دنیا کا مثالی حکمران

منیر احمد منیر  منگل 16 مئ 2017
بانی ِپاکستان کی دیانت داری کے واقعات قریبی ساتھی کی زبانی۔ فوٹو: فائل

بانی ِپاکستان کی دیانت داری کے واقعات قریبی ساتھی کی زبانی۔ فوٹو: فائل

وطن عزیز کے ممتاز صحافی،منیر احمد منیر نے ’’دی گریٹ لیڈر‘‘کے نام سے ایک کتاب مرتب کر رکھی ہے۔اس میں ان 23 شخصیات کے انٹرویو شامل ہیں جنھیں کبھی نہ کبھی بانی ِپاکستان، قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

یہ انٹرویو قائداعظم کی زندگی و کردار کے مختلف گوشوں کو نہایت خوبصورتی سے اجاگر کرتے ہیں۔انہی شخصیات میں گروپ کیپٹن(ر)آفتاب احمد بھی شامل ہیں۔

1948ء میں آفتاب احمد بحیثیت فلائٹ لیفٹیننٹ پاک فضائیہ سے منسلک تھے۔تبھی آپ کو بانی ِپاکستان کا اے ڈی سی بننے کا اعزاز نصیب ہوا۔آپ نے تقریباً سات ماہ اس عہدے پر کام کیا۔اس دوران قائداعظم کی نجی محفلوں میں شریک ہوئے اور ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔جناب آفتاب احمد کے انٹرویو سے سبق آموز اقتباسات درج ذیل ہیں۔یہ واقعات اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں کی سیرت وکردار کیسا ہونا چاہیے۔ آفتاب احمد 2002ء میں انتقال کرگئے تھے۔

قائداعظم ڈسپلن کے بہت پابند تھے۔ مثلاً بعض ملاقاتی پابندیٔ وقت کا خیال نہیں کرتے ۔ قائداعظمؒ اسے معیوب سمجھتے کہ اسے کہیں کہ آپ کا وقت ختم ہوگیا ہے اور آپ چلے جائیں۔ اس کے لیے ہمیں ہدایت تھی کہ ڈیوٹی پر موجود اے ڈی سی اگر دیکھے کہ ملاقاتی کا وقت ختم ہوگیا ہے اور وہ طویل قیام کررہا ہے ،تو آپ اندر آکے بتائیں کہ باہر اگلا آدمی اپنی باری کا منتظر ہے تاکہ دوسرے ملاقاتی کو انتظار نہ کرنا پڑے۔اس قسم کے کافی واقعات ہیں جو اب یاد نہیں۔

ان کے معمولات میں بڑی باقاعدگی اور پابندیٔ وقت تھی۔ وقت پراٹھنا، وقت پر دفتر آنا۔ گورنر جنرل ہاؤس کے ایک کمرے میں ہی دفتر بنایا ہوا تھا۔ وقت پر آ کے کام شروع کردینا۔ کھانے کے اوقات مقررتھے۔ یہ طے تھا کہ آرام اتنی دیر کرنا ہے پھر کام شروع کردینا ہے۔ اتنے بجے بریک آف کرنا ہے۔ پھر ڈنر کھانا ہے۔ اتنے بجے سونا ہے۔ بڑی باقاعدگی تھی ان میں! ڈسپلن اور سیلف کنٹرول کمال کا تھا۔ اپنے جذبات پر اتنا کنٹرول تھا کہ وہ ظاہر نہیں کرتے تھے۔

س… مثلاً؟

ج… مثلاً ایک روز کراچی کا ایک مہاجر کیمپ وزٹ کرنے کا پروگرام تھا۔

س… کون سا مہاجر کیمپ؟

ج… مجھے نام یاد نہیں آرہا کون سا کیمپ تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو ظاہر ہے کہ لوگوں نے قائداعظم کے سامنے ہندوؤں اور سکھوں کے مظالم بیان کرنا شروع کیے۔ کئی لوگوں کے بہت سے عزیز مارے گئے تھے۔ جو بھی المّیہ انہیں پیش آچکا تھا، وہ بیان کرتے رہے۔ قائداعظمؒ سنتے رہے۔ ان کی بہتری اور انہیں اشیا وغیرہ کی فراہمی کے لیے جو احکامات وغیرہ انہوں نے دینے تھے، وہ دیئے۔ صبح دس بجے ہم وہاں پہنچگئے تھے۔ واپس پہنچے تو لنچ ٹائم ہوچکا تھا۔ کھانے پر بیٹھے۔ میرا خیال ہے، ایک دو نوالے بھی مشکل سے لیے۔ اٹھ کھڑے ہوئے اور چلے گئے۔ اندازہ ہوتا تھا کہ مہاجرین کے المناک واقعات سن کر وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی بھوک مرگئی۔ کسی سے بات بھی نہیں کی۔ یہ بھی نہیں کہا کہ دیکھو، ان لوگوں کے ساتھ کیا کیا مظالم ہوئے۔ کوئی بات نہیں کی، ضبط کرگئے۔ صاف ظاہر تھا کہ المناک واقعات کا ان پر بیہت اثر ہوا۔

ان کی صحت خاصی خراب تھی لیکن قوت ارادی اتنی زیادہ تھی اور اپنے آپ پر کنٹرول اس قدر تھا کہ ہم کھڑے کھڑے تھک جاتے تھے وہ نہیں تھکتے تھے۔ فوج میں ایک کلر ایوارڈ تقریب ہوتی ہے، جب کسی رجمنٹ کو بٹالین کو کلر دیتے ہیں۔ یہ تقریب ڈیڑھ دو گھنٹے کی ہوتی ہے، بڑی لمبی۔ جب ہم پشاور گئے ہیں، کسی رجمنٹ کو کلر دینے کی تقریب تھی۔ ہم کھڑے کھڑے تھک گئے، قائداعظمؒ بیمار تھے لیکن کھڑے رہے، اس لیے کہ انہیں اپنے آپ پر کنٹرول بہت تھا۔ غصہ ظاہر نہ کرنا، آواز بلند نہ کرنا اور اگر کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے جس سے آپ متاثر ہوئے ہیں، اسے ظاہر نہ کرنا، ان سب چیزوں سے ان کے سیلف کنٹرول کا پتا چلتا ہے۔ پشاور میں میرے ساتھ دوسرے اے ڈی سی اکبر حسین (آرمی) تھے۔

س… پشاور میں جس رجمنٹ کو انہوں نے کلر دیا، اس کا نام؟

ج… نام مجھے یاد نہیں۔

س… دورۂ پشاور کے موقع پر کن لوگوں سے ان کی ملاقاتیں رہیں؟

ج… مہتر آف چترال ان سے ملاقات کرنے آئے، اور سارے سٹاف کے لیے چترالی چوغے لائے۔ ہمیں نہیں پتا کب یہ تحفے دے گئے۔ ملنے آئے اور چھوڑ گئے۔ قائداعظمؒ معمولی کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے چوغوں کی لاٹ خود کھولی اور ہر ایک کو بلا بلا کے چوغے ان میں تقسیم کیے’’: یہ تمہارا ہے، یہ تمہارا ہے۔ مہتر آف چترال دے گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے تقسیم کیے۔ میرے پاس وہ چوغہ اب بھی ہے۔ وہ میں پہنتا ہوں۔ قائداعظمؒ نے سٹاف میں چوغے خود تقسیم کرنے میں عار نہیں سمجھا۔ کوئی اور ہوتا تو اے ڈی سی کو بلاکے کہتا: یہ سٹاف ممبرز کے ہیں، لے جائیں اور انہیں تقسیم کریں۔ جہاں وہ اہم امور انجام دیتے تھے، وہاں عام نوعیت کے کام بھی کرتے ، اس لیے کہ وہ کام کرنے کو معیوب نہیں سمجھتے تھے۔

س… سنا ہے وہ تحائف قبول نہیں کرتے تھے؟

ج… بالکل نہیں۔ مثلاً باہر سے کوئی آیا ہے تو سگار بکس دے گیا ۔ قائداعظمؒ سموک تو کرتے تھے،لیکن عام آدمی سے سگار نہیں لیتے تھے۔ کوئی خاص دوست ہو اس سے لے لیتے۔ اب مہتر آف چترال خیرسگالی کے جذبات کے تحت چوغے دے جاتا ہے۔ مناسب تو نہیں لگتا کہ اسے کہتے، لے جاؤ۔ لیکن عام آدمی سے نہیں لیتے تھے۔ جنہیں جانتے تھے ان سے لے لیتے۔ جو ان کا خاص دوست یا خاص آدمی ہو۔ وہ بھی کوئی ایسا قیمتی تحفہ نہیں جو مثلاً مس جناحؒ کے کام آجائے یا خود ان کے کام آجائے۔ مثلاً کوئی جیولری دی جائے۔ یہ نہیں کہ کسی نے کار دے دی اور وہ کار لے لی۔ ایسا قیمتی تحفہ وہ قبول نہیں کرتے تھے۔ یہی کسی کا آموں کا باغ ہے تو وہ آموں کی ٹوکری دے گیا ہے۔ کسی ناواقف یا انجان شخص سے وہ اس قسم کا بھی تحفہ نہیں لیتے تھے۔

س… اب تو بڑی بڑی کاروں کے تحفے ملتے ہیں۔ پلاٹوں کی باتیں ہوتی ہیں۔ زمینوں کے تحفے دیئے جاتے ہیں۔

ج… آپ دیکھ لیں اب ہمارے حکمرانوں نے کتنی پراپرٹی بنالی ہے۔ قائداعظمؒ تو بانی پاکستان تھے۔ گورنر جنرل تھے۔ وہ ملک کی جس چیز پر انگلی رکھتے وہ ان کی ہوسکتی تھی۔ لیکن وہ بڑے بااصول تھے۔ایک بار وہ کام کرتے کرتے تھک گئے تو انھیں گھر سے باہر تفریح کے لیے جگہ چاہیے تھی۔ ملیر سے آگے بڑوجی جگہ ہے کافی دور، کراچی سے بیس میل آگے۔ انھیں خیال آیا کہ میں وہاں کچھ جگہ لے لوں۔ ہٹ شٹ بنالوں۔ مجھے کہنے لگے، پتا کرو۔ میں کراچی کے مختار کار (تحصیلدار) کے پاس چلاگیا۔ میں نے کہا، قائداعظمؒ آؤٹنگ کے لیے جگہ چاہتے ہیں۔ وہ کہنے لگا، ٹھیک ہے۔ ہم حکومت کی طرف سے انہیں گفٹ کردیتے ہیں۔ میں نے اسے کہا، قائداعظمؒ اس قسم کے آدمی نہیں کہ وہ ایسا تحفہ قبول کرلیں۔ وہ باقاعدہ سیل ڈیڈ کے ذریعے خریداری کریں گے۔ چناں چہ قائداعظمؒ نے باقاعدہ سیل ڈیڈ کیا اور مارکیٹ کی قیمت پر اس کی قیمت ادا کی۔یہ سوال کہ وہ اس قسم کا کوئی سرکاری تحفہ قبول کرلیں… ان کے ذہن میں ایسی چیز کا گزر تک نہیں تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔