گوادر کے مزدور

جاوید قاضی  جمعرات 18 مئ 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

وہ میرے گاؤں سے گوادرگئے تھے مزدوری کے لیے، سڑکوں کے لیے پتھرتوڑنے، بچوں کی روٹی کے لیے فقط،دس ہزار روپے ماہانہ کے لیے یعنی صرف ایک سو ڈالر۔کتنا جلتا ہوگا اِن کا چولہا اِن دس ہزار میں۔ دو وقت کی روٹی ایک وقت کا فاقہ؟میں نے مزدوروں کوکارل مارکس کی تحریر وں میں پڑھا تھا۔

انقلاب کا ہر اوّل دستہ۔ وہ انقلاب جو انارکی کے بعد کوئی سمت لیتا ہے۔ایک ایسی سمت جس کو ساحر لدھیانویؔ کہتے ہیں:۔

’’وہ صبح کبھی تو آئے گی
ان کالی صدیوں کے سر سے
جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دْکھ کے بادل پِگھلیں گے
جب سکھ کا ساگر چھلکے گا‘‘

مجھے کارل مارکس نے پڑھایا تھا اِن مزدوروں کی کوئی قوم نہیں ہوتی۔ نہ ذات پات ہوتی ہے،  وہ فقط مزدور ہوتا ہے۔ اپنے جسموں کو تپتی دْھوپ میں جلاتے ہیں۔ اپنے پسینے سے،اپنے بچوں کے لیے روٹی کماتے ہیں۔ وہ کہتا ہے انقلاب کا ہر اوّل دستہ، مزدور اس لیے ہے جس کے پاس گنوانے کے لیے کچھ بھی نہیں فقط غلامی کے طوق ہیں۔ اسی لیے میں نے مزدور سے بہت پیارکیا رنگ ومذہب کے تضاد سے بالاتر ہوکر۔ اپنی جوانی کے تمام ماہ وسال جو مجھے کسی محبوبہ کے نام کرنے تھے، ساحرؔ لدھیانوی کے اْس خواب کے نام رقم کردیے۔

’’وہ صبح کبھی تو آئے گی
جب امبر ْجھوم کے ناچے گا
جب دھرتی نغمے گائے گی‘‘

کون کون نہیں مرا گوادر میں۔بِلا تفریق وہاںجب کبھی جو بھی مزدور مرا، میں نے کہا میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا۔

مجھے بلوچوں سے اتنا پیار ہے کہ جب میں اینکر تھا تو اکبر بْگٹی، خیر بخش مری،عطاء اللہ مینگل غرض کہ جو بھی بلوچ قوم پرستی  کے زاویے اور زائچے تھے ہرپہلو، ہر ایک دامن کھولا،دیکھا اوردکھایا۔ سرداروں کی آنکھوں سے ہو یا مڈل کلاس بلوچ کی سوچ کی نگاہوں سے، سب تحریر کیا۔ سب رقم کیا۔ محض وفاق میں بلوچوں کا وکیل تھا اورآج بھی میں وکیل ہوں جو سچ ہے، وہ سچ ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں جتنی زیادتی بلوچوں کے ساتھ ہوئی وہ کسی کے ساتھ بھی نہ ہوئی۔

ایک طرف مزدور ہیں اور دوسری طرف بلوچ چرواہا جو بکریوں کے ریوڑھ سے، جنگلوں اور میدانوں میں اْن کی غذا کی خاطر پتے ڈھونڈتا ہے۔ میں جاؤں توکہاں جاؤں۔ مزدورکو روؤں یا بلوچ کو۔ اس بارکچھ یوں ہوا کہ وہ سب میرے گاؤں سے گئے تھے۔ یہ لوگ ذات سے ’’لاکھو‘‘ تھے۔’’لاکھوروڈ‘‘ نامی قصبے سے اْن کا تعلق ہے۔ میں بچپن میں نواب شاہ سے فیڈر ٹرین سے اپنے گاؤں کے قریب والے ریلوے اسٹیشن سے محراب پورجاتا تھا تو راستے میں’’ لاکھا روڈ اسٹیشن‘‘  پر وہ فیڈر ٹرین رْکتی تھی۔بڑے غیور تھے یہ ’’لاکھو‘‘۔کسی ایرے غیرے نتھو خیرے وڈیرے کے ساتھ اِن کا رہن سہن نہ تھا۔

اب نہ جانے کیا ماجرہ ہوا مجھے سمجھ نہ آیا کہ ایسا کیا ہوا کہ اس کسمپرسی کو پہنچے ہیں یہ لوگ کہ فقط سو ڈالرکے واسطے سیکڑوں میل دور مزدوری کرنے چلے گئے۔آنکھوں کے سامنے اِن نو’لاکھو‘‘مزدوروں کے مرنے کے بعد، ٹریکٹروں پر چڑھا کر جب اِن کی میتیں گاؤں کو پہنچتی ہیں۔ ہر طرف فغاں، آہ وپکار ہے چیخیں ہیں۔ بین کرتی ہوئی ایک دن پرانی بیوہ ماتھے کو پیٹتے ہوئی کیمرہ کے سامنے آکر کہتی ہے۔’’ ارے گھرمیں اگر روٹی ہوتی، ہماری زمینیں بنجر نہ ہوگئی ہوتیں۔ اِن شاخوں سے اگر پانی آتا رہتا تو ہم کیوں گوادر جاتے۔‘‘

اور ماں کے کندھوں سے لگے معصوم چہرے مٹی سے اٹے ہوئے ننگے پاؤں اور پھٹے ہوئے کپڑے،انھیں کچھ بھی خبر نہیں کہ’’ابا کے مرنے‘‘ کے معنی کیا ہیں۔ مگر مجھے پتہ ہے ایسے سیکڑوں گھر ہیں یہاں جس میں ابا ہیں یا نہیں ہے بے معنی ہے یہ۔ یرقان اْن کی دہلیز پر دستک دے رہاہے۔ اسکولوں کو تالے لگے ہوئے ہیں۔ اسپتال بند پڑے ہیں۔ یہ ہے میرا گاؤں اور میرے گاؤں کے نواح۔

جہاں کئی سال ہو گئے میں نہیں گیا اورجب بھی گیا فقط اِس لیے کہ ابا کی قبر پر دو قْل پڑھ سکوں۔ خاک ہو یہ انسان دوستی جو میں نے روا رکھی ہے اور مجھ  جیسے کئی مجرم اِس سندھ میں تبدیلی کا معجون بیچتے ہیں اپنے ائیرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر۔ اور سندھ حکومت ہے جو کانوں کے بغیر زندہ ہے نہ ہماری آواز اْن تک پہچتی ہے نہ ہم نے ایسی حرکت کی ہے کہ اْن کی آنکھیں کْھلیں۔روزی کی خاطر میرے گاؤں سے گوادر گئے مزدور، جب لاشہ بن کر لوٹے تو اْن کی میتوں کے لیے بے نظیر بھٹو ایمبولینس  موجود نہ تھی فقط کچھ اجرک ،جس پر اجرک سے بھی بڑا سفیدکاغذ چسپاں تھا۔ جس پر بلاول بھٹو زرداری کا نام لکھا تھا۔

گوادر میں کوئٹہ سے چل کر کورکمانڈر اور وزیر اعلیٰ ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے، مگر میرے گاؤں کے اِن مزدوروں کی میتوں پر سندھ حکومت سے کوئی نہ آیا۔ میرے گاؤں کے یہ مزدورکوئٹہ کے وزیراعلیٰ کے ووٹر نہیں۔ جن کو یہ ووٹ دیتے ہیں وہ ہی لاپتہ ہیں ، مگر پھر بھی یہ لوگ ووٹ اْنھیں کو دیں گے۔ایک طرف میرے گاؤں کے مزدور اور دوسری طر ف بلوچوں کے دْکھوں کی کہانی۔ سب اْبل پڑے ہیں، سارے خیال اور درد انگیز باتیں۔

یہ کون سا دیار ہے ! یہ کون سی جگہ ہے ، یہ وہی جگہ ہے جہاں سے میرے والد نے 1955ء میں’’ہاری الاٹی تحریک‘‘ شروع کی تھی کہ ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی زمینیں دہقانوں کو دی جائیں۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں ہندو اور مسلم ایک ساتھ بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے۔کتنے خوبصورت وہ پرانے گھر تھے ہالانی، بیلانی، ٹھارو شاہ ،کنڈیارو، نوشہرو فیروز، وہ سب گلیاں اور چوبارے وہ میرے ہالانی کے سندھ کا سب سے بڑا اور پرانا مندرجہاں میں بچپن میں بیساکھی کا میلہ دیکھنے گیا تھا ۔اور مجھ سے پہلے میرے ابا نے اپنے بچپن میں، اِسی مندر میں۔ اِسی بیساکھی کے میلے میں’’بھگت کنور‘‘ کوگاتے ہوئے سْنا  اوراب وہاں اْن یادوں کے کھنڈرباقی بچے ہیں۔اہنسا اور امنSufism ،اور’’بیساکھی‘‘ کے میلے سب پر مٹی کی تہیں جم چکی ہیں کہ جیسے اب آثار قدیمہ کو آنا ہوگا یہ بتانے کے لیے کہ کل یہاں پر ایسا بھی سندھ ہوا کرتا تھا۔

اِس تمام طویل تاریخ میں تسلسل میں کتنی چھوٹی ہے یہ حرکت کہ کسی ذہن کو جیسے سرطان لگ جائے۔ وہ کچھ بھی نہیں لیکن بلوچ قوم پرستی کے طالبان ہیں جو مزدوروں کے سامراج کو سمجھتے ہیں۔ یہ وہ ہی میرا گاؤں ہے ہالانی جہاں  1791ء میں کلہوڑوں اور تالپور بلوچوں میں جنگ ہوئی تھی جس کے بعد  تالپور بلوچ سندھ کے بادشاہ بنے تھے۔ اگر میں کہوں کہ میں بلوچ ہوں کیونکہ میرے بلوچ بادشاہوںکو1843ء  میں انگریز سامراج نے شکست دے کر سندھ کو محکوم کیا تھا۔

میں نہیں سمجھتا کہ ایک بلوچ نے، سندھی کو مارا ہے۔یہ سارے نو’’لاکھو‘‘ مزدور جو میرے گاؤں سے گوادر گئے تھے اور مارے گئے سندھی نہیں حقیقتاً بلوچ تھے اور اْس سے بھی زیادہ وہ مزدور تھے، فقط ’’مزدور‘‘جس کے پاس بیچنے کے لیے فقط اپنے جسم کا پسینہ ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی اور کارل مارکس کے خیال کا مزدور ، انقلاب کا ہر اول دستہ مزدور…!

’’وہ صبح کبھی تو آئے گی
جس صبح کی خاطر یگ یگ سے

ہم سب مر مر کر جیتے ہیں
جس صبح کے امرت کی دھن میں

ہم زہر  کے پیالے پیتے ہیں
اِن بھوکی پیاسی رْوحوں پر

اِک دن تو کرم فرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔