بولنا ہمارا بھی حق ہے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 13 مئ 2017

سوہن قادری ایک ایسے دانشور تھے جو ساری دنیا میں جمالیات اور روحانیت پر لیکچر دیتے تھے انھوں نے کہا تھا ’’جب سوال کرنے والا سوال میں مرتا ہے تو جواب رقص کرتا ہے‘‘ انھوں نے بدھا کے پیروکاروں اور کسی دوسرے مذہب کے پیروں کے درمیان فرق کو ایک کہاوت کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی۔ ایک انسان کنویں میں گر گیا ایک بدھا کا پیروکار ادھر سے گزرا اس نے کنویں میں گرے ہوئے انسان کو دیکھا اور سوچا اگر میں نے اسے ایک کنویں سے نکالا تو وہ دوسرے کنویں میں گرجائے گا۔ اسے اس بات پر غوروتدبرکرنا چاہیے کہ وہ کنویں میں کیوں گرا ہے۔

پھر ایک عیسیٰ کا پیروکار ادھر سے گذرا اس نے کنویں میں گرے انسان کو دیکھا تو اس کی مدد کرنے کے لیے لوگوں کے پاس گیا اوران سے رسی مانگی لوگوں نے اسے رسی دے دی حضرت عیسیٰ کے پیروکار نے کنویں میں جب رسی ڈال کر اس انسان کو نکالا تو سب لوگوں نے اس کی تعریف کی اس واقعے کے بعد حضرت عیسیٰ کا پیروکار ہر وقت اپنے ساتھ رسی رکھتا ہے اورکنویں میں گرے ہوئے انسانوں کو تلاش کرتا رہتا ہے تاکہ رسی ڈال کر ان کو نکال سکے اور اگر کنویں میں کسی انسان کو نہیں دیکھتا تو مایوس ہوجاتا ہے اب وہ رسی اس کے گلے کا ہار بن گئی ہے ۔

ہمیں دونوں ہی پیروکار وں کی نفسیات اور ذہنیت والے حکمران نصیب ہوئے ہیں۔ پچھلے 70سالوں سے ہم نہ صرف ان کی حرکات وسکنات و اقدام کو بغور دیکھ رہے ہیں بلکہ ہماری ساری کی ساری توجہ ان پر مذکور ہے اور ہم 70 سالوں سے ان کی مدد کے منتظر ہیں اس بات پر تو سب ہی کا اتفاق ہے کہ ہم سب بیس کروڑ نجانے کب سے مسائل کے اندھے کنویں میں گرے ہوئے ہیں۔ بدھا کے پیروکاروں کی نفسیات اور ذہنیت والے حکمران ہمیں کنویں سے اس لیے باہرنکالنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ اگر ہمیں ایک کنویں سے نکالا تو ہم دوسرے کنویں میں جا گریں گے۔

اس لیے وہ ہمیں نکالنے کے بجائے سال ہا سال سے اسی بات پر غور و فکر میں مصروف ہیں اور اس قدر مگن ہیں کہ انھیں اپنا ہی کوئی ہوش نہیں ہے نہ انھیں پاناما لیکس کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی نیوز لیکس کا کوئی خطرہ ہے بس وہ ہمارے لیے دن رات سوچ سوچ اپنی جانیںہلکان کیے جارہے ہیں ۔اجلاس پر اجلا س ہورہے ہیں میٹنگوں پر میٹنگیں ہورہی ہیں۔ کمیشن پرکمیشن بن رہے ہیں حکمرانوں کی ساری فوج صرف اس ہی کام میں مصروف ہے۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کہ یہ سب کے سب کنویں میں کیوں گر ے ہوئے ہیں۔ نجومیوں اورجوتشیوں سے رابطے کیے جار ہے ہیں کچھ ٹیمیں بنگلہ دیش اور دیگر ممالک جا نکلی ہیں اور وہ وہاں جادوگروں اور عاملوں کی تلاش میں مصروف ہیں فاعل پر فاعل نکالی جارہی ہیں کچھ بڑے باباؤں کو چلے کاٹنے پر لگادیا گیا ہے لیکن بات ہے کہ ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ رہی ہے کیونکہ انھیں یہ بات سمجھ میں بالکل نہیں آرہی ہے کہ اتنے دعوؤں، وعدوں اور اعلانات اور بڑے بڑے منصوبوں کے افتتاح کے باوجود یہ بیس کروڑ مسائل کے کنویں سے باہرکیوں نہیں آرہے ہیں اب تو ان کے کچھ ساتھیوں نے برملا یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اصل میں یہ بیس کروڑ خود ہی کنویں سے باہر نہیں آنا چاہتے ہیں اور الزامات ہم پر لگا رہے ہیں ۔

مسائل میں دھنسے رہنا کنویں میں پڑے رہنا خود کو پسند ہے اور برا بھلا ہمیں کہتے رہتے ہیں یہ تو ہوئے بدھا کے پیروکاروں کی ذہنیت رکھنے والے ہمارے حکمران ۔اب دوسری نفسیات اور ذہنیت والے ہمارے پلے میں پڑے ہوئے حکمرانوں کی بات کرتے ہیں۔ یہ بہت ہی دلچسپ واقع ہوئے ہیں چند لوگوں کوکنویں سے نکال کر پھولے نہیں سماتے ہیں چونکہ ان کو اتنی موٹی اور لمبی اور بڑی رسی مل ہی نہیں رہی ہے کہ وہ ایک ساتھ بیس کروڑ لوگوں کوکنویں سے نکال سکیں، اس لیے اللہ اللہ خیر صلا ۔حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں سب حکومتیں کنویں میں جھانکتی رہیں غوروفکرکرتی رہیں اجلاس ، میٹنگیں کرتے رہے اور کمیشن بناتے رہے پریشان پر پریشان ہوتے رہے آنے والے جانے والوں کو ذمے دار ٹھہراتے رہے اور جانے والے آنے والوں پر ذمے داری ڈالتے رہے بس 70سالوں سے یہ سب ایک دوسرے پر الزامات کے پتھر پھینک رہے ہیں اور کنویں میں پڑے بیس کروڑ لوگ بس پتھروں کو ادھر سے ادھر آتے جاتے دیکھ رہے ہیں۔

شاہ اوئی دی پوس کے سامنے کھڑے ایک اندھے کاہن نے کہا تھا ’’گو تم بادشاہ وقت ہو لیکن بولنا صرف تمہارا ہی نہیںمیرا بھی حق ہے ‘‘ اس لیے حکمرانوں اب تم نہیںبولو گے ہم بیس کروڑ بولیں گے کیونکہ بولنا صرف تمہارا ہی نہیں ہمار ا بھی حق ہے اگر تم ہمیں مسائل کے اس اندھے کنویں سے نہیں نکال سکتے ہو تو پھر خدارا آؤ ہمارے خوابوں کو سولی پر چڑھا دو ہماری خواہشوں کو اتنا ذلیل و خوار کردو کہ یہ ہم سے کہیں دور بھاگ جائیں ہماری آوازوں کی اتنی بے حرمتی کردو کہ یہ ہم سے ناراض ہوجائیں ہمیں اتنا تڑپاؤ اور ترساؤ کہ ہمیں اپنے آپ سے وحشت ہونے لگ جائے ہم یہ زندگی جی جی کر تھک گئے ہیں، اب ہمارا حال یہ ہوگیاہے کہ ’’ مرمتیں کرکر کے روز تھکتا ہوں ۔

روزمیرے اندر نیا نقص نکل آتا ہے‘‘ ایک امریکن منصف لکھتا ہے ’’ جب مجھے خیال آتا ہے کہ ایسے ایسے بدبخت لوگ ہمارے اندر بھی ہیں تو مجھے بڑی شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اپنے اندر ہی اندر جلتا بھنتا رہتا ہوں اس سے تو یہ ہی بہتر ہوکہ ملک افریقہ سے سانپ لاکر ہمارے میدانوں میں کھلے چھوڑدیے جائیں یا جزائرغرب الہند سے بچھو اور زہریلی مکڑیاں منگوا کر باغوں کے اندرچھوڑ دی جائیں ‘‘ جیر مائی کولیرکی کہی گئی بات سب کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ ’’ لگا تار دھکم پیل اور مضبوط یقین سے مشکلات بھی شرمندہ ہوجاتی ہیں اور جو بات ناممکن معلوم ہوتی ہے وہ بھی ممکن بن جاتی ہے ۔‘‘

یہ بھی یاد رہے کہ منظر ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں آج جس جگہ ہم ہیں اور جس جگہ تم ہو یہ دونوں جگہیں بدل سکتی ہیں ۔ وقت تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکلا جارہا ہے سوال کرنے والوں کو سوالوں میں مرنے سے روک لو ورنہ جواب ہر طرف رقص کررہے ہونگے وہ جواب جن کا کوئی جواب نہیں ہوگا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔