میری امّی

قیصر اعوان  اتوار 14 مئ 2017
’’یہ اُٹھ کر دودھ پی لو، بھوک لگ گئی ہوگی۔‘‘ امّی جو تھوڑی دیر پہلے تک احمد کے دیر سے گھر آنے پر خفا تھیں اب اُس کے بیڈ کے سامنے دودھ کا گلاس لیے کھڑی بڑے پیار سے کہہ رہی تھیں۔

’’یہ اُٹھ کر دودھ پی لو، بھوک لگ گئی ہوگی۔‘‘ امّی جو تھوڑی دیر پہلے تک احمد کے دیر سے گھر آنے پر خفا تھیں اب اُس کے بیڈ کے سامنے دودھ کا گلاس لیے کھڑی بڑے پیار سے کہہ رہی تھیں۔

’’احمد! بیٹا میں نے ناشتہ تیار کردیا ہے۔‘‘ امّی نے کچن سے آواز لگائی، مگر احمد سُنی ان سُنی کرتا ہوا اپنی تیاری میں لگا رہا۔

’’احمد!‘‘ امّی نے تھوڑی دیر بعد دوبارہ آواز دی۔

’’آرہا ہوں امّی، تھوڑا صبر کرلیں۔‘‘ احمد اونچی آواز میں بولا۔ ’’ایک تو یہ نوٹس نہ جانے کدھر رکھ دیے ہیں۔‘‘ اُس نے نوٹس ڈھونڈھتے ہوئے کمرے کی ہر چیز اِدھر اُدھر کردی تھی۔

’’بیٹا! ناشتہ ٹھنڈا ہورہا ہے، پہلے ناشتہ کرلو پھر تیاری کرلینا۔‘‘ امّی دروازے پر کھڑی تھیں۔

’’آپ بھی حد کرتی ہیں امّی، ناشتہ کونسا بھاگا جا رہا ہے، کرلیتا ہوں آکر۔‘‘ وہ نوٹس ڈھونڈھتے ہوئے بیزاری سے بولا۔

’’چلو میں کچن میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں، جلدی آجانا۔‘‘ امّی نرمی سے بولیں اور کچن کی طرف چل پڑیں۔

وہ کچھ دیر تک تو کچن میں بیٹھی اُس کا انتظار کرتی رہیں، مگر جب وہ نہ آیا تو وہ خود ناشتہ لے کر اُس کے کمرے میں پہنچ گئیں۔ ’’آج پھر بھوکا چلا گیا۔‘‘ امّی نے خالی کمرہ دیکھ کر مایوسی سے کہا۔ ’’کیا کروں اِس لڑکے کا، پریشان کرکے رکھ دیا ہے، نہ جانے یونیورسٹی میں کچھ کھائے گا بھی کہ نہیں۔‘‘ اُنہوں نے ناشتے کی ٹرے ایک طرف رکھی اور بیڈ پر پڑی کتابیں سمیٹنے لگ گئیں۔

یہ احمد کا آئے روز کا معمول تھا۔ امّی وقت پر ناشتہ تیار کرکے اُسے آوازیں دیتی دیتی تھک جاتیں مگر وہ بغیر ناشتہ کیے ہی یونیورسٹی چلا جاتا، اِس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ پیچھے امّی کے دل پر کیا گزرتی ہوگی، اور وہ بیچاری اُس وقت تک پریشان رہتیں جب تک وہ یونیورسٹی سے واپس آکر کچھ کھا نہیں لیتا۔

’’رات کا ایک بجنے والا ہے، یہ وقت ہے تمھارے گھر آنے کا۔‘‘ جیسے ہی احمد گھر میں داخل ہوا، امّی سامنے کھڑی تھیں۔

’’امّی! بتا کر تو گیا تھا آپ کو کہ آج دوستوں کے ساتھ باہر کھانے کا پروگرام ہے۔‘‘

’’مگر تم تو کہہ رہے تھے کہ دس بجے تک واپس آجاؤں گا لیکن اب ایک بجے واپس آرہے ہو؟‘‘ امّی ناراضگی سے بولیں۔

’’بس اچانک دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے کا پروگرام بن گیا تھا، اِس لیے لیٹ ہوگیا۔‘‘

’’حد ہوتی ہے لاپرواہی کی بھی، تم ایک کال کرکے بتا بھی تو سکتے تھے ناں۔ اور تمھارا نمبر بھی مسلسل بند جا رہا تھا، اوپر سے شہر کے حالات اتنے خراب ہیں، تمہیں اندازہ بھی ہے کہ میں کتنی پریشان تھی تمھارے لیے۔‘‘ امّی آنسو ضبط کرتے ہوئے بولیں۔

’’مین گیٹ کی چابی تو تھی ناں میرے پاس، آپ کو کس نے کہا تھا اتنا پریشان ہونے کو، جاکر سو جاتیں۔ اب چھوٹا بچہ تو ہوں نہیں میں کہ مجھے اپنے اچھے بُرے کا بھی پتا نہیں ہوگا۔ اور آپ کی انہی باتوں کی وجہ سے نمبر بند کردیا تھا میں نے کہ گھر جاکر لیکچر تو سننا ہی ہے، تھوڑا کم کیا زیادہ کیا۔‘‘

’’تم یہ کہہ سکتے ہو، بیٹا۔ تم کیا جانو کہ ماں کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔ تمہارے ابّا کے مرنے کے بعد تم بہن بھائیوں کو میں نے جس طرح پالا ہے وہ یا میں جانتی ہوں یا میرا اللہ۔ جب میں مرگئی تو پھر تمہیں احساس ہوگا کہ۔۔۔‘‘

’’خدا کا واسطہ امّی، اب پھر سے شروع نہ ہو جائیے گا یہ فلموں ڈراموں والی باتیں کرنا۔ مجھے بہت نیند آرہی ہے اور میں سونے جارہا ہوں۔‘‘ وہ امّی کی بات کاٹتے ہوئے بولا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

’’یہ اُٹھ کر دودھ پی لو، بھوک لگ گئی ہوگی۔‘‘ امّی جو تھوڑی دیر پہلے تک احمد کے دیر سے گھر آنے پر خفا تھیں اب اُس کے بیڈ کے سامنے دودھ کا گلاس لیے کھڑی بڑے پیار سے کہہ رہی تھیں۔

’’امّی! دعوت پر گیا تھا، کھانا کھا کر آیا ہوں۔ بس اب سونا ہے، پلیز ڈسٹرب نہ کریں۔‘‘ وہ کروٹ لیتا ہوا بولا۔ ’’اور جاتے ہوئے کمرے کی لائٹ آف کر دیجئے گا۔

’’اچھا جب بھوک لگے تو پی لینا،‘‘ اُنہوں نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا اور کمرے سے چلی گئیں۔

اور پھر کئی دنوں بعد آج جب وہ رات دیر سے گھر لوٹا تو ہمیشہ کی طرح آج امّی اُسے ڈانٹنے کے لیے سامنے نہیں کھڑی تھیں، وہ کچھ دیر کے لیے ٹھہرا اور پھر آنکھوں میں آنسو لیے چپ چاپ اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ صبح جب آنکھ کھلی تو احساس ہوا کہ یونیورسٹی سے لیٹ ہوچکا تھا۔

آج پھر وہ بغیر ناشتہ کیے یونیورسٹی جا رہا تھا، بھوک بھی شدت سے محسوس ہورہی تھیں، مگر امّی نہیں تھیں۔ اُس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑی امّی کی تصویر کو چوما اور روتا ہوا یونیورسٹی کے لیے گھر سے نکل پڑا۔

’’جب میں مر گئی تو پھر احساس ہوگا تمہیں‘‘

امّی کی باتیں اُس کے دماغ میں گونج رہی تھیں جنہیں وہ ہمیشہ فلموں ڈراموں والی باتیں کہہ کر نظر انداز کردیا کرتا تھا۔ بعض چیزوں کی قدر اُن کے چھن جانے کے بعد ہوتی ہے، مگر اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کےساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔