ الحمد للہ۔انسانی خدمت میں جُٹے اِن اداروں کی مالیات انسانوں ہی کے فراہم کردہ عطیات اور زکٰوۃ پر انحصار کرتی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمان برادری زیادہ تر رمضان شریف میںزکٰوۃ اور عطیات دینے کا اہتمام کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان شریف کا مبارک طلوع پھر قریب ہے۔ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اِس ماہِ مبارک میں ہم سب کی زکٰوۃ اور عطیات کی رقوم کہیں نادانی میں کسی دہشتگرد تنظیم کی جیب میں نہ چلی جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔