دینی مدارس، عصرحاضر کے تقاضے

عابد محمود عزام  جمعرات 18 مئ 2017

دینی مدارس نے دینی علوم کے فروغ اور معاشرے کی اصلاح کے لیے ہر دور میں انتہائی محنت اور جستجوکے ساتھ اپنی ذمے داریوں کو نبھانے کی بھرپورکوشش کی ہے۔ معاشرے نے بھی اعتماد کرتے ہوئے بچوں کی ایک بڑی تعداد دینی مدارس کے سپرد کی، یہی وجہ ہے ان کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، تاہم دینی مدارس کو مقدار میں اضافے کے ساتھ معیار میں کمی کا مسئلہ ضروردرپیش ہے، کیونکہ تحقیقی و علمی مزاج ان سے مفقود ہوتا جارہا ہے۔

بہت سے دینی مدارس میں گزشتہ چند برسوں میں تحقیق اور تصنیف کے شعبے قائم تو ہوئے، لیکن ان شعبوں سے تحقیق کے وہ مقاصد کماحقہ پورے نہیں ہوسکے، جس کی آج قوم وملت اورعالم اسلام کو اشد ضرورت ہے۔اکثر دینی مدارس میں کسی نئے موضوع پر تحقیق وتصنیف برائے نام، جب کہ نصابی سرگرمیاں حاوی ہیں اور مدارس سے غالب تعداد مدرسین، مقررین اور درسی کتب کے شارحین پیدا ہورہے ہیں۔

مدارس کی سطح پر مطالعہ اور جدید تحقیق کے لیے مکمل رہنمائی اور موجودہ دورکے تقاضوں کے مطابق طلباء میں علم وتحقیق کا صحیح شعور بیدار کرنے کے لیے منصوبہ بند اقدامات اور دینی مدارس میں دینی علوم میں جو اسپیشل کورسز کروائے جاتے ہیں، انھیں سائنسی اصولوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ عصری جامعات کی پی ایچ ڈی میں تحقیق کے جو جدید اصول اور مناہج تحقیق اپنائے جاتے ہیں، ان کو اپنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

دینی مدارس کا نظام و نصاب اور مدارس میں عصری تعلیم کی ضرورت و اہمیت الگ موضوعات ہیں، جن پر ضرور غور و فکر ہونا چاہیے، لیکن سیرت النبی، تاریخ اسلام، اسلام کا معاشی نظام، جدید سیاسی نظریات کے تقابل کے ساتھ اسلام کا سیاسی نظام، جدید معاشرتی افکار کے ہمراہ اسلام کا معاشرتی نظام اور اس کے ساتھ استشراق، الحاد، مسلم ممالک پر مغرب کی فکری و تہذیبی یلغار، اسلامی ممالک اورعالم اسلام کے مسائل اور جغرافیہ کو تفصیلی طور پر مدارس میں زیر بحث لانا ضروری ہے۔

تحقیق اور تصنیف کے لیے جس تجسس اور تخلیقی فکر کی ضرورت ہے، وہ مدارس میں رائج روایتی بھاری بھرکم نصاب سے حاصل نہیں ہوتی، اس کے لیے غیر نصابی کتب کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے، مگر اکثر دینی مدارس میں غیر نصابی کتب کا مطالعہ صرف مناظر ے کے انداز میں لکھی گئی کتب کے مطالعے تک محدود ہوگیا ہے۔

اپنے مسلک اور نظریے کے سوا کسی کی کتب پڑھنا تو گویا شجر ممنوعہ ہے، ہاں! جن کتب میں مخالف مسلک اور نظریے کے خلاف مواد موجود ہو، وہ کتب شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ اس مزاج نے دینی مدارس کی سوچ کو بہت ہی محدود کردیا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ مدارس کے طلباء کی اکثریت اپنے سوا تمام مسالک کو باطل اور صرف خود کو حق گردانتی ہے۔ تمام مسالک کے مدارس میں طلباء کی اکثریت مخالف فرقے اور مسلک کے خلاف بھاری بھرکم دلائل سے لیس ہوگی۔ مخالف فرقے کے اعتراضات اور ان کے جوابات رٹے ہوں گے۔

فروعی مسائل پر کئی کئی کتابیں پڑھی ہوں گی اور مخالف فرقے کو غلط ثابت کرنے کے تمام گر آتے ہوں گے، لیکن زمانے کے جدید دینی مسائل کا حل نہیں جانتے ہوں گے۔ مستشرقین کی جانب سے اسلام، قرآن اور نبی علیہ السلام کی ذات پر کیے جانے والے اعتراضات اور ان کے جوابات کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوگا۔ یہ یقین تو ہوگا کہ دین اسلام قیامت تک کے انسانوں کے لیے آیا ہے، لیکن قیامت تک کے انسانوں کے لیے اسلام کو کس طرح ہر دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنا ہے، یہ معلوم نہیں ہوگا۔

علمائے کرام، دینی مدارس اور اسلامی مراکز کی بڑی ذمے داری اسلامی نظریات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ موثر اور منظم طریقے سے دینی احکام کی نشرواشاعت اور دین اسلام کے خلاف کھلنے والے ہر محاذ کا مقابلہ کرکے دین برحق کو قرآن و سنت کے سر چشمہ سے لے کر زمانے کے فہم میں ڈھال کر عصر حاضر کی زبان میں آگے منتقل کر نا ہے۔

دینی مدارس کے طلباء کی ذمے داری جلسوں میں نعرے بازی کرنا نہیں، بلکہ عصر حاضر میں امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے، مگر ایک بڑی تعداد دین اسلام کی عالمی سطح کی سوچ کو پس پشت ڈال کر دین کی خدمت سمجھتے ہوئے مخالف فرقوں کے خلاف نعرے لگانے، ان کے خلاف مناظرے کرنے اورکتابیں لکھنے میں مشغول ہے۔

تمام مسالک کے دینی مدارس میں فرقہ وارانہ مزاج پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی سوچ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل نکالنے کے بجائے صرف اپنے فرقے کو فروغ دینے کے گرد گھومتی ہے، جو سراسر علمائے کرام کے منصب و مرتبے کے منافی ہے، کیونکہ علماء انبیا کے وارث ہیں اور نبی پورے عالم کی فکر رکھتا ہے۔ دینی مدارس کو اس فرقہ وارانہ سوچ کا قلع قمع اپنے مسالک کے مراکز سے شروع کرنا چاہیے۔

معاشرے میں مستشرقین، ملحدین، مغرب کی فکری وتہذیبی یلغار اور دیگر مخالفین اسلام کی کامیابیوں کو دینی مراکز کی اپنی ذمے داریوں سے بے توجہی کا نتیجہ قراردیا جاسکتا ہے۔ آج مخالف مسالک کے رد سے کہیں زیادہ محنت الحاد، استشراق اور مغرب کی فکری و تہذیبی یلغار سمیت بہت سے جدید مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ہے۔

بہت سے مستشرقین نے اسلام، قرآن، حدیث، سیرت، تفسیر، فقہ اور اسلامی علوم پر اعتراضات کرنے کے لیے اپنی پوری زندگیاں وقف کردی ہیں۔ اسلامی علوم میں خامیاں ڈھونڈنے کے لیے اسلامی علوم کو اتنا زیادہ پڑھا کہ مسلمانوں کے ہی متعدد علوم پر مسلمانوں میں سے بہت سوں سے زیادہ عبور حاصل کرلیا ہے۔ ملحدین دین اسلام پر ایسے ایسے اعتراضات کرتے ہیں، مدارس کے طلباء ان کے جوابات دینے سے قاصر ہوتے ہیں، کیونکہ انھیں اس ضمن میں کچھ پڑھایا ہی نہیں گیا ہوتا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی رہنمائی کی ہوتی ہے۔

طلباء کو امت مسلمہ کو درپیش جدید چیلنجز کے مقابلے کے لیے تیار کرنا دینی مدارس کی ذمے داری ہے۔ تمام مسالک کے علمائے کرام کی نگرانی میں ایک ایسی کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت ہے، جس کے تحت تمام مسالک کے دینی مدارس کے طلباء جدید دینی مسائل پر ریسرچ کریں، اس سے جہاں بہت سا جدید تحقیقی کام سامنے آئے گا، وہیں تمام مسائل کے علمائے کرام کو مل بیٹھنے، ایک دوسرے کا نقطہ نظر اور موقف سننے کا موقع ملے گا، جس سے ایک دوسرے کے بارے میں پیدا ہونے والی بہت سی غلط فہمیاں خود ہی ختم ہوجائیں گی اور اس طرح مسلکی اختلافات میں کسی حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔

طلبہ کو تحقیق کے لیے عصر حاضر میں امت مسلمہ اور معاشرے کو درپیش مسائل سے متعلق مختلف موضوعات دے کراساتذہ کی نگرانی میں مطالعہ کروایا جائے اور ان موضوعات پر مقالاجات لکھوائے جائیں اور تمام دینی مدارس میں مسلکی اختلافات ختم کرنے کے حوالے سے بھی مقالاجات لکھوائے جائیں اور تمام مسالک کے طلباء و اساتذہ کے وفود کو چند چند دن کے لیے دیگر فرقوں کے مدارس میں بھیجا جائے، تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ گھل ملنے کا موقع ملے اور دلوں میں بیٹھی نفرتیں دم توڑ جائیں۔ عصر حاضر دینی مدارس سے بہت سی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے۔ دینی مدارس کو مسلکی لڑائی جھگڑوں سے جان چھڑا کر عصر حاضر کی توقعات پر پورا اترنا ہوگا، جو کہ دینی مدارس کی ذمے داری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔