’ان پڑھ اسمبلیوں میں، اور پی ایچ ڈی سڑکوں پر‘

رمضان رفیق  منگل 16 مئ 2017
کوئی آنکھ اشکبار نہیں ہوئی، نہ آسمان گرا اور نہ ہی زمین پھٹی کہ وطن عزیز میں اعلی ترین تعلیم کے حامل لوگ روزگار کی تلاش میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

کوئی آنکھ اشکبار نہیں ہوئی، نہ آسمان گرا اور نہ ہی زمین پھٹی کہ وطن عزیز میں اعلی ترین تعلیم کے حامل لوگ روزگار کی تلاش میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

گزشتہ روز پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی نوزائیدہ تنظیم کی طرف سے فیصل آباد ضلع کونسل کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، کیونکہ اِن ڈاکٹروں کے پاس کسی ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ بند کرنے کا اختیار نہیں تھا، اِس لئے اِن کی آواز سننے والا شاید ہی کوئی ہو، ویسے بھی جو مٹھی بھر اکٹھے ہوئے تھے اُن کی آواز بھی خیر بھلا کیوں سنی جائے گی کہ یہاں تو ایسا نظامِ حکومت جو بندوں کو گنا کرتا ہے تولا نہیں کرتا۔ اب بھلا ایسے نظام میں اِن باشعور اور باوزن لوگوں کو کون اور کیوں خاطر میں لائے گا؟

کہتے تھے کسی زمانے میں کوئی قتل ہوجاتا تھا تو سرخ آندھیاں آیا کرتی تھیں، کسی ایک ظلم پر آسمان پکار اُٹھتا تھا، بجلیاں گرجایا کرتی تھیں اور بارشیں اُمڈ کر برستی تھیں، لیکن فیصل آباد کی اِس گرم دوپہر میں ملک و قوم کے وقار کو لو لگتی رہی لیکن کوئی آنکھ اشکبار نہ ہوئی، نہ آسمان گرا اور نہ ہی زمین پھٹی کہ وطن عزیز میں اعلی ترین تعلیم کے حامل لوگ اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے روزگار کی تلاش میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ یہ چند لوگ جنہیں سرمایہ افتخار ہونا چاہیے تھا، جنہیں تاج میں سرخاب کے پر کی طرح سجایا جانا تھا، جنہیں عزت و افتخار کی مسند پر بٹھایا جانا تھا، وقت انہی لوگوں پر اپنے حقوق کے لئے شاہراوں پر لے آیا۔

شاید ملک کی بدقسمتی کے عروج کو یہ دن بھی دیکھنا تھا، یہ فقرہ جو اُن احتجاج کرنے والوں کے بینر پر لکھا ہوا تھا کہ

’ان پڑھ اسمبلیوں میں، اور پی ایچ ڈی سڑکوں پر‘

یہ اُس نوحے کا عنوان ہے جس کا حرف حرف پڑھے لکھے لوگوں کی آرزوں کے قتل سے کشید ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں لکھے گئے بلاگ ’’پاکستان میں نظامِ تعلیم خستہ حال نہیں، بدترین ہے‘‘ کے بعد سے درجنوں لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا، اور ہر کسی کی کہانی دل پر گھونسے برساتی ہے۔ سچ کہیے تو میری کئی دنوں کی نیند اُجڑ چکی ہے کہ جو ملک اپنے ملک کے قابل ترین لوگوں کو بے قیمت کرنے پر تلا ہو اُس کی ترقی کے خواب میں کوئی رنگ کیونکر بھرے گا؟

ایک طرف کئی سرکاری اہلکار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک کو ابھی کئی ہزار پی ایچ ڈی درکار ہیں اور دوسری طرف جو پی ایچ ڈی پہلے سے موجود ہیں اُن کو روزگار کے لئے کہیں ایڈجسٹ نہیں کیا جا رہا۔ پہلے کسی زمانے میں لوگ میٹرک کی تعلیم کے بعد روزگار کے حصول کا خواب دیکھا کرتے تھے، پھر ایف اے کی تعلیم نوکری کی ضامن بنی، پھر لوگ بی ایس سی کو شرط روزگار قراد دینے لگے، پھر ایسا وقت آیا کہ بہت سے لوگ ماسٹرز کی تعلیم حاصل کرنے کو گارنٹی کہتے تھے، لیکن یہ کیسا وقت آگیا ہے کہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی بیروزگاری کے دن دیکھنے پڑیں گے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس دن سے متعلقہ شعبے میں پی ایچ ڈی کا آغاز ہوا ہے اُس دن سے اُس شخص کے روزگار کی سمت متعین کردی جاتی، جیسے مہذب دنیا میں انڈسٹریل پی ایچ ڈی کا ایک نظریہ پایا جاتا ہے کہ کوئی بھی انڈسٹری اپنے پڑھے لکھے ملازم کو یونیورسٹی کے ساتھ مل کر پی ایچ ڈی کی پیشکش کرتی ہے اور اُس میں کمپنی پہلے دن سے اُس ملازم کے سارے اخراجات برداشت کرتی ہے، جس کے بعد وہ کسی یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کسی ایسے عملی منصوبے پر پی ایچ ڈی کرتا ہے جس کو وہ کمپنی اپنے کاروبار کے لئے ترویج دینا چاہتی ہے، اور یوں تین چار سال بعد کمپنی کے پاس ایک اعلی مہارت والا ملازم ہوتا ہے جو نئے تجربات سے لیس ہوتا ہے۔

لیکن اگر پوچھا جائے کہ پاکستان کا پرائیویٹ سیکٹر کتنے پی ایچ ڈی لوگوں کو سموئے ہوئے ہے تو اِس کا جواب یوں ہے کہ پی ایچ ڈی لوگ ہمارے پاکستانی پرائیویٹ سیکٹر میں نہ ہونے کے برابر ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ جب سیٹھ کو دس بیس ہزار میں ہر فن مولا قسم کے ملازم دستیاب ہوں تو ایک اعلی ترین تعلیم یافتہ شخص کو زیادہ مراعات اور زیادہ تنخواہ دینے کی ضرورت کیا ہے؟ کیا کسی طرح اِن پرائیویٹ کمپنیوں کو پابند نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے کاروباری حجم کے اعتبار سے پی ایچ ڈی لوگوں کو ایک خاص معیار کے حساب سے مراعات دے کر ایڈجسٹ کریں؟ بھلا یہ کیوں ممکن نہیں کہ ہر ضلع کی انتظامیہ پر فرض قرار دے دیا جائے کہ اُن کے ضلع میں جتنے لوگ پی ایچ ڈی ہیں اُن کو جب تک کوئی نوکری نہیں ملتی اُس وقت تک کسی مشاورتی کام میں ساتھ شامل کرکے کم از کم قابل قبول اعزازیہ مقرر کردیا جائے؟

غرضیکہ اگر کوئی سوچے تو درجنوں ذرائع ایسے نکالے جاسکتے ہیں جس کی مدد سے اِن پڑھے لکھے لوگوں سے فیض حاصل کیا جاسکتا ہے، اِن کی انرجی کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے، یہ لوگ جو باہر کے ملکوں سے سیکھ کر آئے ہیں اُن کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ آج کل پاکستان میں کارپوریٹ ٹریننگز کا اہتمام ہونے لگا ہے جس میں ابھی تک غیر معیاری ٹرینرز رٹی رٹائی باتیں لون مرچ مصالحے لگا کر لوگوں کی آتما کو شانتی بانٹتے نظر آتے ہیں، لیکن اگر اُن کی جگہ اعلی تعلیم حاصل کرکے وطن واپس لوٹنے والے لوگوں سے اُن کی انڈسٹری کے تجربات پر مشتمل ٹریننگز کا اہتمام کیا جائے تو ہم کس قدر فائدے سمیٹ سکتے ہیں۔ ہر متعلقہ انڈسٹری اپنے متعلقہ شعبہ میں پی ایچ ڈی کرنے والے کو جانتی ہو اور جونہی وہ واپس پلٹے ملک کی انڈسٹری اُس کے تجربات سے رس کشید کرنے کی کوشش کرے۔

یہ عین ممکن ہے کہ پاکستان میں جو تحقیق ہورہی ہو اُس پر آپ کو اعتبار نہ ہو، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جس نے دنیا کی مانی ہوئی یونیورسٹیوں سے فیض حاصل کیا ہے، اُس کے نقطہ نظر میں ایک چمک ضرور آتی ہے، کیا ملک کے سمجھ بوجھ رکھنے والے اِس خزانے کو در بدر ہونے کے لئے چھوڑ دیں گے؟

سڑکوں کے کنارے اپنے حقوق کی جدوجہد کی آواز اٹھاتے ہوئے یہ لوگ اندر سے ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں کہ اِن کے پاس تو سوائے تعلیم کے کوئی اور ہتھیار تو ہے ہی نہیں۔ یہ تو سوائے اخلاقی دباو کے پاکستانی مزاج کے کسی اور حیلے سے بھی آشنا نہیں۔ اِن کی اِس نقار خانے میں کون سنے گا؟ ایک دل جلے نے کہا کہ ہمیں روزگار نہ ملا تو ہم خود کشی کرلیں گے۔

میں ملک کے اربابِ اختیار سے سوال کرتا ہوں کہ آخر کیوں شور مچائے بغیر، سڑکوں کو بند کئے بغیر، لوگوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑے کئے بغیر کسی کی داد رسی نہیں کی جاتی؟ کیا یہ پڑھے لکھے لوگ بھی سڑکوں پر اُسی طرح تباہی مچانا شروع کردیں، جس طرح اَن پڑھ لوگ مچایا کرتے ہیں۔ خدارا، یہ وقت آنے والے سے پہلے آپ کچھ کیجیے کہ یہ صرف اِن کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک و قوم کے بہتر مستقبل کا مسئلہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کےساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
رمضان رفیق

رمضان رفیق

رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ آپ ان کے بلاگ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ www.ramzanrafique.com

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔