مس یو!

ایاز خان  منگل 16 مئ 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

7 گیندیں باقی تھیں۔5 دن کی سخت فائیٹ کے بعد تیسرا اور آخری ٹیسٹ ختم ہونے کے قریب تھا۔ ٹیل اینڈر شینن گیبریل کو صرف ایک گیند کا سامنا کرنا تھا۔ وہ یہ گیند کھیل لیتا تو پھر آخری اوور میں صرف 6 گیندیں پھینکی جانی تھیں۔ یہ اوور یقیناکسی فاسٹ بولر کے حصے میں آنا تھا۔ سامنا کرنے والا بیٹسمین روسٹن چیز تھا جو 101 رنز پر ناٹ آؤٹ تھا۔ چیز کے لیے یہ آخری 6گیندیں کھیلنا بڑا آسان تھا۔ وہ پاکستانی بولنگ کے سامنے دیوار بنا کھڑا تھا۔

چیز پوری اننگز میں صرف 91 کے اسکور پر لڑ کھڑا رہا تھا اس نے دوبار گیند کو زوردار ہٹ مارنے کی کوشش کی مگر خوش قسمت رہا کہ بچ گیا۔ محمد عباس کی ایک گیند پر بولڈ ہوا تو پتہ چلا کہ نوبال تھی۔ حسن علی ایک بار فالو تھرو میں اس کا مشکل کیچ نہیں پکڑ سکا تھا۔ قسمت کی دیوی اس پر پوری طرح مہربان تھی۔گیبریل ، یاسر شاہ کی آخری گیند کھیل جاتا تو پھر میچ کا ڈرا ہونا یقینی لگ رہا تھا۔ لیکن کیا کریں کرکٹ کو بائی چانس بھی شاید اسی لیے کہا جاتا ہے۔ حسن علی کا اوور ختم ہوا تو ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں کو صرف دو اوور مزید کھیل کر میچ بچانا تھا۔

مصباح الحق نے گیند یاسر شاہ کو تھمایا اور سکینڈ لاسٹ اوور شروع ہو گیا۔ اوور کی دوسری گیند پر بیٹسمینوں کو سنگل کرنے کا موقع ملا مگر روسٹن چیز نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے گیبریل سے کہا وہ یاسر شاہ کا اوور حفاظت سے گزار لے اور آخری 6 گیندیں اس کے لیے چھوڑ دے۔ تیسری گیند گیبریل کے پیڈ پر لگی، پاکستانی فیلڈرزکو لگا کہ گیند بیٹ کو بھی چھو کر فیلڈر کے ہاتھوں میں گئی ہے۔ زوردار اپیل ہوئی اور امپائر نے انگلی کھڑی کر دی۔ ریویو لیا گیا مگر معلوم ہو اکہ گیند صرف پیڈز کو چھو کر گئی ہے۔ گیبریل محفوظ رہا۔

اگلی دو گیندیں وہ آرام سے کھیل گیا۔ یاسر شاہ نے آخری گیند پھینکی۔ اب تک تحمل سے کھیلنے والے گیبریل کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔ اس نے آف سٹمپ سے باہر جاتی ہوئی گیند کو مڈ وکٹ پر ہٹ کرنے کی کوشش کی۔ گیند کہیں اور جانے کے بجائے سیدھا وکٹوں پر آلگی اور پانچویں دن کے آخری لمحات میں ٹیسٹ پاکستان کی جیت پر ختم ہو گیا۔ یاسر شاہ نے جیت کا جشن کسی فٹبالر کے انداز میں منایا۔ دیگر کھلاڑی آپس میں گلے ملتے رہے۔ پاکستانی کرکٹ کے دو عظیم کھلاڑیوں یونس خان اور مصباح الحق کا بغلگیر ہونا قیمتی ترین لمحہ تھا۔

دنیا کرکٹ نے ان دو بڑے کھلاڑیوں کو آخری مرتبہ میدان میں اترتے دیکھا۔ مصباح الحق جاتے جاتے وہ کر گئے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ویسٹ انڈیز کو ویسٹ انڈیز میں ٹیسٹ سیریز ہرا دی۔ یہ کارنامہ ان سے پہلے کوئی انجام نہیں دے سکا تھا۔ عمران خان بھی نہیں جنھیں پاکستان کا سب سے بڑا کپتان مانا جاتا ہے۔

مصباح الحق سے پہلے عمران خان اور جاوید میانداد کامیاب ترین کپتان تھے۔ دونوں نے 14، 14 ٹیسٹ میچ جیتے۔ مصباح الحق نے تن تنہا 26کامیابیاں دلوادیں۔ انھوںنے کل 56 ٹیسٹ میچوں میں کپتانی کی، 19میں قومی ٹیم ہاری اور 11 ٹیسٹ برابری پر ختم ہوئے۔ مصبا الحق نے اپنے 16سالہ کیریئر کے دوران داد کم سمیٹی ، ان پر تنقید زیادہ ہوتی رہی۔ انھیں مسٹر ٹک ٹک کا خطاب دیا گیا۔ اس کا جواب مصبا ح الحق نے ٹیسٹ کرکٹ کی تیز ترین سنچری بنا کر دیا۔

آپ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ انھیں کپتانی کن حالات میں ملی۔ دورہ انگلینڈ میں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کے اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کے بعد قومی ٹیم کے لیے بدترین حالات پیدا ہو گئے تھے۔ایسے میں مصبا ح الحق کو کپتان بنا دیا گیا۔ کسی اور ملک میں کسی کرکٹر نے ایسے حالات میں ٹیم سنبھالی ہوتی تو اسے سلیوٹ کیا جاتا۔ ہم مگر ایسے نہیں ہیں۔ ہمارے سابق کرکٹرز مصبا ح الحق پر مسلسل تنقید کرتے رہے۔ پہلے انھیں ٹی ٹوئنٹی چھوڑنے اور پھر ون ڈے ٹیم سے نکلنے پر مجبور کیا گیا۔

مصباح الحق 42برس کے ہو چکے مگر آج بھی نوجوان کرکٹرز سے زیادہ فٹ ہیں۔ دنیائے کرکٹ میں وہ واحد کپتان ہیں جنہوں نے 56 میچوں میں قومی ٹیم کی قیادت کرڈالی مگر ایک میچ بھی اپنی ہوم گراؤنڈز پر نہیں کھیل سکے۔ یہ ریکارڈ کوئی اور کرکٹر بنا کر دکھائے۔ 99پر تین مرتبہ آؤٹ ہونے یا ناٹ آؤٹ رہنے کا منفرد ریکارڈ بھی ’’مسٹر ٹک ٹک‘‘ کے نام ہے۔ وہ ویسٹ انڈیز میں بطورکپتان تین ٹیسٹ میچ جیتنے والے بھی واحد ایشیائی کپتان ہیں۔

روسیو ڈومینیکا ویسٹ انڈیز کے ونڈسر پارک میں اپنے کیرئیر کا آخری ٹیسٹ کھیلنے والے دوسرے گریٹ یونس خان بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ وہ 10ہزار رنز بنانے والے پہلے پاکستانی اور 13ویں انٹر نیشنل کرکٹر ہیں۔ اکٹھے ریٹائر ہونیوالے یہ دونوں گریٹ کرکٹ کی بائبل وزڈن میں بھی ایک ساتھ اپنا نام لکھوانے میں کامیاب رہے۔ 10 ہزار سے زاید رنز بنانے والوں میں ٹنڈولکر، گواسکر، لارا، چندر پال،سنگا کارا، جے وردھنے، جیک کیلس اور ایلسٹر کک شامل ہیں۔

یونس خان اسٹائلش بیٹسمین نہیں رہے مگر ان کی بیٹنگ ٹیم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ انھوں نے لا تعداد میچ جتوائے۔ انھوں نے پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 34سنچریاں بھی بنائیں۔ یونس شاید دنیا کے ان چند بیٹسمینوں میں سے ہیں جن کی ففٹیاں کم اور سنچریاں زیادہ ہیں۔

اس کا مطلب ہے ایک بار انھوں نے 50کا ہندسہ عبور کر لیا تو پھر انھیں سنچری بنانے سے روکنا بہت مشکل تھا۔ ان کی ففٹیوں کی تعداد 33ہے۔ وہ ایک ٹرپل سنچری بنانے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان عالمی چیمپئن بھی یونس خان کی قیادت میں ہی بنا تھا۔ ان کے کارنامے تو اور بھی بہت ہیں لیکن جگہ اتنی نہیں ہے۔ ان دونوں کرکٹرز کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے اور ابھی بہت کچھ کہا اور لکھا جائے گا۔

تاریخ ساز سیریز ختم ہو چکی۔ دو عظیم بیٹسمین اب قومی ٹیم کے ساتھ نہیں ہونگے۔ نوجوان کھلاڑیوں کو ان کی جگہ لینی ہو گی۔ ان جیسا بیٹسمین بننے کے لیے ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ اظہر علی، اسد شفیق اور بابر اعظم کو اپنا رول سمجھنا ہو گا۔ بولنگ میں پریشانی کی ضرورت نہیں۔ محمد عباس نے پہلی سیریز میں ہی اپنا آپ دکھادیا ہے۔ اس ینگسٹر نے 15وکٹیں لے کر دنیا کو بتا دیا کہ وہ پاکستان کا فیوچر ہے۔ حسن علی نے بھی واحد ملنے والے موقع سے فایدہ اٹھایا۔

دوسری اننگز میں اس کی تین وکٹیں بہت قیمتی تھیں۔ مین آف دی سیریز یاسر شاہ نے 25وکٹیں لے کر ثابت کر دیا کہ وہ اس وقت دنیا کا بہترین لیگ سپنر ہے۔ محمد عامر نے بولنگ شاندار کی مگر قسمت نے زیادہ ساتھ نہیں دیا۔ ویسٹ انڈیزکے روسٹن چیز کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

مصباح اور یونس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ  ’’مس یو‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔