ترقی موہوم

مقتدا منصور  جمعرات 18 مئ 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جن دنوں وزیراعظم چاروں وزرائے اعلیٰ سمیت ’’بیلٹ اینڈ روڈ فورم‘‘ میں شرکت کے لیے چین کے دورے پر گئے ہوئے تھے۔ اس دوران خرم حسین کیCPEC پر رپورٹ ایک موقر انگریزی روزنامے میں شایع ہوئی۔ اس رپورٹ میں معاہدے کے اصل مسودے کے کچھ حصے شایع کیے گئے ہیں۔ اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں، وہ ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں، جو اس منصوبے کو ملک کی معیشت کے لیے Game changer قرار دے رہے ہیں۔ جس روز یہ اظہاریہ شایع ہوگا ، وہ چھ روزہ دورے سے واپس آچکے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی طرف سے رپورٹ کے بارے میں کوئی بیان سامنے آئے۔

اس منصوبے پر سرکار نواز حلقے بغلیں بجا رہے ہیں، مگر ملک کے ماہرین معاشیات سمیت بیشتر متوشش شہری مختلف نوعیت کے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سوالات اٹھا رہے ہیں، لیکن حکومت ان سوالات کا جواب دینے کے بجائے ماضی کی طرح ان لوگوں پر ملک دشمنی کے الزامات عائد کررہی ہے، جواس منصوبے کے بارے میں تحفظات کا اظہارکر رہے ہیں۔ جو معیشت دان اس منصوبے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، ان میں ڈاکٹرقیصر بنگالی، ڈاکٹر اکبر زیدی اور ڈاکٹر اسد سعید زیادہ نمایاں ہیں۔

ان معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ ملکی معاشی صورتحال خاصی تشویشناک ہے۔دوسری طرف عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق جولائی2016 سے اس سال مارچ تک تجارتی خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ درآمدات کی شرح میں اضافہ اور برآمدات تیزی سے کم ہوئی ہیں، جب کہ گردشی قرضوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ بجلی کا بحران موجودہ حکومت کے چوتھے برس میں مزید گہرا ہوگیا ہے۔

اب جہاں تک CPECکا تعلق ہے، تو مذکورہ رپورٹ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ چینیوں کی زیادہ دلچسپی زرعی سیکٹر میں ہے، اگر پنجاب، سندھ اور خیبر پختون خواہ کی زرعی زمینیں چینی کارپوریٹ سیکٹر کو دی جاتی ہیں، تو مقامی کاشتکار جو ریاست کی غلط مالی پالیسیوں کے نتیجے میں پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں، ان کی مجبوریوں میں مزید کئی گنا اضافے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ بلکہ بیشتر مقامی کاشتکار مفلسی کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ یہی کچھ معاملہ صنعتوں کا ہے۔

راہداری کے اطراف میں لگنے والی صنعتوں کے لیے چینی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ دی جارہی ہے۔ جب کہ مقامی صنعتکاروں کو اس نوعیت کی کوئی سہولت فراہم نہیں کی جارہی۔ ڈاکٹر اکبر زیدی کا موقف ہے کہ سوائے ٹھیکیداروں کے اس منصوبے سے مقامی صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کو کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ کیا اس راہداری پر پاکستانی چینی ٹرکوں پر پنکچر لگائیں گے، تو ان کا جواب تھا کہ پنکچر لگانے والے بھی چینی ہی ہوں گے۔

گزشتہ دنوں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر بنگالی نے پاکستان کی معیشت کو جوئے کی معیشت قرار دیا اور CPEC کے حوالے سے چند استدلالی سوالات اٹھائے۔ان کا کہنا تھا کہ آیا اس منصوبے پر دستخط کرنے سے قبل اس کے تمام پہلو کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے؟ اگر لیا گیا تو اس کی رپورٹ منظر عام پر لانے سے کیوں گریز کیا جا رہا ہے؟ اگر جائزہ نہیں لیا گیا، تو کیوں نہیں لیاگیا؟

انھوں نے سوال اٹھایا کہ واضح طور پر بتایا جائے کہ کون کون سے سیکٹروںمیں چینیوں کی سرمایہ کاری آرہی ہے؟ان سیکٹروں میں مقامی سرمایہ کاروں کی حیثیت کیا ہوگی؟ انھوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اس منصوبے کی حفاظت کے لیے بجٹ میں کتنی رقم مختص کی گئی ہے؟ اس میں چین کا حصہ کتنا ہوگا؟

اگر دوسری عالمی جنگ کے بعد آزاد ہونے والی نوآبادیات کا جائزہ لیں، تو ہمارے سامنے کئی مثالیں آتی ہیں۔ جن ممالک کی سیاسی قیادتوں نے نوآبادیاتی دور کے جذباتی نعروں کو ایک طرف رکھ کر تعلیم کے فروغ اور معیشت کے استحکام کی منصوبہ بندی پر توجہ دی، وہ بیسویں صدی کی آخری دہائی تک مستحکم معیشت کے ساتھ عالمی منظر نامے پر آچکے تھے، لیکن جو ممالک نوآبادیاتی دور کے جذباتی نعروں سے جان چھڑانے کے بجائے انھی کے سحر میں گرفتار رہے، وہ اپنے معاشروں کی ترقی کے لیے کوئی خاطر خواہ منصوبہ بندی کرنے میں ناکام رہے۔

پاکستان کے ابتدائی بیس برسوں (1947سے 1967)کے دوران سیاسی، سماجی اور معاشی نظام پر نظر ڈالیں، تو کئی رجحانات نظر آتے ہیں، سیاسی عمل کنفیوژن کا شکار رہا۔ خاص طور پر مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی اکثریت تہذیبی نرگسیت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے سیاسی نظام کے استحکام کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کر سکی۔ جس کے اثرات نظام حکمرانی پر مرتب ہوئے۔ ورثے میں ملنے والی بیوروکریسی نے سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار و اختیار اور منصوبہ سازی پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ البتہ ٹیکنوکریٹس اور بنگالی سیاستدانوں کی کاوشوں کے نتیجے میں صنعتکاری کا عمل شروع ہوا اورPIDC جیسے ادارے کا قیام عمل میں آیا۔

اس دور میں پاکستان کے معاشی نموکی شرح بھارت سے زیادہ تھی۔ جس کی وجہ سے غربت کی شرح بھی خاصی کم تھی، مگر سیاسی عدم استحکام، قیام ملک کے گیارہویں برس میں مارشل لا کا لگنا اور 1965میں بھارت کے ساتھ جنگ نے معاشی میدان میں ہونے والی پیش رفت کو گہنا دیا۔ تعلیم روز اول ہی سے حکمران اشرافیہ کی اولین ترجیح نہیں تھی۔ گو کہ اس دور میں کئی جامعات اور نئے اسکول کالج ضرور قائم ہوئے، مگر نصاب تعلیم کو جدید بنانے پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ فکری اور تہذیبی نرگسیت رہی ہے، جس نے آج تک پوری ریاست اور سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد باقی ماندہ پاکستان فیوڈل ، ٹرائبل اور برادری کی بنیاد پر مجتمع اشرافیہ کے چنگل میں پھنس گئی۔ پیپلز پارٹی متوسط طبقے کی نمایندہ جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تھی، مگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اس پر فیوڈل طبقہ حاوی ہوتا چلا گیا۔ جنرل ضیا کی آمریت کے دوران مسلم لیگ ن صنعتکاروں اور اربن مڈل کلاس کے نمایندے کے طور پر سامنے آئی، مگر وہ وسطی پنجاب کی طاقتور برادریوںکے چنگل میں پھنس گئی۔

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آغاز میں عمران خان کی تحریک انصاف متوسط طبقے کی جماعت کے طورپر ابھر کر سامنے آئی۔ مگر جلد ہی یہ بھی سجادہ نشینوں، دولت مندوں اور بڑے سرمایہ کاروں کے چنگل میں پھنس گئی۔ ویسے بھی اس جماعت کی قیادت شروع ہی سے مبہم اور غیر واضح سیاسی تصورات کی حامل رہی ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست مضبوط اشرافیہ کے چنگل میں ہے۔ ان تینوں میں سے جو بھی جماعت اقتدار میں آتی ہے، یا اس وقت ملک کے وفاق یا صوبوں میں مقتدر ہے، اس کے اہداف عام آدمی کی حالت زار کو بہتر بنانا نہیں ہے۔ بلکہ Electablesکے چکر میں پھنسی مخصوص اشرافیہ کے مفادات کی نگہبان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام غیر حقیقی انتخابی عمل کی وجہ سے برادریوں، قبائلی شناخت اور فیوڈل اثرات کے تحت ووٹ دیتے ہیں، مگر انھیں مل کچھ نہیں پاتا۔ اربن معاشرت سے تعلق رکھنے والے عوام جن کا تناسب گزشتہ ایک دہائی کے دوران تیزی کے ساتھ بڑھا ہے۔

قیام پاکستان کے وقت سے آج تک سیاسی قیادتیں اور اسٹبلشمنٹ اس عزم و بصیرت سے عاری ہیں،جو قومی ترقی کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ سرد جنگ کے پورے عرصے میں ان قوتوں نے ملک کو امریکاکا حواری بنائے رکھا۔ سرد جنگ کے بعد جب امریکی اہداف تبدیل ہوئے تو ایک نئے آقا کی تلاش شرو ع ہوئی۔ جو اب چین کی شکل میں مل گیا ہے۔ محسوس یہ ہورہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جوکام امریکا 40 برسوں کے دوران نہ کرسکا ، چین وہ محض 15 برسوں میں کر گذرے گا۔

چینی جس تیزی کے ساتھ پاکستان میں آرہے ہیں اور رپورٹ کے مطابق انھیں ویزا کی جو سہولیات مہیا کی جارہی ہیں، اس کے بعد چینیوں کا پاکستان میں تانتا بندھ جائے گا۔ لہٰذا جس ترقی کا ڈھنڈورہ پیٹا جارہا ہے وہ محض دکھاوے کی ہے۔ اس سے پاکستانی سرمایہ کاروں اور عام شہریوں کو کسی قسم کا کوئی فائدہ پہنچنے کی توقع نہیں جو کچھ نظر آرہا ہے، وہ ترقی موہوم کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔