بجلی کہاں سے آئے گی؟

عبدالقادر حسن  جمعرات 18 مئ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

موسم کی سختی بڑھنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی کمی میں بھی روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے اور عوام کو اس جھلسا دینے والے گرم موسم میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے جو کہ عوام کا خون نچوڑنے کے ساتھ ساتھ ان کے جسم کو بھی نچوڑ رہی ہیں حکومت جو کہ عوام کے لیے اس بنیادی سہولت کی فراہمی میں ناکام ہو چکی ہے اور اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے عوام کو مختلف تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں۔

بجلی بنانے کے نئے نئے منصوبوں کے بارے میں خوش کن اعلانات کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے جن میں اس بات کی مسلسل نوید دی جا رہی ہے کہ بجلی وافر مقدار میں آرہی ہے اور کبھی نہ جانے کے لیے آرہی ہے بلکہ اتنی زیادہ بجلی پیدا ہو گی کہ ہم ہمسایہ ممالک کو بھی برآمد کر سکیں گے اور ہماری یہ سہولت ہمسایہ ملک کے عوام بھی استعمال کریں گے۔

پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تو ملک میں پہلے ہی کام کر رہے ہیں لیکن ان کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ان کی استعداد کار میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے اور نئے آبی منصوبے جو پرویز مشرف کے دور میں شروع کیے گئے تھے اور ان کے بارے میں اس وقت بھی بڑا شہرہ تھا کہ بجلی کی ضرورت بھی پوری  ہو گی اور سستی بھی ہو گی لیکن اب تو مشرف اقتدار کو ڈوبے بھی ایک دہائی ہونے کو آئی ہے لیکن سستی بجلی کے ان منصوبوں کی کوئی خیر خبر نہیں اور ہم ہر سال کی طرح اس بار بھی گرم موسم کے ہاتھوں جھلس رہے ہیں اور ہاتھوں سے پنکھے جھلنے میں مصروف ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ میرے بجپن بلکہ جوانی کے بعد تک بھی میرے گاؤں میں بجلی کا کوئی تصور نہیں تھا ہم سب گھر کے لوگ ایک بڑے کمرے میں سوتے تھے جس کی چھت کے بڑے بڑے شہتیروں کے ساتھ ایک بڑا کپڑے کا پنکھا لٹکا ہوتا تھا جس کو جھلنے کی ذمے داری ہمارے گھر میں کام کرنے والوں کی ہوتی تھی اور وہ پنکھا پورے کمرے میں ہوا دیتا تھا اور ہم سب گرمیوں کی دوپہروں میں اس کے کپڑوں کے پروں کی سرسراتی ہوا میں سکون کی نیند سوتے تھے، بعد میں جب بجلی کی آمد ہوئی تو میری جوان نسل نے اس پنکھے کو اتار کر کہیں پھینک دیا کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔

ان کو شاید معلوم نہیں تھا کہ آنے والا وقت کیسا ہو گا اور وہ بجلی کے پنکھے چلانے کے لیے ہر گھنٹے کے بعد بجلی کا انتظار کریں گے بلکہ اب تو گاؤں میں بجلی کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ کئی گھنٹوں تک بجلی نہیں آتی اور جب آتی ہے تو اس کی وولٹیج اتنی کم ہوتی ہے کہ پنکھوں کو ہلتا ہوا تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن ان کی ہوا سے محروم ہی رہتے ہیں اور آب پاشی کے لیے بجلی سے چلنے والی موٹریں یا تو جل جاتی ہیں یا اگر قسمت مہربان ہو تو چلتی ہی نہیں ہیں اور یوں ہمارے کسان کسی بڑے نقصان سے بچ جاتے ہیں، ایک مسلسل تکلیف کا عمل ہے جس سے ہم روز گزر رہے ہیں اور نہ جانے کب تک اس سے دوچار رہیں گے۔

موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں بجلی پیدا کرنے کے لیے نئے کارخانے لگائے جا رہے ہیں جن سے ملک میں توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن اب تک کی جو صورتحال سامنے آئی ہے اس بحران میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے بجلی کی پیداوار کے لیے شروع کیے جانے والے نندی پور کے منصوبے کو انھوں نے اپنے ہی دورِ حکومت میں ختم کر دیا تھا چونکہ وہ یہ جان گئے تھے کہ اس کی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہو گی اور یہ سود مند نہیں ہو گا لیکن موجودہ حکومت نے اس منصوبے کو دوبارہ جھاڑ پونجھ کر شروع کرنے کا اعلان کیا اور اس کی لاگت میں بے پناہ اضافہ بھی کیا گیا جو کہ ریکارڈ کا حصہ بھی ہے اور اس ضمن میں اس منصوبے کے لیے بنائے گئے کرتا دھرتا پر مختلف الزامات لگا کر اس کو برطرف بھی کیا چکا ہے کیونکہ اس کو اس منصوبے کی غیر افادیت کی سمجھ آگئی تھی لیکن ہماری حکومت نے ضد میں آکر نندی پور منصوبے کو غیر حقیقی لاگت کے باوجود پایہ تکمیل تک پہنچایا اور پیداوار شروع کر دی جو کہ چند گھنٹوں تک ہی جاری رہ سکی اور اب یہ حال ہے کہ یہ منصوبہ عملاً بند پڑا ہے کیونکہ اس کو چلائیں تو بجلی پیدا کرنے کی لاگت اتنی زیادہ ہے کہ وہ برداشت نہیں کی جا سکتی لیکن ہمارے ضدی حکمرانوں نے ایک کے بعد ایک بجلی کا منصوبہ شروع کیا۔

اسی ضمن میں دوسری مثال قائد اعظم سولر پاور پراجیکٹ کی ہے جس کی کل لاگت کوئی سترہ ارب روپے کی تھی اور اس پراجیکٹ کو ڈھول ڈھمکے کے ساتھ شروع کیا گیا تھا اور ہزاروں ایکڑ اراضی بھی اس کے لیے استعمال کی گئی لیکن ڈھاک کے وہی تین پات کہ یہ منصوبہ بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے سکااور اب اس کو فروخت کرنے کی تیاریاں جاری ہیں لیکن اس کے لیے کوئی موضوع گاہک نہیں مل رہا کیونکہ اب اس کی قابل فروخت قیمت زیادہ سے زیادہ سات ارب لگائی جا رہی ہے اس منصوبے نے بھی قوم کو ایک اور زخم دیا ہے۔

کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے تین کارخانے بھی لگائے جا رہے ہیں جن کے لیے ہمارا دوست ملک چین غیر معمولی تعاون کر رہا ہے اور ان میں سے ایک نے تجرباتی بنیادوں پر بجلی پیدا کرنی بھی شروع کر دی ہے لیکن یہ کوئلے کے منصوبے دنیا بھر میں ترک کیے جارہے ہیں کیونکہ جن ملکوں میں یہ منصوبے لگائے  گئے تھے وہاں پر اس کے گردو نواح میں رہنے والے لوگوں میں اموات کی سالانہ شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا تھا اور سالانہ آٹھ سے دس ہزار اموات ریکارڈ کی جارہی تھیں۔

ہم نے اب یہی منصوبے جن کو دنیا ترک کر رہی ہے اپنے زرخیز علاقوں میں لگانے شروع کر دیے ہیں جس سے نہ صرف ان علاقوں میںانسانی صحت کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے بلکہ جب یہ دھوئیں کے بادل ہوا میں پھیلیں گے تو موسمیاتی تبدیلیاں اجناس اور جانوروں کے لیے بھی خطرناک ہوں گی۔

ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ وقتی ضرورت کو مدنظر رکھا ہے اور لمبی مدت کے لیے منصوبہ بندی نہیں کی اور ہمیشہ شارٹ کٹ کو ترجیح دی جس کے نتائج کبھی اچھے نہیں رہے ۔کیا ہم کوئی ایسا منصوبہ نہیں بنا سکتے جو کہ اس ملک کے عوام کو طویل مدت تک خدمات فراہم کرے اور اس کو بنانے والوںکے نام بھی تاریخ میں زندہ رکھے لیکن شاید ہم ضرورتوں کو وقتی طور پر حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور بجلی پیدا کرنے کے لیے آبی ذخائر کے بجائے تیل سے مہنگی بجلی پیدا کرکے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہے ہیں گو کہ پانی سے بجلی بنانے کے منصوبوں میں وقت تو زیادہ لگے گا لیکن یہ منصوبے اس قوم پر احسان ہوں گے اور یہ یاد رکھیے کہ یہ قوم احسان فراموش نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔