مثبت تبدیلی

نصرت جاوید  بدھ 23 جنوری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

خارجہ امور پر 1981ء سے مختلف انگریزی اخباروں کے لیے رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے میری اسلام آباد میں مقیم سفارتکاروں سے بہت زیادہ ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں ۔ان میں سے چند ایک کچھ ملاقاتوں کے بعد میرے گہرے دوست بھی بن جاتے اور ہم گھنٹوں بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بے تکلفانہ گفتگو میں مصروف رہتے۔2007ء کے شروع میں لیکن میں ٹیلی وژن کی نذر ہوگیا ۔ہفتے میں چار دن رات کو لائیو پروگرام کرنے کی مجبوری نے مجھے سفارتکاروں سے دور کردیا۔ ایک صحافی کے لیے سفارتکاروں سے ایسی دوری ہرگز مناسب نہیں ہوتی۔

ان میں سے اکثر کے پاس مستند مگر چونکا دینے والی خبریں ہوتی ہیں ۔اس سے بھی زیادہ اہم ان کا وہ تجزیہ ہوتا ہے جو پاکستان میں اہم سمجھے جانے والے لوگوں سے ملاقاتیں کرنے کے بعد یہ لوگ اپنے ملک کو ہمارے سیاسی معاملات کے بارے میں باقاعدگی سے بھیجا کرتے ہیں ۔ایک رپورٹر کے سفارتکاروں پر انحصار کی ضرورت کو یاد کرتے ہوئے میں گزشتہ چھ مہینوں سے دوبارہ ان سے اپنے تعلقات استوار کرنے میںجٹ گیا۔ان میں سے چند ایک اور خاص کر ان ملکوں کے نمایندوں کے ساتھ جو پاکستان کی معیشت کے پھیلائو یا بگاڑ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں چند ملاقاتوں کے بعد مجھے فوراً احساس ہونا شروع ہوگیا کہ ہمارے غیر ملکی مہربان 2008ء کے بعد سے جاری ’’جمہوری تماشے‘‘ سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں ۔

کئی ایک تو این آر او کروانے کے بعد جنرل مشرف کی فراغت میں مدد دینے پر تاسف کا اظہار بھی کرتے پائے گئے۔ امریکی صدر نے 2014ء میں افغانستان میں متعین اپنی افواج کی بہت بڑی تعداد کو واپس بلانے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔یورپی ممالک کی اکثریت تو پہلے ہی افغانستان سے جان چھڑانے کی جلدی میں ہے ۔اس بے چینی اور 2014ء کی قطعی تاریخیں دینے کے بعد اسلام آباد میں افغانستان سے متعلقہ ممالک کے سفارتکاروں کی اکثریت بڑی بے تابی سے یہ چاہ رہی ہے کہ جب تک نیٹو افواج کا افغانستان سے مکمل انخلاء نہ ہوجائے پاکستان میں چیزیں جوں کی توں رہیں ۔

کسی قسم کا عدم استحکام پیدا نہ ہو ۔ان کی خواہش صرف اس وجہ سے پوری ہوتی نظر نہیں آرہی کہ اس سال ہمارے ملک میں انتخاب ہونا ہیں ۔کسی کو بھی یقین نہیں کہ وہ انتخاب کیسے حالات میں ہوں گے اور ان کے بعد مرکز اور صوبوں میں جو حکومتیں بنیں گی وہ کتنی طاقتور اور مستحکم ہوں گی اور ان کی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے کیا ترجیحات ہوں گی۔

آیندہ ہونے والے انتخابات کے حوالے سے اسلام آباد میں مقیم سفارتکاروں کی پریشانی کو اچھی طرح جان کر مجھے اس وقت بالکل کوئی حیرت نہ ہوئی جب اسی شہر میں مقیم معاشی طورپر کامیاب لوگوں نے اپنے خوش حال اور مہمان نوازڈرائنگ روموں میں ایک اور انتخاب کروانے کے بجائے کم از کم دو سے تین سال تک کے لیے ’’اہل ،ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس‘‘کی حکومت لانے کی باتیں کرنا شروع کردیں ۔ایسے لوگوں نے پوری شدت کے ساتھ یہ فرض کرلیا کہ ایسی حکومت بنائے بغیر پاکستانی معیشت کا موجودہ جمود ختم نہیں کیا جاسکتا ۔

نہ ہی وہ ضروری مگر غیر مقبول فیصلے کیے جاسکتے ہیں جو پاکستانیوں کی اکثریت کو ہمارے ریاستی اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیکس دینے کی عادت اپنانے پر مجبور کریں ۔میں منتخب حکومت کے بجائے ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنانے کے اس منصوبے کا اپنے اس کالم میں آپ کو بور کردینے کی حد تک تذکرہ کرتا رہا ۔مگر یہ مسلسل تذکرہ ہرگز اس بات کا اظہار نہ تھا کہ میں خود کو بھی اس حکومت کے قیام کی ضرورت محسوس کرتا ہوں ۔ذاتی طور پر میرا یہ ایمان ہے کہ پاکستان کے دیرینہ اور پیچیدہ مسائل کا حل صرف اسی صورت ممکن ہے کہ انتخاب ہوں ،میڈیا آزاد رہے اور عدلیہ بھی ہمہ وقت چوکس ۔ان تین چیزوں کے اشتراک اور استقلال کے ذریعے ہی بتدریج میرے ملک اور اس کے لوگوں کو مثبت تبدیلی کی راہ پر ڈالا جاسکتا ہے ۔

اسلام آباد میں مقیم سفارتکاروں کو مگر پاکستان کے نہیں اپنے فوری مفادات زیادہ عزیز ہیں اور ان مفادات کے حصول کے لیے وہ ان سب اصولوں ،جمہوریت اور انسانی حقوق وغیرہ کی وقتی قربانی دینے کو بھی تیار ہیں جن کا پرچار ان کے رہ نما اور ذرایع ابلاغ والے بڑے فاخرانہ انداز میں کیا کرتے ہیں۔پاکستان میں ’’ایماندار ٹیکنوکریٹس‘‘ کی ایک مستحکم حکومت دیکھنے کی خواہش شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے ۔مگر کچھ ہفتے پہلے یہ بھی دریافت کرلیا گیا ہے کہ پاکستان کے آئین کی موجودگی میں ایسی حکومت کی راہ نہیں نکالی جاسکتی ۔

نکل بھی آئے تو مستعد عدلیہ اور آزاد میڈیا اسے چلنے نہ دیں گے ۔کسی کو ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کہنا ہی پڑے گا ۔مگر ’’انھیں ‘‘یہ کہنے کو تیار کیا جائے ۔کینیڈا میں پانچ برس گزارنے کے بعد ایک قادری کی اچانک اسلام آباد آمد ایسی ہی ایک تیاری تھی ۔اس نے اسلام آباد پہنچ کر اپنی پسند کا شو لگا لیا تو ہمارے چند بڑے ہی ’’جمہوری‘‘ ملکوں کے چند نوجوان سفارتکاروں کی بڑی خواہش تھی کہ عمران خان بھی اپنے نوجوان پیروکاروں کے لائولشکر سمیت قادری تھیٹر کا حصہ بن جائیں ۔تحریک انصاف کے کئی صف اول کے رہ نما میری اس بات کی تصدیق کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ۔

میں اتفاق سے اس وقت ایک سفارتکار کے گھر موجود تھا جہاں وہ سفارتکار اور اس کے چند دوسرے یورپی ملکوں کے ساتھی بار بار تحریک انصاف میں موجود اپنے دوستوں سے ایس ایم ایس کرکے جاننا چاہ رہے تھے کہ قادری دھرنے کے بارے میں ان کی جماعت نے بالآخر کیا فیصلہ کیا ہے ۔مجھے خبر نہیں کہ عمران خان تک ان سفارتکاروں کی بے چینی اور تشویش پہنچائی گئی یا نہیں ۔مگر اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کرنے پر مجبورہوں کہ عمران خان نے طاہر القادری سے دور رہ کر یہ ثابت کردیا ہے کہ چاہے اس ملک کے سفاک سیاسی کھیل میں وہ نوارد سہی لیکن پوری طرح سمجھ چکا ہے کہ وہ پاکستان کی تقدیر صرف پرچی کے ذریعے حکومت حاصل کرنے کے بعد ہی بدل سکتا ہے۔

اس کے علاوہ کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔عمران خان کا ماضی بتاتا ہے کہ قطعیت کے ساتھ غلط یا صحیح فیصلہ کرنے کے بعد کپتان اس پر ڈٹ جایا کرتا ہے ۔پرچی کے ذریعے اپنے عوام کو متحرک کرنے کے بعد تبدیلی کے سفر پر چلنے والا اس کا یہ فیصلہ ہر صورت ایک مثبت فیصلہ ہے ۔ہمارے ملک کے مقدر میں دور رس حوالوں سے تحریک انصاف کے قادری اور اس کے کھیل سے دوری میں خیر ہی خیر کے بہت سارے امکانات چھپے ہوئے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔