لوگوں کو غیر قانونی حراست میں رکھنا ہے تو عدالتی اختیارات ختم کردیں،جسٹس افتخار

نمائندہ ایکسپریس  بدھ 23 جنوری 2013
ریویوبورڈکاریکارڈ پیش نہ کرنے پراظہاربرہمی، اٹارنی جنرل حکومت سے ہدایت لیں ورنہ فیصلہ سنادیں گے،سماعت کل تک ملتوی۔ فوٹو: آن لائن/ فائل

ریویوبورڈکاریکارڈ پیش نہ کرنے پراظہاربرہمی، اٹارنی جنرل حکومت سے ہدایت لیں ورنہ فیصلہ سنادیں گے،سماعت کل تک ملتوی۔ فوٹو: آن لائن/ فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوںکے حراستی مراکز میں زیر حراست افرادکے مقدمے میںآبزرویشن دی ہے کہ ثبوت نہ ہو توکسی کو زیر حراست نہیں رکھا جا سکتا۔

چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری نے کہا کہ اگر سیکیورٹی ایجنسیوں نے ٹرائل کے بغیر لوگوںکو حراست میںرکھنا ہے تو قانون تبدیل کرکے عدالتوںکااختیار ختم کر دیاجائے۔منگل کوآئی ایس آئی کے وکیل راجا ارشاد نے ایک دفعہ پھر اعتراف کیاکہ اڈیالہ جیل کے قیدیوںکیخلاف واقعاتی شواہد نہ ہونے کی وجہ سے ان کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل نہیں ہو سکا، یہ لوگ اب مقامی انتظامیہ کی حراست میں ہیں۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ٹرائل نہ ہونے کا مطلب ہے کہ حراست غیر قانونی تھی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ان افرادکو سیکیورٹی ایجنسیوں نے اٹھایا اور غیر قانونی حراست  میں رکھا،اس لیے ان ایجنسیوںکو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو یہ اختیار نہیںکہ مقدمہ چلائے بغیرکسی کو حراستی مراکز میں رکھے۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ ان حراستی مراکز اور زیر حراست افرادکے بارے میں حکومت سے ہدایات حاصل کرکے آگاہ کریں بصورت دیگر عدالت خود فیصلہ سنادے گی،اس پرعدالت نے سماعت کچھ وقت کیلیے ملتوی کر دی۔

سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کامتعلقہ حکام سے  رابطہ نہیں ہو سکا، اس لیے مناسب وقت دیا جائے جس پر سماعت جمعرات24جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔ ثنا نیوزکے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ان  قیدیوںکیخلاف کوئی ثبوت نہیں ملا تو انھیں مزید ایک سیکنڈ بھی حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے آئی ایس آئی کے وکیل راجہ ارشاد سے کہا کہ بین السطور میں آپ کو ہماری بات سمجھ جانی چاہیے ۔آپ تو چاہیںگے کہ ملک میں عدالتیں ہوں لیکن ان کے اختیارات نہ ہوں، ان قیدیوںکیخلاف  ثبوت نہیں ہیں تو ان کو رہاکیا جائے اور غیر قانونی حراست کے ذمے داروںکو سزا ملنی چاہیے۔

15

راجا ارشاد نے بتایا کہ ان افرادکو ملکی مفاد میں حراست میں رکھا گیا ،اس پرچیف جسٹس نے کہا ملکی مفادکوعدالت ان سے زیادہ جانتی ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسارکیا کہ ریویو بورڈکے تینوں اجلاسوں کا ریکارڈکہاں ہے، فیصلہ دکھائیں جس میں قیدیوںکو غیر معینہ مدت کیلیے رکھنے کا کہا گیا ہو ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ زیر حراست افراد سے کلاشنکوف ، ہینڈگرینیڈ اور میگزین کی برآمدگی کا بیان بظاہر غلط ہے۔ دوران سماعت سیکریٹری فاٹا ریکارڈ پیش نہ کر سکے جس پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا ۔

چیف جسٹس نے راجہ ارشاد سے کہا کہ آپ آئین اور قانون ختم کر دیں اور عدالتوں کا اختیار واپس لے لیں، پھر جو جی چاہے کریں ورنہ ابھی فیصلہ کرکے آئیں کہ ان افراد کو قید میں رکھنا ہے یا رہا کرنا ہے ۔ عدالت نے سیکریٹری لا اینڈ آرڈر فاٹا جمال ناصرکو ہدایت کی کہ وہ ریویو بورڈکے اجلاسوں کا ریکارڈ بذریعہ فیکس منگوا کر پیش کریں ۔ بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس  نے کہا ہے کہ خفیہ اداروںکے پاس پارا چنار میں قید سات افرادکی مدت حراست میں اضافے کا اب کوئی جواز نہیں،اگر افرادکی حراست غیرقانونی ثابت ہوئی تو ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی جائے گی چاہے وہ کسی بھی عہدے پر فائزکیوں نہ ہوں۔

واضح رہے29 مئی2009 کو راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت کی طرف سے عدم ثبوت کی بنا پررہا ہونے والے11 افرادکوخفیہ اداروںکے اہلکار اڈیالہ جیل کے باہر سے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے اور دسمبر2010 میں عدالت کو بتایاگیا کہ یہ افراد فوج کی تحویل میں ہیں۔ان11افرادمیںسے دوسگے بھائیوں سمیت4افرادانتقال کرچکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔