خوشیاں بانٹئے

شیریں حیدر  اتوار 14 مئ 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ہمارا بیک گراؤنڈ دیہات کا ہے اس لیے ہمارے اندر سے دیہہ کبھی نہیں نکلا، چاہے ہم دنیا میں کہیں بھی چلے گئے… گاؤں میں رہے نہیں مگر گاؤں سے رابطہ رہا، جانا آنا رہا اور ہم نے گاؤں کے طرز معاشرت اور رہائش کو بہت قریب سے دیکھا۔ جو باتیں ہمیں ہماری تربیت کے اولین برسوں میں سکھائی گئیں، انھیں ہم نے اپنے پلو سے باندھ لیا اور آج تک جو کچھ برت رہے ہیںاسی گٹھری میں سے نکال کر برت رہے ہیں۔

ہمیں علم ہے کہ جو لوگ شادی بیاہ کے موقع پر اپنے گھروں میں ناراض ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کہ دولہا سے کم کوئی منانے جائے گا تو نہیں آئیں گے… اندر خانے شادی میں شرکت کی تیاریاں مکمل ہوتی تھیں مگر اس لمحے کا انتظار ہوتا تھا کہ جب دولہا سہرا باندھ چکے اور بارات کی روانگی سے پہلے انھیں منانے کے لیے آئے۔ ہم بھی ہر شادی میں یہ سوال کرتے تھے کہ دولہا نے کسے منانا ہے۔

جو لوگ شادی پر اتنی بڑی ناراضی بنا کر بیٹھ جاتے تھے، وہ مرگ کے موقع پر سب سے آگے بڑھ چڑھ کرکام کار کر رہے ہوتے تھے۔ میں نے ایک بار کسی ایسی ہی رشتہ دار خاتون سے سوال کیا کہ ان کے گھر والوں کی تو مرنے والے سے ناراضی چل رہی تھی… کہنے لگیں خوشیوںکے موقع پر تو خود شریک کرنا پڑتا ہے، مرنے کے بعد کیا ناراضی، کیا مرنے والا منانے کو آ سکتا ہے؟؟

مجھے آج تک ان کا یہ فقرہ یاد ہے اور میں نے اس کے بعد کئی مواقع پر دیکھا کہ بڑی سے بڑی ناراضی اس وقت بھول جاتی ہے جب کوئی دنیا سے چلا جاتا ہے۔ کیا ہم اتنے کٹھور ہیں کہ کسی کو منانے کے بجائے اس کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں، اس نے کون سا دیکھنا ہے کہ کون اس کے جنازے میں شریک ہوا اور کون نہیں۔

’’ خوشیوںمیں شریک کرنا پڑتا ہے… ‘‘ کیا ہم کبھی سوچتے ہیں کہ ہماری خوشیاں اس وقت تک مکمل نہیں ہوتیں جب تک ہم ان میں اور لوگوں کو بھی شامل نہ کریں۔ تکلیف میں تو انسان اندر خانے تنہا بھی رو لیتا ہے مگر خوشی کاکوئی بھی موقع اپنے پیاروں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ بڑے غم اور دکھ تو ہرکوئی بٹانے کو آتا ہے مگر خوشی کے موقع پر دوسروں کو بلانا پڑتا ہے۔ انھیں خود اپنی خوشی میں شامل کرنا پڑتا ہے۔

بچوں کی پیدائش اور عقیقہ، سالگرہ، امتحان میں کامیابی، ملازمت میں ترقی، منگنی اور بیاہ، غرض ایسے مواقع پر ہم اپنے پیاروں کو بلاتے اور ان کے ساتھ مل کر اپنی خوشیوں کو دوبالا کرتے ہیں۔چند دنوں میں ماہ رمضان کی آمد آمد ہے اور اس کے ایک ماہ کے بعد عید سعید کی۔ ہم سب لوگ ابھی سے منصوبے بنا رہے ہیں کہ کس کو کب افطار پر بلانا ہے… عید کہاں اور کیسے منانی ہے۔ ان سب منصوبوں میں صرف ہمارے اپنے پیارے ہی شامل ہیں، جن سے ہمارا کوئی نہ کوئی رشتہ ہے… کیا کسی کی پلاننگ میں وہ لوگ شامل ہیں جن سے آپ کا کوئی رشتہ نہیں مگر اللہ تعالی نے انھیں آپ کے بھائی اور بہنیں کہا ہے، آپ کے مسلمان بھائی اور بہنیں ؟؟

اپنی خوشیوں کے منصوبے بناتے وقت ہم اوپر دیکھنے کے بجائے اگر نیچے دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ کتنے ہی ایسے مجبور ، لاچار اور سفید پوش لوگ ہیں جن کے ہاں ماہانہ اتنے راشن کی ضرورت ہے جتنا ہم اپنے گھر میں کسی بھی نوعیت کی ایک پارٹی میں صرف کرتے ہیں، اس میں سے کچھ کھایا جاتا ہے، کچھ پھینک دیا جایا ہے یا اگلے چند دنوں کے لیے فرج میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔

ہماری آنکھوں میں اتنی دھند کیوں ہے کہ ہمیں نظر نہیں آتا… ہمیں شکوہ رہتا ہے کہ کوئی ضرورت مند نظر ہی نہیں آتا۔ سب سے پہلے تو اپنے خاندان میں دیکھیں، آپ کے صدقات اور زکوۃ کے سب سے پہلے مستحق آپ کے خاندان کے وہ لوگ ہیں جو آپ سے مالی لحاظ سے کمتر ہیں۔ ان کی مدد کرنے کے لیے آپ کو سال بھر انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اپنی زکوۃ اور صدقات کو سال بھر دیتے رہیں، ہر مہینے کچھ نہ کچھ رقم نکالیں اور سب سے پہلے اپنے خاندان میں دیکھیں کہ کون ضرورت مند ہے، کسی کو بیماری کا علاج کروانے کی استطاعت نہیں، کسی کو امتحان کے لیے داخلہ فیس بھجوانے کی سکت نہیں، کوئی اسکول کی ماہانہ فیس دینے سے عاجز ہے، کسی کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنے کے لیے اتنی رقم کی ضرورت ہے کہ جو آپ اکیلے نہیں دے سکتے تو اس کے لیے اپنے بہن بھائیوں سے درخواست کر کے مل کر اس کے لیے ذریعہ معاش بنا دیں۔

کسی کے ہاں بچی کی شادی ہے مگر وہ دنیاوی رسم و رواج میں جکڑا ہوا ہے، اسے سمجھائیں کہ انتہائی ضروری اخراجات کے علاوہ باقی اخراجات سے گریز کرے اور اس کے لیے بھی حتی الامکان کوشش کریں کہ وہ اپنی بچی کو عزت سے رخصت کر سکے…

ہاں جہاں معاملہ لڑکوں کی شادی کا ہو ، انھیں سمجھائیں کہ وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ انتہائی سادگی سے شادی کا مقدس فریضہ ادا کریں کہ نہ ان کا کوئی خرچہ ہو نہ لڑکی والوں کا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں لڑکی والوں کو مجبور و محکوم سمجھا جاتا ہے اور ان کی بیٹی کو بیاہ کر گویا ان پر احسان عظیم کیا جاتا ہے، نہ صرف وہ اپنی عزیز ترین متاع لڑکی ان کے حوالے کرتے ہیں بلکہ لڑکے والوں کوخوش کرنے کی کوشش میں ان پر عمر بھرکے لیے قرضوں کا بار چڑھ جاتا ہے، خوش وہ پھر بھی نہیںہوتے۔

خاندان میں کسی کی وفات ہو جائے تو چیک کریں کہ لواحقین کے کیا حالات ہیں، کیا وہ عزت سے اس مشکل وقت میں دنیاوی رسوم و رواج کے مطابق وقت گزار سکتے ہیں کہ نہیں… اگر نہیں تو ان کی حتی الامکان مددکریں۔ کسی کواپنے گھر کی تعمیر کے لیے رقم کم پڑ گئی ہے، کوئی اپنے گھر کا ماہانہ کرایہ دینے کی سکت نہیں رکھتا۔ کسی کواپنے بیٹے کو زیادہ رقم کمانے کی خاطر پردیس بھیجنا ہے… کسی کی بچی کو اس وجہ سے سسرال میں نہیں بسایا جا رہا کہ وہ جہیزمیں فرج نہیںلائی یا کوئی بھی ایسی اور چیز، یا تو اس کی سسرال والوں سے بات کریں، اگر انھیں قائل نہ کر سکیں تو اس بچی کے بسنے میں مدد کردیں۔

اللہ ہمیں بے حساب دیتا ہے، اتنا دیتا ہے کہ جتنا ہم مانگتے بھی نہیں نہ ہی ہم اتنے کے قابل ہیں … تو ہم اس کی راہ میں اپنے سے نیچے والوں کو دیتے ہوئے حساب کتاب کے چکروں میں کیوں پڑیں۔ ایک بار اللہ تعالی سے کہہ دیں کہ میں نیت کرتا/ کرتی ہوں کہ میں سال بھر میں اپنے کسی عزیز رشتہ دار… کسی مسجد مدرسے، کسی غریب یا یتیم اور کسی ضرورت مند کی مدد کروں تو، تو اسے میری زکوۃ کے کھاتے میں ڈال دینا۔ رمضان سے قبل حساب کتاب کرکے ایک ہی بار بڑی رقم نکالنا مشکل ہوتا ہے اس لیے اپنی زکوۃ کو سال بھر پر پھیلا لیں اور اپنے لیے بھی آسانی پیدا کرلیں۔

وہ تو کسی کا اپنی طرف حساب کم ہی رکھتا ہے… میں نے تو آج تک یہی جانا ہے کہ بے شک آپ کسی کو وہ دیں جواللہ تعالی نے ہم پر زکوۃ کی صورت میں فرض کیا ہے، وہ اس کا بھی اپنی طرف قرض نہیں رکھتا بلکہ اس سے بڑھ کرکسی نہ کسی صورت ہمیں لوٹا دیتا ہے۔ ہم دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں تو وہ ہماری خوشیوں کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے اس لیے آپ یہ کبھی نہ سوچیں کہ اپنی جیب سے اگر آپ کسی کی مدد کریں گے تو آپ کے پاس دولت کم ہو جائے گی یا آپ کی اپنی ضروریات پوری نہیں ہو سکیں گی۔

یقین کریں کہ ہم بہت سی بے مقصد خریداری اور اخراجات کرتے ہیں، ان میں کمی لا کر ہم بہت سوں کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ کئی بچوں کو رات کو بھوکا سونے سے بچا سکتے ہیں، کئیوں کو مجبور ہو کر بال بچوں سمیت خود کشی کرنے سے بچا سکتے ہیں، کئی ایسے بچوں کو پڑھائی کا سلسلہ موقوف کرنے سے بچا سکتے ہیں جو چند سو یا چند ہزار کی رقم اپنے پاس نہ ہونے کے باعث مجبور ہو گئے… کئی کنواری بچیوں کے رشتوں کے انتظار میں ان کے بالوں میں چاندی کے تار اترنے سے بچا سکتے ہیں، غریب ماں باپ کو اپنے بچوں کو بیچنے سے روک سکتے ہیں… غرض ہمیں علم ہی نہیں کہ ہم اپنی صدقات اور زکوۃ سے کس کس طرح کے مجبور لوگوں کو آسانی دے سکتے ہیں… اپنی خوشیوں میں شامل کرسکتے ہیں، اپنی خوشیوں ہی کی زکوۃ دے کر دیکھیں توآپ کو علم ہو گا کہ جب آپ کی تھوڑی سی رقم کسی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ، چہرے پر سکون اور زندگی میں آسانی لاتی ہے تو آپ کی خوشی کا رنگ ہی کچھ اور ہو جاتا ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی سمجھ بوجھ سے لوگوں میں خوشیاں تقسیم کریں… اگر وہ بھی نہ کرسکیں تو کم از کم ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے سے گریز کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔