تاریخ کا جبر

زاہدہ حنا  بدھ 17 مئ 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

عین اس زمانے میں جب پاکستان میں بھٹو صاحب کی منتخب حکومت معزول کی جاچکی تھی، ان پر ایک متنازعہ مقدمہ چل رہا تھا اور اس کا جو فیصلہ آنے والا تھا، وہ تاریخ میں عدالتی قتل کے نام سے بقائے دوام پانے والا تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب دسمبر 1979ء سوویت افواج اس وقت کی افغان حکومت سے کیے جانے والے ایک معاہدے کے تحت افغانستان میں داخل ہوئیں اور اس کے بلند و پست پر پھیل گئیں۔

یہ وہ سنہری موقع تھا جس کا امریکیوں کو عرصے سے انتظار تھا، بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکا جو سوویت یونین کے ہاتھوں ویت نام میں اپنی شرم ناک شکست نہیں بھولا تھا، اس نے درپردہ وہ حالات پیدا کیے جس کے نتیجے میں سوویت افواج نے افغان سرزمین پر قدم رکھے۔ درحقیقت یہ افغانستان کی سنگلاخ زمین نہیں، شکست اور رسوائی کی وہ دلدل تھی جس میں سوویت افواج کو اسی طرح پھنسنا تھا جس کا مظاہرہ دنیا ویت نام میں امریکی افواج کی ذلت کی صورت میں دیکھ چکی تھی۔

اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ہلاک ہونے والے سوویت سپاہیوں کی تعداد 14453 تھی۔ امریکا نے پاکستان کی سرپرستی میں جن ’مجاہدین‘ کو تیار کیا تھا، وہ 90,000 کی تعداد میں ہلاک ہوئے، 15 لاکھ سے زیادہ بے گناہ افغانی شہری اس جنگ کا نوالہ بنے، 30 لاکھ افغانی زخمی ہوئے، افغانستان سے پناہ گزیں بن کر نکلنے والوں کی تعداد 50 لاکھ تھی جن کی بڑی تعداد پاکستان اور اس کے علاوہ ایران میں آباد ہوئی۔ افغانستان کے اندر نقل مکانی پر مجبور ہونے والوں کی تعداد لگ بھگ 20 لاکھ تھی۔

وہ پاکستانی عسکری دانشور جنھوں نے اسٹرٹیجک ڈپتھ کے سنہرے خواب دیکھتے ہوئے، امریکا کی سرپرستی میں مذہبی انتہاپسندوں کے غول در غول افغانستان میں جھونک دیے، وہ ان تاریخی ناولوں سے بے حد متاثر اور مرعوب تھے جو انھیں اسلامی نشاۃ الثانیہ کی نوید سناتے تھے۔ دریائے آمو تک پہنچنے کے خواب چند جرنیلوں کی آنکھوں میں ہی تحلیل ہوگئے۔ پاکستان دہشت گردی، انتہاپسندی اور فرقہ وارانہ منافرت کی اس دلدل میں پھنسا جس سے آج تک اسے نجات نہیں ملی ہے۔

اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر پاکستان کو اس جنگ میں جنرل (ر) ضیا الحق نے دھکیلا تھا، انھوں نے جینوا معاہدے کے دنوں میں کہا کہ ’’ہم نے افغانستان میں کوئلے کی دلالی کی، جس کے نتیجے میں ہمیں اس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا کہ ہمارا منہ کالا ہوا‘‘۔ انھوں نے پاکستان کے حق میں جو کانٹے بوئے تھے اس کا صلہ انھیں یہ ملا کہ بدن راکھ ہوگیا اور صرف اپنے جبڑے کے ذریعے پہچانے جاسکے۔ ہم آج بھی ان کی ہوس اقتدار کی آگ میں جل رہے ہیں اور افغانستان میں بھی اتنے برسوں کے باوجود امن کا دور دور نام و نشان نہیں ملتا۔

افغان جنگ کے بارے میں یوں تو درجنوں کتابیں لکھی گئیں۔ ان میں امریکی، روسی، افغان، پاکستانی سب ہی شامل ہیں۔ بعض کتابوں کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جب کہ بعض ایسی ہیں جن میں بیان کردہ واقعات کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کتابوں میں سے ایک اہم کتاب جنرل محمت احمد ووچ گاربیف کی ہے۔ سوویت فوجوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد جو واقعات و معاملات تھے، ا ن کے بارے میں جنرل احمد ووچ نے ’’میری آخری جنگ‘‘ کے عنوان سے لکھا، جسے اردو میں ڈاکٹر نجم السحر بٹ نے منتقل کیا ہے۔ یہ کتاب افغان جنگ سے سوویت فوجوں کی واپسی کے دنوں کا قصہ سناتی ہے۔

جنرل احمد ووچ ماسکو سے اس وقت کابل بھیجے گئے جب افغان دارالحکومت میں ڈاکٹر نجیب کی حکومت تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ سوویت افواج کے چند دستے افغان سرزمین پر رہیں لیکن سوویت حکام اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ بس یہ ہوا تھا کہ جنرل احمد ووچ کو فوجی امداد کے ساتھ آپریشنل گروپ کا سربراہ بناکر بھیج دیا گیا تھا۔

جنرل احمد ووچ نے کابل پہنچتے ہی صدر ڈاکٹر نجیب کو یقین دلایا کہ وہ ان کی حکومت اور افغان فوج کو مستحکم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ وہ صدر ڈاکٹر نجیب کے استقلال اور عزم کی بے حد تعریف کرتے ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ اگر ڈاکٹر نجیب کو بیچ منجدھار میں چھوڑا نہ گیا ہوتا تو جنگ کا رخ بدل گیا ہوتا اور افغانستان خانہ جنگی کی آگ میں نہ جھلستا۔ وہ باغی گروہ جو عموماً ’مجاہدین‘ کے نام سے پکارے جاتے ہیں، ان میں بقول جنرل احمد ووچ بیشتر کرائے کے عرب لڑاکا اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایڈوائزر شامل ہوتے تھے۔ انھوں نے پغمان کے ان غاروں کا خاص طور سے ذکر کیا ہے جو 15 سے 20 کلومیٹر تک گہرائی میں واقع تھے اور جو افغان باغیوں اور لڑاکوں کی بہترین پناہ گاہ تھے۔

جنرل احمد ووچ نے کسی لگی لپٹی کے بغیر یہ لکھا ہے کہ ’’افغانستان میں جاری فوجی معرکہ آرائی میں طرفین میں سے کسی ایک کا کامیاب ہونا ممکن نہ تھا کیونکہ یہ جنگ تنازعات کی شکار دو ’’سپرپاورز‘‘ کی مالی اور فوجی امداد کے بل پر لڑی جارہی تھی۔ افغانستان میں سرکاری افواج کو سوویت یونین کی معاونت جب کہ مجاہدین کو امریکا، پاکستان، ایران اور دوسرے ممالک کی سرپرستی حاصل تھی۔ تاہم افغانستان کی صورتحال میں ملک کے اندرونی حالات کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ محرکات بالخصوص 1989ء میں سوویت افواج کے انخلا کے بعد زیادہ واضح ہوگئے تھے۔

سوویت افواج کی عدم موجودگی میں افغان مسلح اپوزیشن نے اپنے اہداف پر نظر ثانی کے بعد اپنی تمام تر توجہ اور طاقت افغان حکومت کی سرکوبی پر مرکوز کردی تھی۔ چونکہ سوویت افواج کی موجودگی میں مذکورہ اہداف کی تکمیل ناممکن تھی اس لیے مجاہدین کی کارروائیاں تخریبی اور گوریلا حکمتِ عملی کے ذریعے ملک میں عدم استحکام کی فضا پیدا کرنے تک محدود تھیں۔ مجاہدین کی حکمتِ عملی میں تبدیلی کے بعد 1989ء میں ان کی جنگی کارروائیوں کی شدت اور دائرہ کار میں شدید اضافہ ہوگیا تھا۔ جب کہ سوویت افواج کے انخلا کے بعد مجاہدین سے برسرِ پیکار افغانستان کی سرکاری فوج کے وسائل اور جنگی صلاحیت میں خاطر خواہ کمی پیدا ہوگئی تھی‘‘۔

جنرل موصوف کا قیام کابل میں مختصر مدت کے لیے تھا لیکن اس دوران وہ معاملات کا ژرف نگاہی سے جائزہ لیتے رہے اور بعد میں وہ اسے ضبط تحریر میں لائے۔ انھوں نے لکھا کہ افغانستان جس الم ناک مسائل سے گزرا وہ ’’سرد جنگ‘‘ کا نتیجہ ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ افغان صورتحال نے سوویت عوام کی زندگی پر بھی اثرات مرتب کیے اور سوویت یونین کی تحلیل میں بھی کردار ادا کیا تھا۔

ان کی کہانی یہاں ختم ہوجاتی ہے لیکن جنرل کے واپس ماسکو چلے جانے اور ڈاکٹر نجیب اللہ کی المناک پھانسی کے واقعے سے آج تک افغانستان سکوں پذیر نہ ہوسکا۔ وہ پراکسی وار جو اس سرزمین پر لڑی گئی اس کی فصل افغانی اور پاکستانی آج تک کاٹ رہے ہیں۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان جب انگریزوں کے سامنے پسپا ہوا تو ہمارے بہت سے ادیبوں اور شاعروں نے ماضی کی سنہری داستانوں میں پناہ ڈھونڈی اور تاریخی کرداروں کو حقیقت سے 100 گنا زیادہ بڑا کرکے پیش کیا۔ 1971ء کی شکست کے بعد ہمارے بعض عسکری دانشوروں نے ان ناولوں کو حقیقت جانا اور جب سوویت یونین تحلیل ہوا تو عظیم عالمی طاقت کو توڑنے کا سہرا اپنے سر سجا لیا۔ان کا خیال تھا کہ یہ افغانستان میں عرب، افغان اور پاکستانی لڑاکوں کی کارروائیاں تھیں جنہوں نے سوویت یونین کا شیرازہ بکھیر دیا۔

انھوں نے سوویت یونین کے بگڑتے ہوئے اقتصادی حالات، دکانوں سے ڈبل روٹی مکھن اور دودھ کے غائب ہوجانے، معمولی اشیا ئے خورو نوش کے لیے ایک کلومیٹر لمبی قطاروں کی طرف توجہ نہیں دی۔ وہ اپنی نگاہوں میں تز ویراتی گہرائی کا خواب سجائے ہوئے تھے۔ وسطی ایشیا تک ان کی رسائی بس ہونے ہی والی تھی۔ ہمارے ایک سابق جرنیل نے تو یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ہم نے ایک عظیم عالمی طاقت سوویت یونین کو پارہ پارہ کردیا،م اب دوسری عالمی طاقت امریکا کا بھی ہم شیرازہ بکھیر دیں گے۔

ایک طرف یہ سنہرے خواب تھے، دوسری طرف زمینی حقائق کی سنگلاخ چٹانیں۔ ہم نے 30 لاکھ افغانیوں کی میزبانی کی اور اپنی معیشت تباہ کی۔ آج وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں اور اپنے تمام مصائب کا ذمے دار ہمیں قرار دیتے ہیں۔ ہم ایک ایسی دلدل میں دھنس چکے ہیں جس سے نکلنے کے لیے یک دلی اور یک سوئی کی ضرورت ہے لیکن شدید خواہش کے باوجود اس کے آثار نظر نہیں آتے۔

اس کا سبب اقتدار کی ہوس ہے۔ حصہ بقدر جثہ پر اکتفا کرنے کے بجائے ہر شخص خود کو مقتدر ترین سمجھتا ہے اور اس خواب کو سچ کرنے کے لیے تمام حدوں کو پار کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ ہمارے کچھ مقتدرین نے افغانستان کو اپنی طفیلی ریاست بنانا چاہا تھا اور اب عالم یہ ہے کہ ادھر سے حملے ہوتے ہیں۔ دونوں طرف کے فوجی مارے جاتے بین اور ’باب دوستی‘ بند ہے۔ یہ باب کل کھل بھی جائے تو چند دنوں بعد پھر بند ہوجائے گا، اس لیے کہ ہم نے دل کا دروازہ بند کردیا ہے۔ دلوں کے دروازے خطے کے تمام ملکوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی کھولنے ہوں گے کیونکہ یہ تاریخ کا جبر ہے۔ یہ دن بیلٹ ون روڈ کی صدی ہے۔ تنہا جینا اور لڑتے رہنا 21 ویں صدی میں کسی کے لیے ممکن نہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔