’’دنیا میری جیب میں۔۔۔۔ لیکن‘‘

ڈاکٹر صابر حُسین خان  اتوار 14 مئ 2017
یہ تحریر جو اِس وقت آپ پڑھ رہے ہیں، یہ بھی تنہائی کی آگ میں جل کر آپ تک پہنچی ہے۔  فوٹو : فائل

یہ تحریر جو اِس وقت آپ پڑھ رہے ہیں، یہ بھی تنہائی کی آگ میں جل کر آپ تک پہنچی ہے۔ فوٹو : فائل

جب کہنے کو کچھ نیا نہ ہو، جب کوئی نیا کام نگاہ میں نہ سماتا ہو۔ جب کوئی بات دِل میں نہ اُترتی ہو۔ جب اندر اور باہر کے سب موسم بے رنگ وبو کے ہورہے ہوں، تو تنہائی، آدمی کو اپنی جانِب بُلاتی ہے اور مکالمے پر اُکساتی ہے۔ یہ دور سب پر آتا ہے اور اکثر آتا ہے۔

زیادہ تر لوگ، زیادہ دیر تک تنہائی کی تپش برداشت نہیں کرپاتے اور اُلٹے قدموں، لوگوں، باتوں اور محفلوں کی طرف پلٹ آتے ہیں۔ مگر جو آشفتہ سر ہوتے ہیں۔ وہ آتش تنہائی میں خود کو ڈال دیتے ہیں اور ہر طرح کے موسم اور ہر طرح کی دِلی کیفیت سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ اُن کو پرواہ نہیں ہوتی کہ جل جانے کے بعد اُن کی خاک کِس رنگ کی ہوگی۔ کِس راہ پر سجے گی۔ کِس ہوا کی نذر ہوگی۔ کِس منظر میں کِس شکل میں ڈھلے گی۔

تنہائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، دو بدو باتیں کرنے والے، جل کر راکھ ہوجانے والے من پسند نتیجے اور انعام کی خواہش سے بھی آزاد ہوتے ہیں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کی رائے اور پسند نا پسند سے بھی بے نیاز ہوتے ہیں۔ تنہائی سے محبت کرنے والے، پھر خود کو کبھی بھی، کہیں بھی تنہا محسوس نہیں کرتے، بل کہ ایسے مشاغل اور مصروفیات ڈھونڈلیتے ہیں، جو تنہائی میں اُن کے قلب، روح اور ذہن کو مسرور اور مطمئن رکھ سکیں۔

ایسے من پسند مشاغل اور مصروفیات قدم قدم پر بکھری ہوتی ہیں۔ لیکن چوںکہ یہ کسی shelf  یا الماری میں سجے سامان کی طرح کِسی ایک جگہ For Sale  یا ’کرائے کے لیے دست یاب ہیں ‘ کے بورڈ کے ساتھ نہیں ہوتے، اِس لیے عام طور پر نگاہوں سے اوجھل ہی رہتے ہیں۔

یہ تحریر جو اِس وقت آپ پڑھ رہے ہیں، یہ بھی تنہائی کی آگ میں جل کر آپ تک پہنچی ہے۔ بالکل یاد نہیں کہ کتنے ماہ پہلے اِس کا آغاز کیا تھا، کہ تاریخ نہیں لکھ پایا تھا، اور چوںکہ تحریر کی ابتدا کِسی وقتِ خاص کی قید سے آزاد تھی، تو آج کی تاریخ نہیں ڈالی، کہ کچھ مشغلے کچھ تحریریں کچھ تنہائی میں کی جانے والی دِل کی باتیں وقت کی حدود سے باہر بھی ہونی چاہییں۔

نیا قلم کل مجھے رضوان نے تحفے میں دیا۔ دو سال بعد اُس سے ملاقات ہوئی۔ کئی سالوں کے وقفے سے۔ جب بھی وہ میرے پاس آتا ہے تو میری کم زوری کو ساتھ لاتا ہے، یعنی فاؤنٹین پین۔ گھنٹے سے زیادہ دیر کی ملاقات میں جتنی بھی باتیں ہوئیں، رضوان کے اندر کی اُداسی جھلکتی رہی۔ لیکن جونہی میں نے اُس کی ’کم زوری‘ اُس کے تنہائی کے خاص الخاص مشغلے کا ذِکر شروع کیا، اُس کے چہرے اور اُس کی باتوں میں چمک آگئی۔ اور ہم کافی دیر تک اُس روشنی میں بھیگتے رہے۔

رضوان کا شوق سالوں پُرانا ہے۔ اُسے جانوروں سے محبت ہے۔ وہ ہر سال، پورے سال بکرے پالتا ہے اور عیدالاضحی پر اپنے ہاتھ سے ذبیحہ کردیتا ہے۔ پہلے تو وہ اپنے گھر میں ہی اپنے شوق کی تسکین کرتا تھا۔ اِس بار پتا چلا کہ اُس نے ایک دوست کے فارم ہاؤس پر بکروں کے ساتھ دو تین گائیں بھی پالی ہوئی ہیں۔ ہر اتوار، علی الصبح وہ اپنے بچوں کو لے کر اپنے جانوروں کے پاس چلا جاتا ہے اور اُن کے ساتھ چار چھے گھنٹے گزار کر پورے ہفتے کی توانائی لے کر واپس آتا ہے۔

’’اور سر! گاڑی میں گھر سے باہر پارک کرتا ہوں۔ پارکنگ کی جگہ پر گھر میں، میں نے آپ کے کمرے سے بڑا ایک پنجرہ بنوادیا ہے اور اُس میں ماشاء اللہ آج کل سات بِلّی کے بچے رہتے ہیں۔ آفس سے واپس آکر دو تین گھنٹوں کے لیے اُن کو کھولتا ہوں۔ باہر ابھی اِس لیے نہیں چھوڑتا کہ پھر کُتّے اُن کو نہیں چھوڑیں گے۔ ذرا اور بڑے ہوجائیں تو آزاد کردوں گا۔‘‘

یہ سب بتاتے ہوئے رضوان کی آنکھیں خوشی سے جگمگارہی تھیں۔ ’’کیا کِسی خاص بلّی کے بچے ہیں؟ Percian  ؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’نہیں سر! عام گھروں میں پھرنے والی ایک بلّی ہے۔ اُس نے ہمارے گھر میں بچے دیے تو میں نے اُن کے لیے پنجرہ بنوادیا۔ روز صبح مرغی کا صاف گوشت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی شکل میں قصائی گھر پر لے آتا ہے۔ وائف اُن کو ابال کر بلونگڑوں کو کھلاتی ہیں۔ دوپہر میں دودھ اور روٹی اور رات میں پھر گوشت۔ بچّے اُن بچوں کے ساتھ مگن رہتے ہیں اور میری تھکن بھی کم ہوجاتی ہے، اُن کے ساتھ۔‘‘

رضوان اپنی تھکن کم کرنے اور اپنی توانائی کی چارج کرنے کے اپنے ذرائع بتارہا تھا۔ اُس کی خوشی میں، میں بھی خوش ہورہا تھا۔ میری تھکن دور ہورہی تھی اور مجھے توانائی مل رہی تھی۔

آج رات کے اِس پہر جب سب سورہے ہیں، مجھے یہ تحریر لکھتے ہوئے بھی اپنے اندر توانائی محسوس ہورہی ہے، کہ میری تنہائی کے ان گنت مشاغل میں سے لکھنا اور وہ بھی فاؤنٹین پین سے لکھنا، ایک ایسی Activity  ہے جس نے مجھے ہمیشہ قلب وروح کی توانائی سے نوازا ہے۔

ضروری نہیں کہ آپ کی دل چسپی کا محور بھی رضوان کے شوق کی طرح جانور ہوں یا میری طرح آپ بھی لوگوں کے مسئلے حل کرنے اور پھر راتوں کی تنہائیوں میں کاغذ وقلم سے مکالمے کرکے اپنی انرجی چارج کرتے ہوں۔

ہر فرد کی دل چسپیوں کا دائرہ مختلف ہوتا ہے۔ کچھ شوق کچھ مشغلے ہماری تھکن کو دور کرتے ہیں اور ہمارے روحانی ونفسیاتی ہیولے کو ہلکا پُھلکا بنا تے ہیں۔ اور کچھ مشاغل ہمارے قلب و اعصاب پر بوجھ ڈالنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ اِس حوالے سے ہمیں اپنے دِل کی آواز سننے کے ساتھ ساتھ اپنے فہم اور اپنی دانش کو بھی استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

شوق اور مشاغل کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے جو خالصتاً ہماری ذاتی سوچ سے ہم آہنگ ہوتے ہیں اور اُن میں دِل لگانے کے لی ہمیں کِسی اور کی ضرورت نہیں پڑتی، جب کہ دیگر دل چسپیوں اور مشغلوں کے لیے ہم خیال دوستوں یا لوگوں کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ تاش ہم اکیلے بھی کھیل سکتے ہیں اور چار سے چھے افراد بھی اِس کھیل میں شامل ہوسکتے ہیں۔ شطرنج کے لیے ایک ذہن مخالف کی ضرورت پڑتی ہے۔ سوئمنگ ہم اکیلے کرتے ہیں لیکن  Tennis  کے لیے پارٹنر کی ضرورت ہوتی ہے۔ کرکٹ، ہاکی اور فٹبال کیلئے بہت سے ساتھیوں کا ہونا ضروری ہے۔

وہ زمانے پُرانے ہوگئے جب مشاغل کی فہرست میں ہر مُلک کے ڈاک ٹکٹ اور پُرانے سکّے جمع کرنا بھی شامل تھا۔ آج کل کے نوجوانوں نے شاید ہی ڈاک ٹکٹ اور پُرانے سکّے دیکھے ہوں۔ ہر عہد اپنے ساتھ اپنے وقت کے مشغلے لاتا ہے۔ آج کا الم ناک مشغلہ اسمارٹ فون اور اُس سے منسلک ہزار طرح ہزار رنگ کے پروگرامز اور ایپس ہیں۔ عمومی نقطۂ نگاہ سے اِس مشغلے نے ہمارے اندر کی تنہائی کو ریچارج کرنے کا آسان وسیلہ فراہم کردیا ہے۔

1982 میں جیمزہیڈلے چیز کا ایک ناول پڑھا تھا۔ اُس ناول کا عنوان آج واقعی عملی شکل میں ڈھل چکا ہے ’’The World in my Pocket‘‘۔ ہم دنیا میں رہتے ہوئے بھی رشتوں ناتوں سے بیگانے ہوچکے ہیں اور ہر چیز سے بے نیاز ہوجانے کے باوجود اسمارٹ فون کی بدولت روز نت نئی دنیاؤں سے آگاہ بھی ہورہے ہیں۔

آج کے دور کے مشغلے نے بظاہر ہماری تنہائی کو ختم کردیا ہے، لیکن اِس مشغلے نے انسان کی روح کی جڑوں کو کھوکھلا اور کم زور کردیا ہے۔ اور انسان کا دوسرے اِنسانوں کے ساتھ حقیقی تعلق قائم رکھنے کی بجائے اُسے وقتی Likes, Coments, Share  کی عادت میں اُلجھا دیا ہے۔ انسان کے دوسرے انسانوں کے ساتھ اِس Virtual تعلق نے اُس کی تنہائی تو مٹادی ہے لیکن اُس کے اندر سے انسانیت کے بنیادی اوصاف کا صفایا کرڈالا ہے۔ ہزار Likes  اور پانچ سو Comments  کے بعد اب ہر فرد خود کو دنیا کا سب سے عالم فاضل، طاقت ور، مال دار لیڈر سمجھنے لگا ہے۔ باتوں کی بنیاد کو سمجھے بِناتعریف یا تنقید اور بحث میں اُلجھنے لگا ہے۔

ہر دو صورتوں میں اُس کے خون میں CORTISOLاور ENDORPHINS کی نامناسب تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور اُس کی صحت، شخصیت اور نفسیات، طاقت وتقویت پانے کی بجائے مختلف النّوع بیماریوں کیے لیے دروازے کھول رہی ہیں۔ مشغلہ وہی اچھا ہوتا ہے جو Healthy اور Productive اور Relaxing ہو۔ جِس میں جسمانی توجہ اور توانائی خرچ کرکے ہمیں روحانی، نفسیاتی اور قلبی سکون، راحت اور طاقت مِل رہی ہو اور ہماری زندگی میں آرام اور اطمینان پیدا ہورہا ہو۔

ہر ایسا مشغلہ نیا ہویا پُرانا، پُرانے وقتوں کا ہو یا نئے عہد کا، ہمارے کاموں کے Stress کو کم کرتا ہے اور ہمارے خون ودماغ میں متحرک ہارمونز کی تعداد کو معتدل اور متناسب رکھتا ہے اور ہمارے لیے خوش گوار زندگی کا ضامن بنتا ہے۔

اب یہ ہماری Choice  ہے کہ ہم اپنے دیگر کاموں کی طرح اپنے لیے کِس طرح کے مشغلوں کو منتخب کرتے ہیں۔ ہمارے اندر راحت وفرحت کا احساس بیدار کرنے والے مشغلے یا ہماری رہی سہی توانائی کو Drain Out  کر ڈالنے والے مشغلے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔