پانامہ کیس ابھی باقی ہے!

ایاز خان  جمعرات 11 مئ 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

ٹویٹ کے ایشو پر فوج کو ہدف تنقید بنانے والے اس کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اختلافات ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ فوج کو نشانے پر رکھ لیا جائے۔ یہ درست ہے کہ اس طرح کے ٹویٹ کی نوبت نہیں آنی چاہیے تھی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے ’’Rejected‘‘ٹویٹ کے بعد حکومت اور فوج میں ایک تصادم کی کیفیت کا تاثر پیدا ہو گیا تھا۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان ایک خفیہ ملاقات ہوئی جسے خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا مگر وہ بھی نیوز لیکس کی رپورٹ کی طرح لیک ہو گئی۔ بدھ کو دونوں بڑوں میں ایک اور تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور بعد ازاں وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی شریک ہو گئے۔

ان ملاقاتوں کے بعد بتایا گیا کہ نیوز لیکس سے متعلق تمام معاملات طے پا گئے ہیں۔ اس کے بعد فوجی ترجمان نے ٹویٹ واپس لے لیا۔ ٹویٹ کے بعد ایک تقسیم دیکھنے میں آئی۔ کچھ لوگ اس ٹویٹ کی حمایت اور دوسرے اس کی مخالفت میں تھے۔ اب ٹویٹ واپس ہوا ہے تو پھر ویسی ہی تقسیم دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ٹویٹ کی واپسی کے مخالف ایک قدم اور آگے بڑھے ہیں اور انھوں نے فوج پر شدت سے تنقید کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ نیوز لیکس پر فوج نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ فوجی ترجمان کے ان الفاظ پر غور کرنے کی ضرورت ہے، نامکمل چیز مکمل ہو گئی۔ ٹویٹ اس لیے آیا تھا کہ وزیراعظم کا حکمنامہ نا مکمل تھا یعنی اس میں سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا ذکر نہیں تھا جو کہ اب آ گیا ہے۔

ہاں شاید یہ پہلی بار ہوا ہے کہ فوج نے کسی سویلین حکومت کے کسی اقدام کے بارے میں اتنا سخت موقف اپنایا وہ بھی عوامی سطح پر۔ اور یہ بھی شاید پہلی بار ہوا ہے کہ اتنے سخت موقف سے فوج پیچھے ہٹ گئی۔ تنقید کرنے والے کیا چاہتے تھے۔ کیا ان کی خواہش یہ تھی کہ فوج نواز شریف کا تختہ الٹ دیتی۔ اگر ایسا ہو جاتا تو ان سب کو کیا فایدہ ہونا تھا؟ ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو گیا۔ ماضی میں بیک چینل ڈپلومیسی میں شہباز شریف پیش پیش رہے ہیں۔ چوہدری نثار ان کا ساتھ دیتے تھے۔ اس بار چوہدری نثار سب سے زیادہ متحرک رہے۔ ان کی وزیراعظم سے 5، 6 ملاقاتیں ہوئیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے  بھی اپنا حصہ ڈالا۔ انگریزی میں کہتے ہیں ’’All is well that ends well‘‘ یعنی اختتام اچھا تو سب اچھا۔ اب اختتام اچھا ہو گیا ہے تو پھر سب اچھا کی امید رکھنی چاہیے۔

مخالفین اگر نیوز لیکس کی رپورٹ کو پبلک کرنے کا مطالبہ کر یں تو یہ جائز ہو گا۔ معروضی حالات کو مد نظر رکھا جائے تو نیوز لیکس پر اگر کمپرومائز بھی ہوا ہے تو یہ جائز ہے۔ بھارتی بزنس مین جندال کے ’’سبز قدم‘‘ جب سے اس سرزمین پر پڑے ہیں ہماری سرحدوں پر حالات سنگین ہو گئے ہیں۔ بھارت کے بعد افغانستان اور پھر تازہ ترین انٹری ایران کی طرف سے سرجیکل اسٹرائیکس کی دھمکی، کیا ان حالات میں حکومت اور فوج کے مابین تصادم کی سی کیفیت اس ملک کے مفاد میں ہے، ہرگز نہیں۔ یہ یکسوئی کا وقت ہے۔ ایسے موقعوں پر سارے اختلافات بھلا کر ایک ہونا پڑتا ہے۔ نیوز لیکس پر انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے مجھے ایک دوست کا وہ جملہ یاد آ رہا ہے جو اس نے وزیراعظم آفس کے آرڈرکے بعد کہا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ یار! لگتا ہے یہ انکوائری کمیٹی صرف راؤ تحسین کے لیے بنائی گئی ہے۔ نامکمل چیز جب مکمل ہوئی تب بھی یہی تاثر دیا گیا کہ سارے معاملے کا ذمے دار بے چارہ پی آئی او راؤ تحسین تھا۔ الزام بھی وہی ہے جو پرویز رشید پر لگایا گیا یعنی دونوں خبر رکوانے میں ناکام رہے۔

میرے خیال میں کمیٹی کی ساخت ہی ایسی بنائی گئی تھی کہ اس کا کوئی ایک رکن بھی ایسا نہیں تھا جس کے علم میں یہ بات ہوتی کہ پی آئی او کی ذمے داریاں کیا ہوتی ہیں اور وہ کس طرح سے کام کرتا ہے۔ جاوید جبار جیسا کوئی شخص کمیٹی کارکن ہوتا تو یقینا راؤ تحسین پر یہ الزام نہ لگتا۔ پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے سب لوگ جانتے ہیں کہ پی آئی او خبر رکوانے کے لیے نہیں بلکہ خبر لگوانے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نیوز لیکس کی انکوائری کمیٹی جن افراد کے خلاف تحقیقات کر رہی تھی ان میں کمزور ترین فرد انفارمیشن گروپ سے تعلق رکھنے والے راؤ تحسین ہی تھے۔ نیوز لیکس کا ایشو پیدا ہونے کے بعد ایک سزا تو پہلے ہی راؤ تحسین کو دی جا چکی تھی۔

انھیں پروموشن سے محروم کر دیا گیا تھا۔یہ سب جانتے ہیں کہ ڈان کے سرل المیڈا نے خبر کے حوالے سے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری سمیت متعدد افراد سے موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تھا۔کچھ نے انھیں نوکمنٹس کی صورت میں جواب بھی دیا۔ ان میں وہ افراد شامل ہیں جو اس حساس اجلاس میں شریک تھے جب کہ راؤ تحسین اس دن وزیراعظم ہاؤس سے کوسوں دور تھے۔ مستقبل میں سی ایس ایس کا امتحان دینے والے بچے اور بچیاں یہ ضرور خیال رکھیں گی کہ انفارمیشن گروپ میں جانے کے بجائے ڈی ایم جی گروپ کا انتخاب کیا جائے۔

چوہدری نثار کہتے ہیں نیوز لیکس اتنا بڑا معاملہ نہیں تھا جتنا بنا دیا گیا۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ وزیراعظم ہاؤس نے اکتوبر 2016ء میں تین مرتبہ ایک وضاحتی بیان جاری کیا تھا اور تینوں مرتبہ یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ قومی سلامتی کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور ذمے داروں کو سزا ضرور ملے گی۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ذمے داری کس کی تھی اور کس کو ذمے دار قرار دیا گیا۔

ممکن ہے راؤ تحسین یا طارق فاطمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ انھوں نے ایسا کیا تو پھر یہ معاملہ ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف کے مخالفین سے البتہ یہ اپیل ہے کہ وہ ان کی مخالفت ضرور کریں۔ ان کی پالیسیوں سے اختلاف اور ان پر احتجاج بھی ضرور کیا جائے۔ فوج پر البتہ تنقید نہ کی جائے۔ فوج کو یہ طعنہ بھی نہ دیا جائے کہ اس نے شکست تسلیم کر لی ہے۔ پاکستان لاتعداد اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ نیوز لیکس کا معاملہ چونکہ طے پا چکا ہے اس لیے بہتر ہے اب آگے بڑھا جائے۔ فوج پر تنقید بند کر دیں اور اپنی ساری توجہ پانامہ لیکس کی جے آئی ٹی پر مرکوز کر لیں۔ نیوز لیکس پر مایوسی اپنی جگہ، پانامہ کیس ابھی باقی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔