کاش ہم بھی یونس اور مصباح ہوتے

سلیم خالق  پير 15 مئ 2017
 مصباح کے ساتھ یونس بھی بہترین انداز سے رخصتی کا موقع پانے میں کامیاب رہے- فوٹو: فائل

مصباح کے ساتھ یونس بھی بہترین انداز سے رخصتی کا موقع پانے میں کامیاب رہے- فوٹو: فائل

پاکستان میں بڑے بڑے کرکٹرز گذرے، چاہے وہ جاوید میانداد ، وسیم اکرم، وقار یونس، محمد یوسف، ظہیر عباس،انضمام الحق یا کوئی اور ہو کسی کو بھی شایان شان انداز سے کیریئر کے اختتام کا موقع نہ ملا، ہمارے بعض عظیم کرکٹرز تو بیچارے باقاعدہ ریٹائرمنٹ کا اعلان بھی نہ کر سکے اور گھر واپس جانا پڑا، شاید مصباح الحق کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا، چیف سلیکٹر انضمام الحق کی نگاہوں میں وہ کانٹے کی طرح کھٹک رہے تھے، انھیں دورۂ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے بعد فارغ کرنے کا فیصلہ ہو چکا تھا، مگر یہاں چیئرمین پی سی بی شہریارخان کو کریڈٹ دینا چاہیے جنھوں نے تمام تر مخالفت کے باوجود کپتان کو خدمات کے صلے میں الوداعی سیریز کھلانے کا فیصلہ کیا، مصباح کی یہ خواہش تھی کہ وہ باعزت انداز میں کھیل سے کنارہ کش ہوتے، انھیں یہ حقیقت بھی معلوم تھی کہ ویسٹ انڈیز میں اب تک کوئی پاکستانی قائد ٹیسٹ سیریز نہیں جیت سکا، اس بار کمزور اور نئے کھلاڑیوں پر مشتمل میزبان سائیڈ کو زیر کر کے تاریخ رقم کرنے کا اچھا موقع ہوگا،لہذا چیئرمین سے درخواست کی جو قبول کر لی گئی، یوسف نے اسے متنازع بنانا چاہاکہ وہ منت سماجت کر کے آخری سیریزپانے میں کامیاب رہے مگر یہ تاثر درست نہیں، شہریارخان نے شروع سے ہی مصباح کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ اپنی الوداعی سیریز کا فیصلہ خود کریں، رہی بات یوسف کی تو وہ بڑے بیٹسمین رہے مگر اپنی ہی بعض کوتاہیوں کی بنا پر انھیں ملکی کرکٹ میں اعلیٰ مقام نہ ملا، پہلے وہ شاہد آفریدی سے حسد کرتے تھے کہ میں بڑا بیٹسمین ہوں مگر اسے میڈیا اورشائقین کی زیادہ توجہ ملتی ہے، پھر مصباح ان کے زیرعتاب آئے، انھیں ٹیم میں یوسف کی ہی جگہ ملی تھی شاید اس کا بھی سابق اسٹار کو ملال ہو، خیر اگر کسی کے نصیب میں عزت لکھی ہو تو وہ اسے ملتی ہے،چاہے کوئی اس کی کتنی بھی مخالفت کر لے۔

مصباح کے ساتھ یونس بھی بہترین انداز سے رخصتی کا موقع پانے میں کامیاب رہے، میچ میں دونوں جب بیٹنگ کے لیے آئے تو ساتھی کھلاڑیوں نے نشستوں سے اٹھ کر تالیاں بجاتے ہوئے انھیں گراؤنڈ میں بھیجا، جہاں ویسٹ انڈین کرکٹرز گارڈ آف آنر پیش کرنے کیلیے تیار تھے،پھر واپسی پر ساتھیوں نے بیٹس کے سائے میں ڈریسنگ روم بھیجا، یہ ٹیسٹ تقریباً ڈرا ہوتا دکھائی دے رہا تھا،7 گیندیں ہی رہ گئی تھیں، گبرائیل کو صرف ایک بال روکنا تھی پھر اگلے اوور میں سنچری میکر چیس یقیناً صورتحال کو سنبھال لیتے، یوں پاکستان کا سیریز فتح کا خواب ملیامیٹ ہوجاتا اور مصباح اور یونس کو زندگی بھر ایک بڑا موقع ہاتھ سے نکل جانے کا افسوس رہتا مگر بات وہی کہ دونوں کو مزید عزت ملنا تھی تو وہ ملی، غلط شاٹ کھیل کر گبرائیل آؤٹ ہوئے اور گرین کیپس نے تاریخ رقم کر دی، اب جب کبھی ویسٹ انڈیز میں پہلی ٹیسٹ سیریز فتح کا ذکر آئے گا تو مصباح و یونس کو لوگ ضرور یاد کریں گے، میچ کے بعد جس انداز میں دونوں کو ساتھیوں نے کندھوں پر اٹھا کر گراؤنڈ کا چکر لگایا وہ بھی ایسا منظر تھا جو شائقین کی آنکھوں میں آنسو لے آیا ہو گا، اہل خانہ کی موجودگی نے دونوں عظیم کرکٹرز کی خوشیوں کو دوبالا کر دیا، ریٹائرمنٹ پر اس سے اچھا تحفہ کیا مل سکتا تھا، بڑے بڑے سابق پاکستانی کھلاڑی اب یہی سوچ کر رشک کر رہے ہوں گے کہ ’’کاش ہم بھی یونس اور مصباح ہوتے‘‘۔ اس اہم موقع پر بھی پی سی بی کی جانب سے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا، اپنے ٹورز پر کروڑوں روپے خرچ کر دینے والے آفیشلز عظیم ہیروز کیلیے چند ہزار روپے کی دو شیلڈز بھی نہ لے سکے جو اس یادگار موقع پر کوچ یا منیجر کی جانب سے پیش کی جاتیں تو اچھا تاثر جاتا، وطن واپسی پر اب آپ جتنی بھی تقاریب کر لیں اسٹیڈیم والا ماحول پھر نہیں ملے گا، اسی کے ساتھ بعض لوگوں نے یہ نکتہ اٹھایا کہ تقریب تقسیم انعامات میں اگر یونس خان کو بھی چند الفاظ کہنے کا موقع ملتا تو اچھا رہتا،ویسے یہ بات ہے تو درست، دونوں کھلاڑیوں نے ملک کیلیے جو خدمات انجام دیں انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،

یونس یقیناً اس بات پر اطمینان محسوس کر رہے ہوں گے کہ انھوں نے ملک کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین کا اعزاز حاصل کیا، مصباح نے بھی ٹیم کو اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد قدموں پر کھڑا کیا مگر انھیں یہ دکھ ضرور رہے گا کہ اب پاکستان کرکٹ دوبارہ انہی مسائل میں الجھ چکی ہے، بدقسمتی سے جس پی ایس ایل ٹیم اسلام آباد یونائٹیڈ کے پلیئرز پکڑے گئے اس کی قیادت مصباح کے پاس ہی تھی، البتہ انھیں اس بات پر فخر محسوس کرنا چاہیے کہ چاہے چند روز کیلیے ہی سہی ٹیم ورلڈنمبر ون تو بنی، گوکہ اختتام پانچویں نمبر پر کیا مگر یقیناً مستقبل میں بہتری آئے گی، اسد شفیق، اظہر علی، بابر اعظم و دیگر کو اب زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ پہلے تو جب کوئی مشکل پیش آتی یونس یا مصباح ٹیم کو سنبھال لیتے مگر اب وہ دونوں ایک ساتھ کرکٹ سے رخصت ہو گئے ہیں، شاید خطرہ بھانپ کر ہی سابق عظیم ٹیسٹ اسپنر عبدالقادرنے یہ بات کہی کہ ’’یونس اور مصباح کو ایک ساتھ ریٹائر نہیں ہونا چاہیے تھا،کہیں پاکستانی ٹیم کا حال بھی سری لنکا جیسا نہ ہو جائے جوکمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردنے کے ایک ساتھ جانے سے اب تک جدوجہد کر رہی ہے‘‘ بہرحال ہمیں امید کرنی چاہیے کہ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہو گا اور نوجوان کھلاڑی سینئرز کا خلا پُرکر لیں گے، البتہ مصباح الحق جیسا کپتان ملنے میں دشواری ہو گی، سرفراز احمد مختصر طرز میں تو یہ ذمہ داری انجام دے رہے ہیں، حکام انھیں موقع دینا بھی چاہتے ہیں دیکھتے ہیں یہ تجربہ کیسا رہتا ہے، ساتھ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے پاس آپشنز بھی محدود ہیں، اظہر علی کو زبردستی ون ڈے ٹیم کی کپتانی سے ہٹایا گیا تھا وہ شاید اب ٹیسٹ میں بھی عہدہ قبول نہ کریں، ایسے بھی سرفراز ہی واحد موزوں انتخاب ہیں، یونس اور مصباح مستقبل میں کوچنگ وکمنٹری میں بھی نام کما سکتے ہیں، دونوں نے ملک کیلیے جو خدمات انجام دیں اس پر انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔