وادی حراموش، ناقابلِ فراموش

مستنصر حسین  جمعـء 19 مئ 2017
بلند پہارڑوں سے گرتے آبشاروں کی سریلی آوازیں گویا بانسری کی دھنیں ہیں جسے سنتے ہی انسان کی ذہنی تھکان دور ہوجاتی ہے۔ فوٹو: بلاگر

بلند پہارڑوں سے گرتے آبشاروں کی سریلی آوازیں گویا بانسری کی دھنیں ہیں جسے سنتے ہی انسان کی ذہنی تھکان دور ہوجاتی ہے۔ فوٹو: بلاگر

وادی ’’کٹوال حراموش‘‘ پاکستان کی خوبصورت ترین وادیوں میں سے ایک ہے، جو گلگت کے شمال میں تقریبا 80 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے. اِس کی کُل آبادی تقریباً 3000 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کے لوگ بہت ہی سادہ، خوش مزاج اور مہمان نواز ہیں۔

تصویر: بشکریہ، گوگل

زیادہ تر افراد زراعت اور مال مویشی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کی طرح یہاں کے لوگ بھی اجتماعی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور بہت سارے اجتماعی کام اپنی مدد آپ کے تحت کرتے ہیں، جن میں سے  ایک نمایاں کام بجلی گھر کی تعمیر ہے، جس کو گاؤں کے ٹرافی ہنٹنگ فنڈز سے بنایا گیا ہے۔

تصویر: بشکریہ، گوگل

اگراِس وادی کی فطرتی خوبصورتی کی بات کی جائے توسر سبز وادی کٹوال اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ خوبصورت ترین شاہکاروں میں سے ایک ہے۔ یہاں دنیا کے مشہور پہاڑ واقع ہیں۔

تصویر: بشکریہ، گوگل

جن میں بیلچھار دوبانی (6134m)، حراموش پیک ون(7400m)، حراموش پیک ٹو(6666)، لیلیٰ پیک(6986)  اور دیگر بھی کئی پہاڑ شامل ہیں۔ جب کہ یہاں مارخور بھی کی اقسام بھی پائی جاتی ہیں، جن کا شکار حکومت گلگت بلتستان سے اجازت نامہ لے کر کیا جاسکتا ہے۔

تصویر: بشکریہ، گوگل

پہاڑوں کے سینے میں واقع یہ حسین اور دلکش وادی اپنی مثال آپ ہے۔ حراموش میں وادی کٹوال دل کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس وادی کو دیکھ کر پاکستان کے نامور ناول نگار اور مصنف جناب مستنصر حسین تارڈ صاحب نے کہا تھا،

’’حراموش ناقابل فراموش‘‘

وہ اسی عنوان سے ایک کتاب بھی لکھ رہے ہیں اور انہوں نے اِس وادی کو پاکستان کی خوبصورت ترین وادی قرار دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ وادی میں مہمانوں کو خوش آمد کہنے کے نرالے انداز ہیں۔ جیسے ہی کوئی وادی کا رخ کرتا ہے پھلوں کے خوشبوں سے یہ وادی اُس کا استقبال کرتی ہے۔ لہلہاتے درخت جھومںا شروع کرتے ہیں، بلند و بالا پہاڑ آپ کو تکتے ہی خوش آمدید کہتے ہیں اور کہیں گماں ہوتا ہے  پہاڑ بھی انگڑائی لیتے ہیں جس سے اُن کی اوڑھائی گئی سفید برفیلی چادر سرکتی ہے تو قوس قزح بھی نظرآتی ہے۔

تصویر: بشکریہ، گوگل

برف یوں بکھرتی ہے جیسے چیری کے پھول چیری کے درخت سے گرتے ہیں۔ بلند پہارڑوں سے گرتے آبشاروں کی سریلی آوازیں گویا بانسری کی دھنیں ہیں جسے سنتے ہی انسان کی ذہنی تھکان دور ہوجاتی ہے اور راستے میں جابجا بہتے چشمے ہر آنے والے کے لئے آبِ شفا کی سبیلیں لگائے بیٹھے ہیں جس کے چند قطرے گلے سے اترتے ہی انسان ہر دکھ درد بھول جاتا ہے۔

تصویر: بشکریہ، بلاگر

وادی کی دل لبھانے والی چمکتی شفاف جھیلیں، ہرے میدان اور ان میں اُگے ہوئے مختلف قسم کے پھول جو آنے والے کے قدموں میں گرتے جاتے ہیں۔ رنگ برنگے مور، چکور اور چڑیوں کی چہچہانے کی آوازیں، بھیڑوں کے ریوڑ، بکریوں کے پھرتیلے بچے جو آپ کو دیکھتے ہی آپ کی جانب لپک آتے ہیں۔

تصویر: بشکریہ، بلاگر

ان سب کو دیکھ کر آپ کو گماں ہوتا ہے کہ زمین ایسی حسین ہے تو جنت کا عالم کیا ہوگا؟ لیکن بدقسمتی سے حکومت کی عدم تشہیر اور کم توجہ کی وجہ سے سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ اگر حکومت تھوڑی سی بھی توجہ دے تویہ وادی پاکستان کی نہ صرف پہچان بن سکتی ہے بلکہ مقامی افراد کو روزگار کے بہترین مواقع بھی میسر آسکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ   [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔
مستنصر حسین

مستنصر حسین

مستنصر حسین کٹوال سے تعلق رکھتے ہیں اور یوتھ ایکٹیوسٹ ہیں۔ معاشرتی نا انصافیوں کیخلاف آواز بلند کرنا ان کا عزم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔