ریا ست سے ماڈرن ریاست کی طرف

جاوید قاضی  ہفتہ 13 مئ 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ہماری جمہوریت کی اپنی ایک مختصر سی تاریخ ہے، اس ملک کی تاریخ نسبتاً کچھ طویل ہے۔ میں اپنی ریاست کو اگر آگے نکلتی ہوئی ریاست کہوں اور اْن ریاستوں میںاگر اْن کا شمارکروں جو ماڈرن ریاستیں ہیں یا ہونے جارہی ہیں  تو اس پہلو سے بھی ہم واحد ہیں کہ ہم بنے1947میں اور ہم نے آئین دیا چھبیس سالوں کے بعد ،آدھا ملک گنوا کر۔ اتنا آسان نہیں ہے آگے نکلنا اور ہم پر تو بہت بیتی۔ لیکن جس طرح سے نیوز لیکس نے بلآخر کروٹ لی، وہ دن پاکستان کی تاریخ کا اہم دن تھا۔

کیونکہ اْس دن یقین ہوا کہ سِِول وفوج دونوں آئین کے تابع ہیں، جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہیں۔ بہت کٹھن تھا یہ سفر۔ ہماری سکیورٹی پیرا ڈائم میں جمہوریت کو پاکستان کی نیشنل سکیورٹی اسٹرکچر کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔ جمہوریت ،آئین کی بالادستی، وفاق، شرح نموکی رفتارتیزہونا ،درآمدات بڑھنا، زرِمبادلہ کے ذخائر، توانائی کی مضبوط پالیسی اورسب سے بڑھ کر انسانی وسائل کا صحت مند ہونا ۔ صحت مند غذا ، صاف پانی ، بچوں کو حفاظتی ٹیکے، زچگی کے لیے بہتر اسپتال، اسکول وغیرہ وغیرہ یہ سب نیشنل سکیورٹی اسٹرکچر کے پہلو ہیں اگر ہم ماڈرن ریاست ہیں تو ؟ ہمیں جو سرحدوں پر تضادات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کا بنیادی پہلو داخلی ہے۔افغانستان کہتا ہے کہ یہاںسے وہاںدہشت گرد جاتے ہیں۔ہم کہتے ہیں دہشت گرد  وہاں سے یہاں آتے ہیں۔

سعودی عرب جو ایران سے پراکسی جنگ لڑ رہا ہے، ایران سمجھتا ہے کہ اس کے لیے پاکستان کی سر زمین استعمال ہوتی ہے ۔ ہمارا معاملہ ہندوستان کے ساتھ اس طرح نہیں ہے۔

ہندوستان کی سیاست کے اندر پاکستان دشمنی جڑوں تک موجود ہے۔ دنیا کی نئی سمت میں کل جو امریکا ہمارے ساتھ تھا، آج ہندوستان کے ساتھ ہے۔ اسرائیل کی بقا ء اس میں ہے کہ مسلمان ، فرقہ واریت میں پھنسے ہوئے ہوں۔ وہ ایران سے بہت خائف ہیں  اور سعودی عرب سے قریب ۔ اس قربت کی بنیاد اسرائیل کا اپنا زاویہ ہے۔ یوں تو ہم بھی سعودی عرب کے قریب ہیں مگر ہمارا ایٹمی طاقت  ہونا ایک مسلم ملک کی حیثیت سے اْسے ، کھٹکتا ہے اس کے اپنے نیشنل سکیورٹی  کے زاویے سے، کشمیر نے ہندوستان کو  ہلا دیا ہے۔

مودی کی آہنی ہاتھوں والی پالیسی نے اْسے اور بِگاڑ دیا ہے۔مقبوضہ کشمیر، ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل370 کے تحت مکمل آزاد ریاست نہ سہی مگر ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے برعکس ایک الگ  اورآزاد  حیثیت رکھتی ہے۔ جواہر لال نہرو نے یا اس وقت ہندوستان کی سیاسی قیادت نے 1951میں اِس آرٹیکل کے پیچھے جس اصول کی پیروی کی تھی کہ کشمیر کے لوگ خود فیصلہ کریں کہ انھوں نے اپنے مستقبل کا تعین کِس سمت کرنا ہے۔ یہ شَق اْن کے آئین میں  تو موجود ہے لیکن حقیقت میں کہیں نہیں۔ اور پھر اس سے حقیقتیں کْھلتی ہیں ہندوستان کے Rule of Law  کی اور آئین بالادستی کی۔

ہمارے ہاں بھی ہندوستان دشمنی اگر چہ سیاست میں جڑیں مضبوط نہیں رکھتی مگر سیکیورٹی پیرا ڈائم میں ایک عجیب انداز میں موجود ہے اس سے پھر مذہبی انتہا پسندی کوآکسیجن مِلتی رہی۔ اْس سے کشمیر کی میرٹ کہیں نہیں جاتی مگر کشمیرکی میرٹ اور انتہا پسندی کو گڈمڈ نہیں ہونا چاہیے۔ یوں کہیے کہ ہم نے بہت بڑی قیمت ادا کی اْن سائیڈ افیکٹس کی جو ہمارے نیشنل سیکیورٹی کے بہت بڑےcomplexed structure  کو بلیک اینڈ وائٹ کرکے دیکھنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ہماری جمہوریت ہمارے قانون کی حکمرانی ، وفاق ، شرح نمو، انسانی وسائل کی ترقی وغیرہ وغیرہ ثانوی ہوگئی ، مگر ہندوستان کے ساتھ ایسا نہ تھا۔

اس کی جمہوریت اس کے آئین کی بالادستی مستقل مزاجی سے چلتی رہی اور باقی مسائل اپنی جگہ۔ سیکیورٹی کے موقف پر ہندوستان اور چین کے تضادات بہت سنگین ہیں۔ تبت کی آزادی کی تحریک کے دعویدار ’’دلائی لاما‘‘ کہیں اور نہیں ہندوستان کی ریاست ’ہماچل پردیش‘ یا لداخ‘ میں جلا وطنی کی زندگی بسرکررہے ہیں اور پہلی جنگ ہندوستان کی چین کے ساتھ1962میں لڑی گئی تھی۔ قصہ مختصر کہ اِن تضادات کے باوجود بھی، ہندوستان اور چین کی تجارت اربوں ڈالر پر مبنی ہے  اور چین کی ایکسپورٹ ہندوستان میں روزبروز بڑھتی جارہی ہے ، مگر سیکیوریٹی کے اعتبار سے آج کل امریکا ہندوستان کو چین کے سامنے کھڑا کررہا ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں تجارت کو خارجہ پالیسی کا اہم ستون سمجھنا چاہیے  نہ کہ خارجہ پالیسی خود نیشنل سیکیورٹی کے کلاسیکل انداز میں تابع ہو۔ ایران ہم سے کوسوں دور ہے وہاں کی جمہوریت مذہبی زعماء کے تابع ہے اور وہاں معاشرہ اندر سے کھوکھلا ہوتا جارہا ہے۔ وہ اپنی غیر ذمے داریوں کا ذمے دار ہمیں ٹھہرا سکتا ہے جس طرح کشمیرکی آزادی کی جنگ کا ذمے دار ہندوستان ہمیں ٹہراتا ہے۔جس طرح افغانستان اپنے داخلی معاملات کا ذمے دار ہمیں ٹہراتا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پراکسی جنگوں کا سب سے حساس علاقہ یہی ہے جہاں ہم ہیں۔

ہماری فوج جمہوریت کے تابع ہے یہ بات اب واضح ہو جانی چاہیے۔ ہماری اپوزیشن کو اب ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ اقتدار میں آنے کے لیے فوج کے ادارہ کو استعمال کرنا یا اس کا  مفاداتاً پیچھے نہیں کھڑا ہونا۔

اِک نئی سمت کا تعین ، اْس ٹویٹ کے بعد ، اْس ٹویٹ کو واپس لینے سے ہوا ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ذمے داری اور سنجیدگی سے، اپنے ذاتی مفادات سے آگے نکل کر اس ملک کو حقیقی ماڈرن ریاست بنانے کے لیے، اس سمت کو جو ہم نے لی ہے اسے اور مضبوط کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔