تیرا سیہون رہے آباد مست سوہنا لعل قلندر

شاہد سردار  اتوار 14 مئ 2017

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ صوبہ سندھ اولیائے کرام، بزرگان دین اورصوفیائے کرام کی سرزمین ہے۔ دور دراز سے آنیوالی برگزیدہ ہستیوں نے یہاں ڈیرے ڈال کر اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے پر چلنے کا پیغام عام کیا اور بنی نوع انسان کی رہنمائی فرمائی۔

سندھ کے ضلع جام شورو کے تاریخی شہر سیہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندر کا مزار واقع ہے، یہاں عام دنوں کی بہ نسبت ہر جمعرات کو آنیوالوں کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر جاتی ہے۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ زائرین اپنی دعاؤں، آرزوؤں، منتوں، خواہشوں اور خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے اپنی اپنی جھولیاں پھیلائے سیکڑوں ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرکے یہاں پہنچتے ہیں، لعل شہباز قلندر کے مزار پر جہاں وطن عزیز کے گوشے گوشے سے لوگ آتے ہیں وہیں افغانستان اور بھارت سے بھی زائرین کی آمد و رفت جاری رہتی ہے، اور ان کے عرس کے موقعے پر زائرین کی تعداد 20 لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔

سخی لعل شہباز قلندرکا اصل نام سید عثمان مروندی ہے یہ 1176 کو مروند میں پیدا ہوئے ان کا تعلق صوفی سلسلے سہروردیہ سے ہے لعل شہباز قلندر ایک بہت ہی مشہور صوفی بزرگ شاعر، فلسفی اور قلندر تھے ان کا عرس مبارک ہر برس ماہ شعبان کے دوسرے ہفتے کو سیہون شریف میں نہایت عقیدت واحترام سے منایا جاتا ہے اور اس تین روزہ عرس کی تقریب میں سندھ کے گورنر اور وزیر اعلیٰ بطور خاص شرکت کرتے ہیں۔

لعل شہباز قلندر 1196 کے آس پاس افغانستان سے صوبہ سندھ آئے اور انھوں نے سیہون میں قیام کیا اور مورخوں کیمطابق یہ زمانہ محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کے خاندانوں کی حکمرانی کا زمانہ تھا۔ لعل شہباز قلندر نے اس دھرتی پر قدم رکھتے ہی عوام کے درمیان محبت امن وآشتی اور مل جل کر رہنے کا پیغام عام کیا۔

عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر سندھ میں صوفیانہ شاعری، صوفی کلچر اور سندھکو عدم تشدد کے راستے پر گامزن کرنیوالے وہ صوفی تھے جن کی وجہ سے سندھ کلچر ایک واضح شکل وصورت اختیار کر پایا۔ لعل شہباز کے شاگرد رشید میں مخدوم بلاول، سچل سرمست اور شاہ عبداللطیف بھٹائی شامل تھے جن کے بنا سندھ کی ثقافت اور صوفی شاعری کے خد وخال ترتیب نہیں پا سکتے۔

لعل شہباز قلندر کی درگاہ 1356 میں تعمیر ہوئی۔ اس کی تعمیر میں سندھی کاشی ٹائیلوں کا استعمال ہوا، شیشوں کا دیدہ زیب کام کیا گیا اور ایران کے صدر رضا شاہ پہلوی نے اس مزارکے مرکزی دروازے پر سونا نصب کروایا اور یہ دروازہ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکے ہاتھوں نصب ہوا۔ لعل شہباز قلندرکا نام ذہن و زباں پر آتے ہی دھمال کا دف خیالوں کے تانے بانے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہر روز لعل شہباز قلندر کے مزارکے وسیع و عریض صحن میں نماز عصر کے بعد سے دھمال کے لیے نقارے بجنے لگتے ہیں اور زائرین اس کی تال پر جھومنے اور دھمال ڈالنے سے خود کو نہیں روک پاتے۔

دھمال کی وضاحت اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک سرمستی کی کیفیت کا عالم ہے جس کے دوران سب لوگ اپنی قومیت، اپنا مسلک اور اپنی انا بھول کر سب کے سب قلندری بن جاتے ہیں یہاں امیر غریب سبھی ایک جیسے ہوجاتے ہیں، نیک وگناہ گار سبھی کے فرق یہاں مٹ جاتے ہیں۔ قلندری رشتے انسان کا انسان سے اور پھر بالواسطہ خدا سے رشتہ ہے۔ فضا میں بلند ہونیوالے ہاتھ اس برتر ذات کی حقانیت کا اعتراف کرتے ہیں جس نے سب کو ایک سا پیدا کیا۔ یہ مستی یہ دھمال اس عاجزی کا اظہار ہے کہ سب کچھ اس کا ہے ہم کچھ نہیں ہم فقط اس کے عاجز بندے ہیں اور بس الغرض دھمال ذات کی نفی اور خود سپردگی کی علامت ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ لعل شہباز قلندر کے مزار کے چندے سے سندھ حکومت کے اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے جاتے ہیں، لاکھوں کروڑوں روپوں کے نذرانے اور زیورات شہباز قلندرکے مزار سے سندھ حکومت کی تجوری میں جاتا ہے۔

1994 میں مزارکی مرمت، تزئین و آرائش کے لیے اربوں روپے جاری کیے گئے لیکن کرپشن کے عادی ارباب اختیار نے اس کی تعمیر پر روپیہ مکمل طور پر خرچ نہیں کیا، ایک اندازے کیمطابق 9 کروڑ سالانہ اخراجات کی مد میں سندھ حکومت کو دیے جاتے ہیں لیکن اس کی تزئین وآرائش پر ڈنڈی ماری جاتی ہے، شہباز قلندر کے مزار کے گنبد پر لگے سونے کی چوری کا شور بھی ایک زمانے میں اٹھا تھا لیکن محکمہ اوقاف اس حوالے سے کچھ بتانے سے ہمیشہ قاصر ہی رہا ہے۔

اس ملک کی یہ برہنہ سچائی رہی ہے کہ اس میں جب بھی کوئی منصوبہ کوئی پروجیکٹ شروع ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی رشوت، کمیشن اور کرپشن کی کہانیاں اپنی بدبو پھیلانا شروع کردیتی ہیں۔ حد درجہ غربت، بے روزگاری، بھوک اور افلاس قوم کے ضمیر پر بے حسی کا بوجھ انھی عوامل کا پیدا کردہ ہے اور جب کرپشن، باہمی منافرت، قتل و غارت، گھناونے جرائم اور انتہا پسندی کا زہر معاشرے کے جسم میں سرائیت کر جائے تو معاشرہ دارالفساد بن جاتا ہے اور اس دارالفساد میں ہمہ وقت فسادات برپا ہوتے رہتے ہیں اور دہشتگردی انسانی خون کی ندیاں بہاتی رہتی ہے اورکون نہیں جانتا کہ دہشت گردی مذہبی منافرت، انتہا پسندی، کرپشن، نااہلی اور غربت کے سبب پھلتی پھولتی ہے۔

16 فروری 2017 بروز جمعرات سیہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملے کی جو بزدلانہ مگر لرزہ خیز واردات کی گئی اس کی ذمے داری ’’داعش‘‘ نے قبول کی جو عراق اور شام میں کئی صوفیا کے علاوہ صحابہ کرام کے مزاروں پر بھی حملے کرچکی ہے۔شہباز قلندر کے مزار پر دہشت گردی نے ہر ایک دل کو زخمی کردیا لیکن وہیں ایک عجیب عزم بھی دیا کہ خودکش بمبار نے نہ صرف خود کو اڑایا بلکہ اس کے ساتھ سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے اس فکرکو بھی اڑا دیا جوکہ وہ انتہا پسند ذہنیت ہے جس کی راہ میں رکاوٹ قلندر لعل شہباز کی درگاہیں اور وہ فقیر فقرا، ملنگ و درویش جو ’’لوکی پنج واری اساں ہر واری‘‘ کا ورد کیے ہوئے ہوتے ہیں۔

جس دن دھماکا ہوا اس خونی رات کے اختتام پر پو پھٹتے ہی قلندر کے دربار میں نقارے پر ڈنکے کی وہ چوٹ اورگھڑیال گھنٹے پر اعلان ہوا ہے صبح والی دھمال کا جس نے اس سمے کو پھر ابدی کردیا کہ ’’نماز عشق‘‘ ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں، گو اب تلواریں تو نہ رہیں لیکن خودکش بمباروں کی یلغاریں ہیں جنھوں نے اب کئی برسوں سے سندھ کا رخ کیا ہوا ہے۔ یہ لال جس نے پورے سندھ کو رنگ لیا ہے۔ صدیوں یا زمانوں سے رنگتا آیا ہے لیکن سردست ماتم سندھ حکومت کی اتنی بڑی دہشت گردی کے شکار زخمیوں اورلاشوں کی بے حرمتی اور بے اعتنائی پر بھی ہے۔

موجودہ سندھ حکومت کی ناکامی اور کیا ہوسکتی ہے کہ سیہون مراد علی شاہ (سندھ کے وزیر اعلیٰ) کا آبائی حلقہ ہے لیکن انھی کے حلقے میں قلندرکے زائرین تڑپ تڑپ کر نہ صرف مرے بلکہ ان کے جسموں کے اعضا کو گندے نالوں میں پھینکنے کی خبریں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر گردش کرتی رہیں۔سیہون شریف جیسے اہم ترین شہر میں سیکیورٹی کے انتظامات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے صرف 84 پولیس اہلکار تعینات ہیں، لیکن پورے شہر میں 10 پولیس اہلکار دکھائی نہیں دیتے۔

اسی طرح لعل شہباز قلندر کے مزار پر صرف دو پولیس اہلکار متعین ہوتے ہیں جو مشتبہ افراد پر نظر رکھنے کے بجائے اپنی دھن میں مگن نظر آتے ہیں۔ حیدرآباد، دادو اور نواب شاہ سے سیہون شریف پہنچنے کے لیے کشتی کی سہولت گو مہیا ہے لیکن کسی سیکیورٹی کے بغیر، جب کہ خوفناک پہاڑی راستوں سے بھی لوگوں کی آمد ورفت جاری رہتی ہے لیکن راستے میں کوئی چیک پوسٹ اور چیکنگ نہ ہونے کی وجہ سے مزار پر زائرین کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں جرائم پیشہ عناصر بھی پہنچ جاتے ہیں، اس کے علاوہ پورے شہر میں پولیس کی سرپرستی میں سر عام منشیات فروشی اور قمار بازی سمیت دیگر سماجی برائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔