بورڈ میں پھر تبدیلی کی آندھی چلنے لگی

سلیم خالق  ہفتہ 13 مئ 2017
شہریارخان کو اگست تک عہدے کی میعاد مکمل کرنے کا وقت دیا جائے گا. فوٹو: فائل

شہریارخان کو اگست تک عہدے کی میعاد مکمل کرنے کا وقت دیا جائے گا. فوٹو: فائل

’’یار بُرا نہ ماننا تم میڈیا والے بڑے خوش فہم ہو، تم کو کیا لگا کہ تمہارے جیسے چند عام صحافیوں کی خبروں یا کالمز سے ڈر کر حکومت اپنا کوئی فیصلہ تبدیل کر لے گی، نہیں میرے بھائی نہیں، اگر ایسا ہونے لگے تو سارے اپنے ناراض ہو جائیں، یہاں سلمان خان والا معاملہ ہے کہ ایک بار اگر کمٹمنٹ کر لی تو اپنے آپ کی بھی نہیں سنتا، حکمرانوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ نجم سیٹھی کو چیرمین کرکٹ بورڈ بنانا ہے، اب اگر وہ خود انکار کر دیں تو اور بات ہے ورنہ شہریارخان کے کمرے پر ان کے نام کی تختی لگنا یقینی ہے، دوست ہمارے ملک میں میڈیا کی خبریں ٹوٹی سڑک کی مرمت کرانے یا ایسے ہی کسی چھوٹے کام کیلیے تو کام آ جاتی ہیں، بڑے معاملات میں انھیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، اب زیادہ نہ پوچھو تو بہتر ہے، ارے ہاں تم کبھی پاناما گئے ہو،نہیں، اچھا ضرور جانا سنا ہے اچھی جگہ ہے‘‘

یہ کہہ کر میرے وہ قریبی اور باخبر دوست واپس چلے گئے مگر میں گہری سوچ میں گم ہو گیا، واقعی ان کی باتیں ٹھیک تو ہیں، ہم اپنے شعبے کی ہی بات کرتے ہیں، کرکٹ میں کئی چیزوں کی نشاندہی کرچکے کیا فرق پڑا، ہارون رشید کو اشتہار دے کر ڈائریکٹر آپریشنز بنانے کی خبر ان کے آنے سے کئی ماہ پہلے شائع کردی، مگران کا تقرر ہونا تھا وہ ہوگیا، اسی طرح کی بے شمار باتیں ہیں ذکر کرنے کا کیا فائدہ البتہ میں ہمیشہ ایک بات کہتا ہوں کہ ہم صحافیوں کا کام صرف نشاندہی کرنا ہے، ہم بتا سکتے ہیں کہ ’’فلاں پل ٹوٹ رہا ہے‘‘ خود جا کر مرمت نہیں کر سکتے، لہذا اگر حکام ہماری کسی بات پر ایکشن نہ لیں تو افسوس کرنے کے بجائے بس ایمانداری سے اپنا کام کرتے رہنا چاہیے، میں اپنے دوست کی بات سے متفق ہوں کہ اعلیٰ حکام کو جو فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ ضرور کرتے ہیں، جیسے نجم سیٹھی کی ہی بات کر لیتے ہیں، عام تاثر یہ ہے کہ حکومت دباؤ کا شکار تھی لہذا اس نے انھیں چیرمین پی سی بی بنانے سے گریز کیا۔

مگر درحقیقت انھوں نے خود یہ معاملہ التوا کا شکار کرایا، پاناما لیکس، فوج سے محاذ آرائی و دیگر معاملات کی وجہ سے بظاہر حکومت مشکلات کا شکار تھی، نجم سیٹھی خود جانتے ہیں کہ وہ متنازع شخصیت کے مالک اور ان کی مخالفت بہت ہے،لہذا ابھی چپ کر کے بیٹھے رہنا بہتر ہوگا، رہی بات عمران خان کی تو وہ کب سے کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں کیا انھوں نے دے دیا؟ ان کے ڈرسے نجم سیٹھی کا تقرر کیسے رک سکتا تھا، بس تھوڑی تاخیر ہوئی، اب پھر بورڈ میں تبدیلی کی آندھی چلنے لگی ہے، گوکہ گزشتہ دنوں یہ خبریں سامنے آئیں کہ شہریارخان کو اگست تک عہدے کی میعاد مکمل کرنے کا وقت دیا جائے گا، مگر اصل میں ایسا نجم سیٹھی نے خود کرایا، ان کے شریف فیملی سے گھریلو تعلقات ہیں لہذا انتظار کرنے کا کہہ دیا،اس دوران پاناما لیکس اور ٹویٹ والا معاملہ بھی بظاہر ختم ہو چکا، شاید نجم سیٹھی کے چاہنے والے مٹھائیوں کے آرڈر بھی دے چکے ہوں گے، جلد ہی شہریار خان کے استعفے کی منظوری کااعلان سامنے آ سکتا ہے۔

پھر وہی رسمی انتخابات اور بورڈ کا تخت سیٹھی صاحب کے حوالے، ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جہاں اتنا انتظار کر لیا چیمپئنز ٹرافی بھی ہونے دی جائے، ٹیم سے حکام کو زیادہ امیدیں نہیں ہیں، لہذا موجودہ چیرمین کو ہی صلواتیں سننے دیں، پھر آرام سے عہدہ سنبھالیں، ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے کہ گورننگ بورڈ کی معیاد گوکہ اگست میں ختم ہو جائے گی لیکن یہ تجویز زیرغور ہے کہ بعض موجودہ ارکان کو برقرار رکھا جائے، وزیر اعظم ہاؤس سے نجم سیٹھی کا نام تو آنا لازمی ہے، ان دنوں گورننگ بورڈ کے نئے ارکان کی تقرری کا طریقہ کار طے ہو رہا ہے،لازمی طور پر اس میں ہم خیال لوگوں کو ہی لایا جائے گا، لہذا اس کے ذریعے بھی چیرمین بننے میں مشکل نہیں ہوگی، بساط بچھی ہوئی ہے، اپنی مرضی کی چالیں چلی جا رہی ہیں، کسی کو اس خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے ڈر کر کوئی فیصلہ تبدیل ہوگا، رہی بات کرکٹ کی تو کسی کو فکر ہوتی تو اس کا یہ حال نہ ہوتا، نجم سیٹھی پی ایس ایل کا کریڈٹ لیتے ہیں، ذرا اسپاٹ فکسنگ کی بھی تو بات کریں، ہماری کرکٹ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی، ہر چند روز بعد کسی کھلاڑی کا نام سامنے آتا ہے، پی ایس ایل نے ہماری کرکٹ کو فائدہ پہنچایا یا نقصان فیصلہ خود کر لیں۔

سیٹھی صاحب کا ابھی میں نے مرزا اقبال بیگ کے پروگرام ’’اسپورٹس پیج‘‘ میں انٹرویو کا کلپ دیکھا جس میں وہ انتہائی غرور سے کہہ رہے ہیں کہ ’’کوئی بھی کورٹ کیس کر لے کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘ ایسے نہ کہا کریں، دنیا میں بڑے بڑے آئے اور گئے جو سوچتے تھے کہ ان کے بغیر معاملات نہیں چل سکتے لیکن وہ غلط تھے، سنا ہے ماضی میں بادشاہ خوش ہو کر اپنے حواریوں سے کہتے تھے کہ ’’مانگو کیا مانگتے ہو‘‘ جواب میں کوئی ریاست تو کوئی کچھ اور مانگتا، اب زمانہ بدل گیا مگر ماضی والا سسٹم برقرار ہے، اب لوگ کرکٹ بورڈ کی سربراہی بھی مانگ لیتے ہیں جو ہنستے کھیلتے مل بھی جاتی ہے۔

کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اپنوں کو ’’نواز‘‘ کر وہ ملک کے ساتھ کتنا غلط کر رہے ہیں، افسوس کی بات ہے کہ اب کوئی آواز بھی نہیں اٹھاتا، بس ایک عمران خان ہی ہیں جو چلاتے رہتے ہیں، جب تک ہم غلط کو غلط نہیں کہیں حالات ایسے ہی چلتے رہیں گے، سیاسی مداخلت نے دیگر کھیل تو تباہ کر دیے تھے ایک کرکٹ ہی بچی تھی اب اس کا بھی تیا پانچا ہو رہا ہے، جیسے اب ہم فخر سے بچوں کو بتاتے ہیں کہ فلاں سال ہاکی ورلڈکپ جیتا تھا اور اولمپکس میں گولڈ میڈل ملا تو وہ حیرت سے دیکھتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ کرکٹ میں بھی اب جلد وہ وقت آنے والا ہے جب ویسٹ انڈیز کو ہرا کر بھی مٹھائیاں بٹیں گی اور ملک میں عام تعطیل کا اعلان ہوا کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔