ہم جیتتے کیوں نہیں ؟

وسعت اللہ خان  ہفتہ 20 مئ 2017

ایک طریقہ تو یہ ہے کہ چونکہ آپ بحیثیت ایک قانون پسند ریاست سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا وجود اس دنیا کے لیے غنیمت ہے اور سر ظفراللہ سے جسٹس علی نواز چوہان تک خود آپ کے کئی معزز ججز بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے پینل پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اور خود آپ صرف دو ماہ قبل ( انتیس مارچ ) کو تسلیم کر چکے ہیں کہ آپ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کو لازماً تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔اور آپ نے خود کلبھوشن یادو کی سزائے موت کے خلاف بھارتی عدالتی چیلنج کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور وکلا کی ٹیم دی ہیگ بھیجی لہذا اصولی و اخلاقی تقاضا تو یہی ہے کہ اب آپ آخر تک یہ مقدمہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ لڑیں اورکلبھوشن کی سزائے موت پر عبوری روک کے عدالتی حکم کو اپنے اقتدارِ اعلیٰ کے لیے چیلنج نہ سمجھیں اور اس طرح کے فقرے اچھالنے سے پرہیز کریں جیسی جگت بازی کی عادت آپ کو پانامہ کیس کے دوران پڑ چکی ہے۔

مجھ جیسوں کو انتہائی خوشی ہوتی اگر وہ تمام سیاستداں، ٹیلی مبصرین اور لیگل ایگلز کلبھوشن کی سزائے موت پر عارضی حکمِ امتناعی آنے سے پہلے پہلے میز پر مکے مار مار کے نہ کہتے کہ کلبھوشن کیس تو عالمی عدالت کے دائرے سے ہی باہر ہے اور قونصلر تک رسائی کا وی آنا کنونشن جاسوسوں اور دہشتگردوں پر لاگو ہی نہیں ہوتا۔لہذا یہ کیس ابتدائی سماعت میں ہی اڑ جائے گا۔

اب ماہرینِ قانون سے لے کر ہر شیدا مجیدا کہہ رہا ہے کہ پاکستان عالمی عدالتِ انصاف کا بائیکاٹ نہ کر کے غلطی کر رہا ہے، ہماری لیگل ٹیم نے تیاری نہیں کی، ہمارے مرکزی وکیل نے دلائل کے لیے مختص نوے منٹ کا پورا وقت استعمال نہیں کیا۔بھارت نے تو پینل میں ایڈہاک جج مقرر کردیا مگر ہم نے کیوں نہیں کیا وغیرہ وغیرہ۔مجھے اگر عبوری حکمِ امتناعی آنے سے پہلے یہ ماہرانہ آوازیں اور انکشافات سننے کو ملتے تو مانا جا سکتا تھا کہ ہم نے تو پہلے ہی خامیوں کی نشاندہی کرکے خبردار کردیا تھا۔لیکن اب عبوری فیصلے اور پاکستان کی جانب سے مقدمے کی ہینڈلنگ پر جس طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں وہ لڑائی کے بعد یاد آنے والے مکے وہ ہیں جو اپنے ہی منہ پر مارے جا سکتے ہیں۔

ہم تو ایسے پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں جیسے ہمیں پہلی بار عدالتی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہو۔

دس اگست انیس سو اٹھانوے کو پاک بحریہ کا غیر مسلح طیارہ اٹلانٹک سندھ اور گجرات کی انتہائی جنوبی سرحد پر بھارتی فضائیہ نے مار گرایا اور عملے کے تمام سولہ افراد شہید ہوگئے۔پاکستان اکیس ستمبر انیس سو ننانوے کو ( نواز شریف حکومت کی برطرفی سے اکیس روز پہلے) یہ کیس عالمی عدالتِ انصاف میں لے کر گیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ طیارہ سرحد کے اندر پرواز کر رہا تھا۔ایک غیر مسلح طیارے کو نشانہ بنانا جنگی اقدام اور ہوابازی کے بین الاقوامی قوانین کی کھلی پامالی ہے۔ بھارت سے ساٹھ ملین ڈالر ہرجانہ کا دلایا جائے۔بھارت نے موقف اختیار کیا کہ طیارہ اس کی فضائی حدود کے اندر تھا اور یہ دلیل دی کہ انیس سو چوہتر کے ایک فیصلے کے مطابق دولتِ مشترکہ کے رکن ممالک کے دوطرفہ معاملات کی سماعت عالمی عدالت کے دائرہِ اختیار سے باہر ہے۔اکیس جون سن دو ہزار کو ابتدائی سماعت کے دوران ہی سولہ میں سے چودہ ججوں نے یہ دلیل مان لی اور دو نے کہا کہ یہ معاملہ عدالت کے دائرہِ اختیار میں آتا ہے۔

اس سماعت کے دوران حکومتِ پاکستان کی جانب سے شریف الدین پیرزادہ کو ایڈہاک جج نامزد کیا گیا اور عزیز منشی نے پاکستان کی جانب سے وکالت کی۔عدالت کی جانب سے پاکستانی درخواست مسترد ہونے کے بعد ایم ڈی طاہر ایڈوکیٹ نے لاہور ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کی کہ حکومتِ پاکستان اپنا مقدمہ پرزور انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہی اور اس مقدمے اور وکلا کی فیسوں پر قومی خزانے کے ڈھائی کروڑ روپے خرچ ہوئے لہذا عدالت جواب طلبی کرے۔جسٹس عبدالقیوم نے نے درخواست ڈسمس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے بھرپور قانونی وکالت ہوئی، رقم ٹھیک مد میں خرچ ہوئی اور اس کیس کے نتیجے میں عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے میں مدد ملی (گویا ہارے بھی تو بازی مات نہیں)۔

ہار جیت کا معاملہ محض عالمی عدالتِ انصاف تک محدود نہیں۔سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان نے جب جب عالمی بینک کی ثالثی چاہی اس کی جانب سے وکالت بااثر نہ ہو پائی۔مثلاً جب بھارت نے دریائے چناب پر ساڑھے چار سو میگاواٹ کا بھاگلیار ہائیڈرو منصوبہ شروع کیا تو بھارت نے ساڑھے سینتیس ملین مکعب میٹر پانی کی گنجائش والے ذخیرے کی تعمیر شروع کردی۔پاکستان کا موقف تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت چھ اعشاریہ بائیس ملین مکعب میٹر سے زائد گنجائش کا ذخیرہ نہیں بنا سکتا۔بھارت نے سنی ان سنی کردی۔ پاکستان نے عالمی بینک سے غیر جانبدار ثالث نامزد کرنے کی درخواست کی۔بارہ فروری دو ہزار سات کو ثالث نے رولنگ دی کہ بھارت پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ساڑھے سینتیس ملین مکعب میٹر سے کم کرکے ساڑھے بتیس ملین مکعب میٹر تک لانے کے لیے ڈیزائن میں تبدیلی کرے۔بھارت نے جھٹ یہ تجویز مان لی۔پاکستان اگرچہ تکنیکی لحاظ سے مقدمہ جیت گیا مگر اس کا مطالبہ تو چھ اعشاریہ بائیس مکعب میٹر کے ذخیرے کا تھا۔تو عملاً کون کامیاب رہا؟ بالاخر دو ہزار دس میں دونوں ممالک نے بھاگلیار کو متنازعہ آبی منصوبوں کی فہرست سے خارج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

اس دوران دو ہزار چار میں بھارت نے کشمیر میں پینتالیس میگاواٹ کے نیموبازگو ہائیڈل منصوبے پر کام شروع کردیا۔جب تقریباً نصف تعمیراتی کام ہو گیا تب یوسف رضا گیلانی حکومت کو کچھ خیال آیا کہ اس منصوبے کو بھی عالمی ثالثی کے حوالے کیا جائے پھر اچانک بھاگلیار منصوبے کی ثالثی کا حشر نظروں کے سامنے گھوم گیا۔لیکن قربانی کا بکرا بھی تو چاہیے۔چنانچہ انیس سو ترانوے سے دو ہزار گیارہ تک رہنے والے پاکستان کے واٹر کمشنر جماعت علی شاہ کو نشانہ بنایا گیا۔

دو ہزار دس میں سب سے پہلے ایک مذہبی تنظیم نے الزام لگایا کہ جماعت علی شاہ تنخواہ تو پاکستان سے لیتے ہیں مگر وفادار بھارت کے ہیں۔پھر ایک اخبار میں خبریں شایع ہونی شروع ہوئیں کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی نے دو ہزار چار پانچ میں ہی نیمو باز گو منصوبے کے بارے میں اطلاع دے دی تھی مگر جماعت علی شاہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔پھر معلوم ہوا کہ جماعت علی شاہ دو ہزار گیارہ میں سبکدوش ہوگئے، پھر ان کے خلاف مبینہ تحقیقات کی خبریں آنے لگیں، پھر کسی نے کہا وہ کینیڈا فرار ہوگئے۔دو ہزار بارہ میں انھوں نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ بھاگلیار ڈیم پر پاکستان کا کیس پرویز مشرف نے کمزور کیا کیونکہ وہ بھارت سے تعلقات بحال رکھنا چاہتے تھے۔اور اگر میرے بارے میں آیندہ کسی نے الزام تراشی کی تو میں عدالت میں لے جاؤں گا۔تب سے کچھ امن ہے۔آج دو ہزار سترہ ہے۔اگر جماعت علی شاہ کی ملی بھگت سے ہی پاکستان کو آبی نقصان پہنچا تو وہ بھی پاکستان میں رہتے ہیں اور ان کے اوپر الزام لگانے والے بھی۔پکڑ لو اگر کہانی سچی ہے تو۔۔۔۔

دو ہزار تیرہ سے پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دریائے جہلم پر ساڑھے تین سو میگاواٹ کے کشن گنگا ہائڈل پروجیکٹ اور دریائے چناب پرساڑھے آٹھ سو میگاواٹ کے رتلے پروجیکٹ کو عالمی بینک کے ثالثی نظام کے ذریعے رکوانے کے لیے کوشاں ہے۔گزشتہ برس جب مودی نے سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکی دی تو عالمی بینک نے پاکستان کے کہنے پر ایک غیر جانبدار ثالث کی تقرری پر رضامندی بھی ظاہر کردی تھی مگر دسمبر میں اچانک امریکی دباؤ کے سبب عالمی بینک نے پلٹا کھایا اور زور دیا کہ پہلے دونوں ممالک آپس میں بیٹھ کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں اور ناکامی کی صورت میں ہم سے رجوع کریں۔مارچ میں سندھ طاس کمیشن کا دو برس بعد باقاعدہ اجلاس ہوا جو حسبِ توقع بے نتیجہ رہا۔اپریل میں واشنگٹن کی سرپرستی میں سیکریٹریوں کی سطح پر بات چیت کا ڈول ڈالا گیا مگر معاملہ آگے نہیں بڑھ پایا۔بات صرف آبی تنازعات کے حل میں وکالت کی ناکامی کی حد تک نہیں ہے۔

بائیس مارچ دو ہزار سترہ کو پاکستان کانکنی کے حقوق کے بارے میں سرمایہ کاری تنازعوں سے متعلق بین الاقوامی ادارے میں بھی ایک کیس ہار گیا۔ہرجانے کا یہ مقدمہ ریکودک میں کام کرنے والی بین الاقوامی کمپنی ٹیتھیان کی جانب سے دائر کیا گیا تھا کیونکہ حکومتِ بلوچستان نے اس کمپنی کے کانکنی حقوق منسوخ کر دیے اور پھر سپریم کورٹ نے بھی انیس سو ترانوے سے انیس سوگیارہ تک ریکوڈک میں کانکنی سے متعلق تمام معاہدات کو دو ہزار تیرہ میں کالعدم قرار دے دیا۔مگر بین الاقوامی ادارے نے پاکستانی اعلی عدالت کے فیصلے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ٹیتھیان کمپنی کی جانب سے ہرجانے کا دعوی تسلیم کرلیا۔اور اب اس ہرجانے کا تعین کیا جائے گا جو ایک بین الاقوامی معاہدہ توڑنے کی پاداش میں حکومتِ پاکستان کو بھرنا ہے۔

پاکستان نے سوئس بینکوں سے آصف زرداری کے مبینہ ساٹھ ملین ڈالر واپس لانے کے لیے جانے کتنے ملین ڈالر اور ایک عدد وزیرِ اعظم بھی قربان کردیا مگر مقدمہ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر بالاخر سوئس حکومت نے حکومتِ پاکستان کے بھر بھر پور تعاون سے داخلِ دفتر کردیا۔

حالانکہ پاکستان میں اس وقت بیس کروڑ لیگل دماغ ہیں۔پھر بھی عالمی عدالتِ انصاف کے سابق جج علی نواز شاہ کی یہ سننے میں کوئی حرج نہیں کہ اگلی سماعتوں میں پاکستان کو کلبھوشن یادو کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش کرنے ہوں گے اور یہ یقین دہانی کرانا ہوگی کہ چونکہ کیس ابھی اپیل کے مراحل میں ہے لہذا اعلی عدالتوں کے زینے سے صدرِ مملکت کی میز تک کیس پہنچتے پہنچتے یہ طے نہیں کیا جا سکتا کہ پھانسی ہوگی یا نہیں۔تب جا کے پاکستان کے کیس میں جان پیدا ہوگی (اس دوران اگر اسٹیبلشمنٹ بشمول خواجہ آصف و نثار علی خان ہونٹوں پر اسکاچ ٹیپ لگا کے رکھیں تو انشااللہ ریاست کو قانونی افاقہ ہوگا)۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔