بجلی کا بحران اور سیاسی کرتب

ذوالقرنین زیدی  جمعرات 11 مئ 2017
znzaidi@yahoo.com

[email protected]

گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ بجلی کا شارٹ فال اور لوڈشیڈنگ کا جن پھر بے قابو ہوتے ہی ملکی سیاسی کرتب بازی میں تیزی آگئی ہے۔ نمائشی احتجاج، جلسے، جلوس اور دھرنوں کے ذریعے حکومت مخالف جماعتیں عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔ کہیں پیپلزپارٹی، کہیں تحریک انصاف، تو کہیں جماعت اسلامی، ملک کی تقریباً سبھی بڑی پارٹیاں اپنے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کررہی ہیں، تاہم عوام حسب توفیق گھروں مسجدوں میں بیٹھ کر حکومت کو کوسنے دینے پر ہی اکتفا کررہے ہیں۔

کتنی عجیب اور دلچسپ صورتحال ہے کہ چند سال پہلے عوام کے ہمدرد بن کر بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف سڑکوں پر احتجاج اور دھواں دھار تقریریں کرنے والے آج بھرپور انداز میں اپنی کارگزاریوں کا دفاع کررہے ہیں، اور جو کل اسی لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے کے دعوے اور وعدے کررہے تھے، آج حکومت کے خلاف برسرپیکار نظر آرہے ہیں۔ وہی دعوے، وہی وعدے اور وہی اعدادوشمار جو پیپلزپارٹی کے دور میں دیکھنے پڑھنے اور سننے کو ملتے تھے، آج کے دور میں بھی نظر آرہے ہیں۔

سرکاری ذرایع سے موصولہ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ملک میں بجلی کی طلب بڑھ کر 20 ہزار میگاو اٹ سے تجاوز کرگئی ہے، جب کہ پیداوار چند روز کے مصنوعی اضافے کے بعد واپس 13 ہزار میگاواٹ پر آچکی ہے اور موسم کی مناسبت سے بجلی کا شارٹ فال 7 ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکا ہے۔ شہروں میں 6 سے 8 گھنٹے جب کہ دیہی علاقوں میں 12،12 گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ دوسری جانب حکومتی عہدیدار اس حوالے سے اپنی بد ترین کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے من پسند اعدادوشمار عوام کے سامنے پیش کررہے ہیں۔

وزیراعظم کہتے چلے آئے ہیں کہ 2018 میں لوڈشیڈنگ ختم کردیں گے، جب کہ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی کبھی بات ہی نہیں کی۔ بجلی بحران کے خاتمے کے حوالے سے تضاد فقط یہیں تک محدود نہیں بلکہ مختلف اداروں کے مختلف افسران، متعلقہ اور غیر متعلقہ وزرا، سیکریٹری پانی و بجلی کی جانب سے قوم کو بتائے گئے اعدادوشمار میں بھی تضاد واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اور ویسے بھی اگر حکومت کا یہ دعویٰ کہ 2018 میں لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی، درست ہے تو تمام منصوبوں کا ایک ہی وقت میں مکمل ہونا، پیداوار شروع کرنا اور قومی گرڈ میں شامل کرنا وغیرہ جیسے عوامل ایک ہی وقت میں کیسے ممکن ہوسکتے ہیں؟ حکومت کے 4 سال کے دوران کچھ تو بہتری نظر آنی چاہیے تھی۔

گزشتہ ماہ منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ایڈیشنل سیکریٹری اور ایم ڈی پیپکو وزارت پانی و بجلی عمر رسول نے رمضان المبارک کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کی نوید سنائی۔ موصوف نے اجلاس کو بتایا کہ موجودہ حکومت کے تقریباً 4 سال کے دوران 3500میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ (اپریل میں) بجلی کی پیداوار 12 ہزار میگاواٹ جب کہ طلب 16 ہزار میگاواٹ ہے اور جون تک یعنی رمضان میں 1300میگاوٹ اضافی بجلی سسٹم میں شامل کی جائے گی۔ تاہم انھوں نے یہ انتباہ بھی کردیا کہ جن علاقوں میں بجلی چوری یا لائن لاسززیادہ ہیں، وہاں 12سے 14 گھنٹے لوڈشیڈنگ جاری رہے گی۔ ظاہر ہے عوام کے پاس کوئی ایسا پیمانہ تو موجود نہیں کہ جان سکیں کہاں بجلی چوری ہورہی ہے (پس جہاں سے لوڈشیڈنگ کی شکایت آئے گی آسان سا جواب یہی ہوگا چونکہ آپ کے علاقے میں بجلی چوری ہورہی ہے لہٰذا لوڈشیڈنگ کا عذاب آپ کو جھیلنا ہی پڑے گا)۔

ہاں البتہ دستیاب اعدادوشمار کے جائزے سے بہت سے حقائق تک پہنچنا بڑی حد تک آسان ضرور ہوجاتا ہے، جیسا کہ رمضان المبارک کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کی نوید سنائی گئی۔ حالانکہ رمضان المبارک جب جون کا مہینہ چل رہا ہوگا، گرمی اپنے عروج پر ہوگی، دوسری طرف رمضان المبارک کے دوران گھریلو سطح پر بجلی کے استعمال میں مزید اضافہ ہوچکا ہوگا، عید الفطر کے حوالے سے صنعتوں میں مینوفیکچرنگ اور بازاروں میں خریداری سرگرمیاں بڑھنے کے باعث بجلی کی طلب 25 ہزار میگاواٹ کے قریب پہنچ چکی ہوگی، اس وقت محض 1300 میگاواٹ بجلی کا اضافہ مجموعی شارٹ فال میں کیسے کمی لاسکے گا؟ فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق کیا اس وقت پیداوار 14300 میگاواٹ تک ہی نہیں پہنچ پائے گی؟ کیا ایسی صورتحال میں ممکنہ 25 ہزار میگاواٹ کی طلب 14300میگاواٹ کی سپلائی پوری کرپائے گی؟ (جب کہ ٹرانسمیشن کے لائن لاسز کو بھی منہا نہ کیا گیا ہو)۔

اسی طرح گزشتہ دنوں بجلی چوری کے حوالے سے جاری ہونے والے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں 10میں سے 6پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں 5 سال کے دوران 66 ارب 84 کروڑ روپے کی بجلی چوری ہوئی، جن میں حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی 24 ارب 76 کروڑ روپے سے زائد کی بجلی چوری کے ساتھ پہلے، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی 17 ارب 10 کروڑ روپے کے ساتھ دوسرے، لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی 9 ارب 51 کروڑ کے ساتھ بجلی چوری میں تیسرے نمبر پر رہی۔ بجلی چوروں کے خلاف88 ہزار 311 مقدمات درج کر کے 40 ارب 48 کروڑ روپے کی ریکوریاں کی گئیں۔

بجلی چوری کے اعدادوشمار میں کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی، سندھ میں سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی پنجاب میں گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی اور فاٹا میں ٹرائبل ڈسٹری بیوشن کمپنیز کے اعدادوشمار ’’خاص وجوہات‘‘ کی بنا پر جاری نہیں کیے گئے (اور رہا کراچی تو اس کا شمار تو اس حوالے سے ملکی شہروں میں کیا ہی نہیں جاتا، بلکہ یہاں تک کہ جب بھی بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے وفاقی حکم نامہ جاری کیا جاتا ہے تو واضح الفاظ میں بتا دیا جاتا ہے کہ ریٹ میں کمی بیشی کا اطلاق کراچی کے شہریوں پر نہیں ہوگا)۔

ہم بات کررہے تھے بجلی چوری کی، جس کی بابت مذکورہ سرکاری اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ 5 سال کے دوران چوری ہونے والی بجلی کی مالیت 66 ارب 84 کروڑ روپے تھی جب کہ اس میں سے 40 ارب 48 کروڑ روپے کی ریکوری کے بعد یہ مالیت چوری شدہ بجلی کی مالیت 26ارب 36کروڑ روپے رہ گئی۔ چوری کی اسی مالیت کو اگر سالانہ بنیاد کر دیکھا جائے تو یہ اوسطا صرف 5 ارب 27 کروڑ روپے رہ جاتی ہے۔ اسی طرح اگر باقی 4 پاور کمپنیوں میں چوری ہونے والی بجلی کی مالیت بھی اسی اندازے سے شامل کرلی جائے تو یہ سالانہ اوسط 10 ارب روپے مالیت کے قریب پہنچ جاتی ہے جب کہ اس رقم کی مالیت سے 3 گنا زیادہ رقم وفاقی حکومت صرف ایک آفاقی کمپنی کو بطور سبسڈی سالانہ ادا کرتی ہے حالانکہ صرف یہی ایک مبینہ ’’(بالواسطہ) آف شور‘‘ آفاقی کمپنی اووربلنگ کے ذریعے ایک سال میں عوام سے کم از کم 100 ارب روپے ان 30 ارب روپے کے علاوہ اووربلنگ کے ذریعے وصول کرلیتی ہے۔ یوں بجلی چوری کو جواز بناکر لوڈشیڈنگ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے جب کہ بجلی چوری کی روک تھام بھی حکومت ہی ذمے دار ہو مگر حکومت چور کے شور مچانے کے ڈر سے کارروائی سے گریزاں دکھائی دے۔

یہاں صرف حکومت ہی کو قصور وار ٹھہرانا بھی شاید ناانصافی ہوگی کیونکہ ملک میں اس وقت بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ساتھ اووربلنگ کے حوالے سے سب سے زیادہ زیادتی کراچی کے عوام کے ساتھ کی جارہی ہے جب کہ دوسری جانب کراچی کی آفاقی پاور کمپنی وفاقی حکومت سے ساڑھے 600 میگاواٹ بجلی انتہائی سستے داموں خریدنے کے علاوہ 30 ارب روپے کی سبسڈی بھی وصول کررہی ہے اور سندھ کے سیاسی رہنما اپنے صوبے اور ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کو چھوڑ کر پنجاب میں لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج میں مصروف ہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ملک کی کوئی ایک بڑی سیاسی پارٹی اگر حکومت کے خلاف میدان میں اتر جائے تو حکمرانوں کو مصیبت میں ڈال دیتی ہے، مگر عوام کے معاملے میں ایک پاور کمپنی کے خلاف احتجاجی دھرنا محض تسلی کی بنیاد کر ختم کرکے چلتی بنتی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔