امن اور بر داشت کا کلچر

apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ آج کل عدم برداشت کا کلچر عام ہوتا جارہا ہے مذہب ہمیں برداشت کرنے کا درس دیتا ہے مگر ہم ہیںکہ مذہب کے نام پر ہی قتل وغارت گری کررہے ہیں، قانون اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں، آپ کو چاہیے کہ ایک کالم امن اور بر داشت پر لکھیں،اس موضوع پر آج کل سیمینار اورکانفرنسیں بھی ہورہی ہیں اور میڈیا تو صبح و شام مسلمانوں کو امن اور برداشت کرنے کی تلقین کررہا ہے۔

سو ہم نے سوچا کہ چلو آج ایک کالم اس بات پر ہی لکھا جائے کہ لوگو برداشت کرنا سیکھو، امن برقرار رکھنے کے لیے برداشت کرنا ضروری ہے اور ہمارا دین تو برداشت کا درس دیتا ہے۔ ابھی ہم نے اس موضوع پر کالم شروع ہی کیا تھا کہ ایک دوست گھر پر آگئے ، خیر ہم نے انھیں خوش آمدید کہا اور بتایا کہ ہم کس موضوع پر کالم لکھ رہے ہیں اور ان سے پوچھا کہ اس سلسلے میں ان کی کیا رائے ہے؟ انھوں نے ہماری طرف غور سے دیکھا اورکچھ توقف کے بعد بو لے کہ ابھی جب میں آپ کے علاقے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک ہجوم جمع ہے جو ایک تنہا نوجوان کی خوب کٹائی کررہا ہے اور کوئی اسے بچانے بھی نہیں آرہا ہے۔

معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ راہ چلتی ایک لڑکی کو اس نے چھیڑا تھا، جس پر لڑکی نے ایک دو تھپڑ لگائے اور جو کمی رہ گئی تھی اس کمی کو اب یہ ہجوم پورا کررہا ہے۔ اپنے دوست کی یہ بات سن کر ہم بولے کہ آج کل زمانہ بگڑگیا ہے،کل ہی ایک چینل دکھایا جارہا تھا کہ ایک عامل بابا نے جن اتارنے کے بہانے لڑکی کی عزت کو تار تارکرنے کی کوشش کی جس پر گھر میں موجود دیگر خواتین موقعے پر آگئیں اور اس عامل کی جوتیوں سے خوب ٹھکائی کی، چینل نے جو تیوں سے عامل کی پٹائی کی خبر فلم کے ساتھ دکھائی اورعامل کی خوب مذمت کی۔

ہمارے دوست نے کہا کہ راقم صاحب ان واقعات پرکالم لکھیں کہ انھوں نے برداشت کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟ اگر لڑکی کو چھیڑ ہی دیا تھا، تو قانون کی مدد لینی چاہیے تھی نا، خود قانون ہاتھ میں لے کر ردعمل کیوں ظاہرکیا؟ اور پھر میڈیا نے کیوں قانون لینے والوں کا ساتھ دیا؟ خبر اس طرح کیوں دی کہ ’’خواتین سے بدتمیزی کرنے والے شخص یا عامل کی دھنائی کرکے اچھا سبق دیا گیا‘‘، یہ خبر اس طرح کیوں نہیں دی گئی کہ ’’ خواتین نے قانون ہاتھ میں لے کر نہتے عامل کو لہولہان کردیا۔‘‘

ہم نے اپنے دوست سے کہا کہ آپ یہ کیا احمقانہ بات کررہے ہیں، سیدھی سی بات ہے کہ جب آپ کسی کے ساتھ غلط بات کریں گے تو اس کا ردعمل توآئے گا اور جو پہلے غلط بات کرے گا مذمت بھی اس کی کرنی ہوگی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کسی کی ماں بہن کو گالی دے اور جواب میں وہ شخص گالی دینے والے کو تھپڑمارے تو ہم کہیں کہ تھپڑ مارنے والا ظالم اور قصور وار ہے اور گالی دینے والا مظلوم و معصوم ہے؟

جواباً ہمارے دوست نے کہا کہ یہی بات تو آپ جیسے کالم نگار اور میڈیا والوں کو سمجھنی چاہیے کہ کسی واقعے میں جب کوئی کسی کی عزت تار تارکرے تو قصور وار وہ ہی ہوگا نہ کہ عزت پر حملہ ہونے پر جب کوئی ردعمل ظاہر کرے تو وہ قصور وار ٹھہرے، آپ جیسے میڈیا والے سارا قصور اس پر ڈال دیتے ہیں جو ردعمل ظاہرکرتا ہے، اس کوکچھ نہیں کہتے کہ جو پہلے ’عمل‘ کرتا ہے، کسی کی توہین کرتا ہے، کسی کو بلاوجہ چھیڑتا ہے،

میں نے اپنے دوست سے کہا کیا مطلب؟

دوست نے جواب دیا کہ مطلب یہ کہ جب کہیں مذہب کی توہین کا معاملہ آتا ہے تو آپ کا میڈیا توہین کرنے والے کی مذمت نہیں کرتا بلکہ اس توہین پر ردعمل ظاہرکرنے والوں کوکہتا ہے کہ قانون کو ہاتھ میں کیوں لیا؟ عدم برداشت کا مظاہرہ کیوں کیا؟ یہ دہرا معیار کیوں؟ غلط ’ عمل‘ کرنے والے کی مذمت کیوں نہیں کیا جاتی ؟ توہین مذہب کرنے والوں کو میڈیا یہ پیغام کیوں نہیں دیتا کہ برداشت کرو، امن خراب نہ کرو، الٹا یہ کیوں درس دیا جاتا ہے کہ توہین مذہب کی بھی آزادی ہے اور اس آزادی کا احترام کرو، برداشت کرو، آخر توہین مذہب کرنے والوں سے یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ ’’ بر داشت کرو‘‘ ۔ برداشت کرنے کا درس ان کوکیوں دیا جاتا ہے جو پر امن تھے ، کسی کے غلط ’عمل‘ پر ہی انھوں نے ’ردعمل ‘ ظاہرکیا۔ عقلی طور پر بھی یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پہل کرنے والے کو کچھ نہ کہا جائے اور ردعمل کرنے والے کو ہی تلقین کی جائے کہ بھئی برداشت کرو! اگر یہ اصول درست مان لیا جائے تو پھر تمام ججزکو بھی چاہیے کہ وہ تمام مقدمات ختم کرکے مقدمات دائر کرنے والوں سے کہیں کہ بھئی جاؤ اپنے گھر اورکچھ تحمل برداشت کرنا سیکھو۔

ہمارے دوست نے پھر سوال اٹھایا کہ میڈیا ایک لڑکی کو چھڑنے والے فردکی خوب خبر لیتا ہے اور لڑکی کو یہ نصیحت نہیں کرتا کہ تم نے قانون کیوں ہاتھ میں لیا؟ لیکن اگرکوئی فرد اپنے نبی کی عزت کے معاملے پر ردعمل ظاہرکرتا ہے تو میڈیا فوراً کہتا ہے کہ قانون کیوں ہاتھ میں لیا؟ برداشت کیوں نہ کیا؟ میڈیا نبی کی توہین کرنے والے سے سوالات کیوں نہیں کرتا ؟

اپنے دوست کی باتیں سن کر ہمیں میڈیا کی اس غلطی کا بہت خوبی سے اندازہ ہوگیا کہ جانے یاانجانے میں برداشت کے نام پر یہ دہرا معیار چل رہا ہے یعنی اکثر معاملات میں تو ہم ’عمل ‘یا پہل کرنے والے کو غلط قرار دیتے ہیں لیکن بعض معاملات خصوصاً مذہب کی توہین کے مسئلے پر ’عمل‘ کرنے والے یعنی پہل کرنے والے کی تو الٹاخوب وکالت کرتے ہیں اور اس کے آزادی کے حق کی بات کرتے ہیں مگر ’ردعمل‘ کرنے والے کوکہتے ہیں کہ بر داشت کیوں نہیں کرتے، قانون ہاتھ میں کیوں لیتے ہو؟ حالانکہ اگر عمل کرنے والا اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے کوئی عمل نہیں کرتا تو ردعمل بھی نہیں آتا، کوئی عمل ہوتا ہے تو ردعمل آتا ہے۔

چنانچہ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ تمام ایسے عمل کی بیخ کنی کرنی چاہیے کہ جس سے کوئی ایسا ردعمل پیدا ہے کہ کوئی بھی فرد قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کو شش کرے۔ محض یہ نصیحت کہ اسلام امن کا دین ہے، برداشت کا درس دیتا ہے اور پھر اس پر بڑے بڑے سیمینار،کانفرنس منقعد کردینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ مشال کے افسوس ناک واقعے کے بعد تواتر سے کئی اور واقعات سامنے آئے ہیں جس کے بعد ضرورت اس امرکی ہے کہ ایسے عمل کو روکنے کی کو شش کی جائے کیونکہ جب عمل رک جائے گا تو ردعمل بھی خود بہ خود رک جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔