گلبدین حکمت یار کی افغان سیاست میں واپسی

عبید اللہ عابد  اتوار 21 مئ 2017
حزب اسلامی اور افغان حکومت کے مابین معاہدہ میں کیا تھا؟ کس نے کیا کچھ حاصل کیا؟۔ فوٹو : فائل

حزب اسلامی اور افغان حکومت کے مابین معاہدہ میں کیا تھا؟ کس نے کیا کچھ حاصل کیا؟۔ فوٹو : فائل

یہ افغانستان کا دارالحکومت کابل ہے، صدارتی محل میں ریڈکارپٹ استقبال کی تیاریاں مکمل ہیں،افغان فوج کا حفاظتی دستہ پوری طرح مستعد کھڑا ہے، اسی اثنا میں ایک طرف سے درازقامت،سفید ریش کے حامل گلبدین حکمت یار نظر آئے، ان کے دائیں طرف افغان صدر اشرف غنی اور سابق صدر حامدکرزئی، بائیں طرف سابق مجاہد رہنما استاد عبدالرب رسول سیاف اور ملک کے چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ ہیں۔ حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یار کا جیسا استقبال ہوا، گزشتہ تین عشروں کے دوران کسی افغان رہنما کا نہیں ہوا۔

صدارتی محل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گلبدین حکمت یار نے کہا:’’میرے لیے سب سے اہم معاملہ جنگ کا خاتمہ اور ملک کو بحران سے نکالنا ہے‘‘۔ انھوں نے طالبان پر زور دیاکہ’’ وہ امن عمل کا حصہ بن جائیں کیونکہ  وقت آگیا ہے کہ افغانستان کی یکجہتی، امن اور سلامتی کے لیے مل کر کام کیا جائے‘‘۔

حکمت یار نے صدارتی محل میں اپنے اعزاز میں منعقد تقریب سے خطاب کا آغاز روایت سے ہٹ کے کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے خطاب کا آغاز اپنے میزبانوں،افغان صدر اور دیگر اہم شخصیات کا  نام لے کر نہیں کریں گے۔ انھوں نے اس کا سبب نہیں بتایا تاہم بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے افغان صدر کو مخاطب نہ کرکے پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ موجودہ نظام سے مطمئن نہیں۔ انھوں نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ افغان لویہ جرگہ میں افغانستان کے لیے اصل اسلامی آئین پیش کریں گے۔

افغان صدر اشرف غنی نے حکمت یار کے سیاسی عمل میں شریک ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ اس پیش رفت سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان میں امن عمل کے ذریعے شورش ختم ہونے کے قوی امکانات ہیں‘‘۔اس موقع پر حکمت یار نے کہا کہ انہیں ملک کا نیا آئین قبول ہے  لیکناس میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پارلیمانی نظام مناسب نہیں ہے۔

انہوں نے اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی قومی متحدہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ حکمت یار کے بقول: ’’یہ حکومت کام نہیں کر رہی ہے اور ان دونوں میں کسی ایک کو مستعفی ہو جانا چاہیے‘‘۔ملک کے موجودہ حکومتی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے حکمت یار کا کہنا تھا: ’’ملک کی موجودہ صورتحال میں یہ مناسب نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ وہ کوئی عہدہ حاصل نہیں کرنا چاہتے۔ اس موقع پر انہوں نے بیرون ممالک موجود افغان باشندوں سے اپیل کی کہ وہ وطن واپس آجائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی اپنی فیملی سمیت ہی افغانستان لوٹے ہیں۔

یادرہے کہ امریکا نے حکمت یار کے ساتھ افغان حکومت کے معاہدے کا خیر مقدم کیا تھا، واشنگٹن انتظامیہ کے مطابق حکمت یار طالبان کے ساتھ مکالمہ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

نوّے کی دہائی کے وسط میں جب افغانستان پر طالبان قابض ہورہے تھے، انھوں نے اپنی راہ میں آنے والے ہر فرد کے سامنے دو ہی آپشنز رکھے کہ وہ ملاعمر کی اطاعت کرے بصورت دیگر ذبح یا گولیوں سے چھلنی ہونے کے لئے تیار ہوجائے۔ ایسے میں حزب اسلامی کے کمانڈروں نے تصادم کی راہ اختیار کرنے کی بجائے طالبان میںشامل ہونا مناسب سمجھا۔ جب سن 2001ء میں غیرملکی افواج نے افغانستان پر قبضہ کیا تو گلبدین حکمت یار کے بعض ساتھی کرزئی حکومت کا حصہ بن گئے۔باقی ماندہ ساتھیوں کے ساتھ حکمت یار غیرملکی افواج سے معرکہ آرا ہوئے۔

انھیں بعض اضلاع میں اثر و رسوخ حاصل تھا۔ بعض حلقے کہتے ہیں کہ گلبدین حکمت یار نے طالبان کے ظہور کے بعدایک خاص حکمت عملی کے تحت اپنے ساتھیوں کو طالبان تحریک کا حصہ بنایا، اسی طرح حامدکرزئی کی ٹیم میں بھی اپنے ساتھیوں کو شریک کیا۔ حکمت یار کے انٹیلی جنس سربراہ وحدی اللہ صباون نے 2002 ء ہی سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ خالد فاروقی اور عبدالہادی ارغندوال جیسے رہنماؤں نے اسے کابل میں مستحکم کیا اور بعد میں کابینہ کا حصہ بھی بنے۔حزب اسلامی کے ذرائع کہتے ہیں کہ گلبدین حکمت یار مخالفین کے لئے میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ افغانستان میں رونما ہونے والے تازہ واقعات سے ثابت ہوا کہ حکمت یار نے  کامیاب حکمت عملی اختیار کی تھی۔

اب وہ اپنی اس مخصوص حکمت عملی کا ثمر سمیٹ رہے ہیں۔ طالبان کی صفوں میں شامل حزب اسلامی کے لوگ واپس اپنی اصل جماعت کا حصہ بن رہے ہیں۔ حزب اسلامی کے بدترین مخالفین کا بھی کہناہے کہ حکمت یار بڑی قوت کے ساتھ واپس آئے ہیں، انھوں نے غیرمعمولی طور پر بڑا شو آف پاور کیاہے۔ اب حزب اسلامی کے اندر پارٹی انتخابات ہوں گے اور پھر اگلے عام انتخابات کا معرکہ لڑنے کی تیاری کی جائے گی۔ اس تناظر میں دیکھاجائے تو اگلے عام انتخابات میں گلبدین حکمت یار کی جماعت ایک بڑی پارٹی کی صورت میں پارلیمنٹ میں موجود ہوگی۔

گلبدین حکمت یار جس معاہدے کے تحت کابل پہنچے ہیں، اسے گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران میں ہونے والی سب سے بڑی پیش رفت قراردیاجارہاہے۔ یہ معاہدہ حزب اسلامی کے حوالے سے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ حکمت یار کی جماعت اپنی بھرپور قوت کے ساتھ سیاسی میدان میں اتر ی ہے، گزشتہ برس ستمبر میں جب یہ معاہدہ ہواتھا، اس کے فوراً بعد صوبہ ہرات میں ہزاروں افراد نے ایک شمولیتی اجتماع کی صورت حزب اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیاتھا۔اگرچہ اس کے بعد ایسا بڑا اجتماع منعقد نہ کیاگیا تاہم لوگوں کو اپنے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی مہم پورے زوروشور سے جاری رہی۔

آج کا گرما گرم سوال یہ ہے کہ گلبدین حکمت یار کی کابل واپسی کس قدر اہم ہے؟

حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ کابل میں واقع صدارتی محل میں بڑی عزت و احترام کے ساتھ داخل ہوئے تو ایک صحافی نے تبصرہ کیا کہ تقریبًا 70 سالہ حکمت یار کافی تازہ دم دکھائی دے رہے تھے، وہ کسی اچھی جگہ روپوشی کے نو سال گزار کر آئے ہیں۔ وہ اتنا طویل عرصہ کہاں تھے کسی کو نہیں معلوم لیکن ان کی واپسی کا سلسلہ اسلام آباد سے شروع ہوا۔ اس کا اعلان پاکستان میں افغان سفیر ڈاکٹر عمر ذاخلوال نے ایک ٹویٹ میں کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کا آغاز ایک برس قبل اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ایک مختصر گفتگو سے ہوا تھا۔ یعنی افغان مصالحتی عمل کی ایک بڑی کامیابی کا آغاز یقیناً پاکستان سے ہوا۔ گلبدین حکمت یار کے رشتہ دار اور جماعتی اراکین اسلام آباد میں کافی عرصہ سے مقیم ہیں،  یقیناً ان ہی کے ذریعے بات چیت شروع ہوئی ہوگی لیکن حکمت یار خود کہاں رہے یہ واضح نہیں۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق سیاسی طور پر حکمت یار کی جماعت کافی منظم رہی اور اپنی حمایت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کی بڑی مثال کابل( غازی سٹیڈیم) میںگزشتہ دنوںمنعقد ہونے والا بڑا استبقالی اجتماع تھا جس سے گلبدین حکمت یار نے خطاب کیا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے طالبان کو اپنا بھائی قراردیا۔ ہزاروں افراد کی جلسے میں شرکت نے کئی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا۔ ان کے مخالف تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اس کی وجہ شاید طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد کسی مضبوط افغان پارٹی کا سامنے نہ آنا ہے۔

کئی امریکی اب یہ غلطی تسلیم کرتے ہیں کہ 2001 میں طالبان کے جانے کے بعد اْنہوں نے شخصیتوں یا جنگی سرداروں کے بجائے سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کی ہوتی تو آج افغانستان میں جمہوریت کی حالت قدرے بہتر ہوتی۔ بہرحال حزب اسلامی کافی ہوشیار ثابت ہوئی۔ جنگی میدان میں موجودگی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اس نے سیاسی میدان میں اپنی فعالیت بھی برقرار رکھی۔ حکمت یار کی جماعت ایک ایسی افغان جماعت ہے جو نسلی بنیادوں پر قائم نہیں ہوئی بلکہ اس میں تاجک بھی ہیں اور ازبک بھی موجود ہیں حتیٰ کہ اس میں بامیان کے شیعہ لوگ بھی شامل ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے بقول ان کی جماعت کا تعلق ’گراس روٹ‘ سے ہے۔

کابل میں حکمت یار کی آمد پاکستان کے لیے کیسی رہے گی؟

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان کا دوبارہ افق پر آنا پاکستان کے لیے مثبت ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان سے ان کا اب کوئی تعلق ہے یا نہیں اس سے قطع نظر حکمت یار کا انڈیا سے متعلق خصوصاً کشمیر پر ماضی میں موقف کافی سخت ثابت ہوا ہے۔ وہ پاکستان سے جتنے بھی نالاں ہوں کم از کم انڈیا کا ساتھ نہیں دیں گے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ نئے سیاسی منظرنامے میں بھارت بھی گلبدین حکمت یار سے رابطے اور تعلق بنانے کی کوشش ضرور کرے گا۔ تاہم فی الحال پاکستان کی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے۔

مخالفین گلبدین حکمت یار کے بارے میں پراپیگنڈا کررہے ہیں کہ وہ امریکہ اور امریکہ نوازوں سے جاملے ہیں۔ وہ سوال پوچھتے ہیں کہ اگر ان سے تعاون کرناتھا تو پھر کئی برسوں کی مسلح جدوجہد کو کیا نام دیاجائے گا۔حزب اسلامی کے ذرائع کہتے ہیں کہ ان کے سپریم لیڈر کے خلاف یہ پراپیگنڈا جھوٹ کی بنیاد پر گھڑا جارہا ہے۔ جھوٹ کا پول اس معاہدے کے مطالعہ ہی سے کھل جاتاہے جو افغان حکومت اور گلبدین حکمت یار کے درمیان طے پایاتھا۔ معاہدے کے مطابق فریقین(افغان حکومت اور حزب اسلامی) مندرجہ ذیل امور پر متفق ہوئے تھے کہ

٭فریقین اللہ تعالی اور مقدس دین اسلام کی پیروی کریں گے۔

٭ اسلام ہی  فریقین کا نصب العین ہوگا۔

٭ افغانستان کے آئین میں اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دیا جائے گا۔

٭ قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کی جائے گی۔

٭ قانون سب کیلئے برابر ہوگا۔

٭ حزب اسلامی کے کارکنان ہتھیار اپنے پاس رکھیں گے۔

٭القاعدہ اور داعش سے حزب اسلامی کوئی تعلق نہیں رکھے گی۔

٭ تمام قوموں کے حقوق تسلیم کئے جائیں گے۔

٭حزب اسلامی کے سربراہ اور رہنماؤں پر ماضی کے حوالے سے کوئی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔

٭ حزب اسلامی کے تمام گرفتار کارکنان کو رہا کردیا جائے گا۔

٭ حزب اسلامی کے جو رہنما اور کارکن جیلوں میں ہیں انھیں رہا کرکے سرکاری نوکریاں دی جائیںگی۔

٭ حزب اسلامی کے ان تمام لوگوں کو جنھیں روسی جارحیت کے دور میں نوکریوں سے نکالا گیا تھا اگر ان کے پاس نوکری کے ثبوت ہیں تو ریٹائرمنٹ دی جائے گی اور پنشن دی جائے گی ، جن کی عمریں نوکری کرنے کی ہوںگی انھیں سرکاری نوکری پر بحال کیا جائے گا۔

٭ افغان حکومت پاکستان اور ایران میں موجود افغان مہاجرین کو واپسی کیلئے تمام سہولیات فراہم کرے گی نیز افغانستان میں ان کی جائیدادوں پر قابض افراد کو بے دخل کرکے انہیں دوبارہ زندگی شروع کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔

٭ حزب اسلامی کے تمام رہنماؤں کو افغانستان لانے کی تمام ذمہ داری افغان حکومت کی ہوگی۔

٭ حزب اسلامی کو مکمل سیاسی آزادی ہوگی۔

٭ افغانستان میں مکمل امن کیلئے دونوں فریق اپنی بھرپور کوشش کریں گے اور افغانستان کی تقسیم کو ناکام بنایا جائے گا۔

٭ افغان حکومت اقوام متحدہ کی جانب سے حزب اسلامی پر پابندیاں ختم کرائے گی۔

اس معاہدے سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ حزب اسلامی افغانستان کے منظرنامہ سے کیا کچھ حاصل کرنے جارہی ہے۔ گلبدین حکمت یار نے واضح طورپر اعلان کردیاہے کہ وہ حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے، وہ افغان حکمران طبقہ سے دور کھڑے ہیں،وہ اپنا الگ ایجنڈا لے کر سیاسی میدان میں اترے ہیں۔ جس طرح غیرمعمولی قوت کے ساتھ وہ سامنے آئے ہیں، اس سے ظاہر ہوتاہے کہ آنے والے دنوں میں جہاں انھیں افغان عوام کی طرف سے مزید پذیرائی ملے گی وہاں ان کے خلاف امریکی اور افغان حکومت کی طرف سے بڑے چیلنجز بھی کھڑے کئے جائیں گے۔ مغرب قوتیں اور ان کے حامی ایک اسلام پسند رہنما کو آسانی سے اقتدار کی طرف نہیں بڑھنے دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔