کلبھوشن کی عالمی سطح پر ’’رونمائی‘‘

اکرام سہگل  ہفتہ 20 مئ 2017

یہ ہفتہ پاکستان کے لیے اچھا رہا۔ سب سے پہلے تو مودی نے چین میں ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ اجلاس کے بائیکاٹ کی فاش غلطی کی۔ اس کے بعد بھارت نے کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے جاکر ہمیں اس معاملے کو زیر بحث لانے کے لیے ایک عالمی فورم فراہم کردیا۔

گزشتہ برس 23مارچ کوایران سے بلوچستان میں داخل ہوتے ہوئے لیفٹننٹ کمانڈر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا۔ بھارتی نیوی کا یہ افسر ’’را‘‘ کا ایجنٹ تھا اور ’’حسین مبارک پٹیل‘‘ کی جعلی شناخت سے اس علاقے میں ’’خفیہ معلومات‘‘ جمع کرنے کے مشن پر تھا۔ بھارتی دفتر خارجہ نے  کلبھوشن کے بھارتی شہری ہونے کا اعتراف کیا اور یہ دعوی بھی کیا کہ وہ بھارتی نیوی سے ’’قبل از وقت ریٹائرمنٹ‘‘ لے چکا ہے، لیکن اس نے جعلی شناخت کیوں اختیار کی؟ اس کی  وضاحت نہیں کی جاسکی۔ بھارتی انٹیلی جینس نے کلبھوشن کے بیوی بچوں کو غائب کردیا، لیکن اس سے پہلے اس کی بیوی ایک بیان میں تصدیق کرچکی تھی کہ کلبھوشن کی ریٹائرمنٹ 2022ء میں ہونا تھی۔ اپنے خاندان کے ساتھ کلبھوشن کی مراٹھی میں گفتگو کا کال ریکارڈ بھی اس کی ظاہر کی گئی شناخت سے میل نہیں کھاتا۔

جاسوسی اور تخریب کاری میں ملوث افراد کے خلاف عام طور پر مینول آف ملٹری لاء میں بیان کردہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل(ایف جی سی ایم) کی کارروائی کی جاتی ہے۔ کلبھوش کو ساٹھ روز کے اندر پاکستانی سپریم کورٹ میں اپیل کا حق حاصل ہے۔ بھارت سمیت دنیا کے سبھی ممالک میں قوانین کی نوعیت یہی ہے۔

بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد کلبھوشن کو انٹیلی جینس میں بھرتی کیا گیا اور بھارت کے اندر خفیہ معلومات اور اطلاعات جمع کرنے کی ذمے داری سونپی گئی۔ پھر وہ ’’را‘‘ میں شامل ہوگیا اور اسے ایران کے علاقے چاہ بہار میں چھوٹا موٹا کاروبار کروایا گیا۔ پاکستان کو نشانہ بنانے کے لیے اس علاقے میں دہشتگردی کا  نیٹ ورک تشکیل دینا اس کا اصل ٹاسک تھا۔ کلبھوشن ’’را‘‘ کے جوائنٹ سیکریٹری انیل کمار گپتا کو رپورٹ کرتا تھا۔ اس نے بلوچستان اور کراچی میں کارروائیاں کیں، بلوچ جنگجوؤں کو پاکستانی شہریوں پر حملوں میں مدد فراہم کی۔ 3مارچ 2016ء کو کلبھوشن کو پاک ایران سرحد پر سراوان کے نزدیک سے گرفتار کیا گیا، جب وہ اپنے ایسے ہی کسی مشن پر تھا۔ کلبھوشن بھارتی کی جانب سے دہشتگردی کے لیے ’’ریاستی عناصر‘‘ کے استعمال کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ تامل ٹائیگرز اور سری لنکا کے پربھاکرن  کسے یاد نہیں۔

عالمی عدالت انصاف میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی کا الزام عاید کرتے ہوئے اپیل کی ہے کہ ’’فوجی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔‘‘ کلبھوشن کے معاملے کو  عالمی سطح پر توجہ کا مرکز نہیں بنایا جاسکا، عالمی عدالت کے فورم نے اس کا بہترین موقعہ فراہم کیا ہے کہ دنیا کو بتایا جائے، کس طرح بھارت اپنے پڑوسیوں کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے دہشتگردی کا ہتھیار استعمال کررہا ہے۔ کلبھوشن کی سزائے موت کو انسانی حقوق کی بنیادوں پر بھی چیلنج کیا گیا ہے، اس لیے یہی موقعہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی استبداد پر کھل کر بات کی جائے اور اپنا مقدمہ پورے استدلال کے ساتھ عالمی ضمیر کے سامنے پیش کیا جائے۔

دی ہیگ میں 15مئی کو ہونے والی عالمی عدالتِ انصاف کی عوامی سماعت میں پہلے بھارت اور پھر پاکستان کا مؤقف سنا گیا۔ بھارت کی نمایندگی سابق سولسٹر جنرل ہریش سالوے نے کی جب کہ پاکستان کی جانب سے کوئنز کونسل خاور قریشی پیش ہوئے۔ بھارتی وکیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ متعدد درخواستوں کے باوجود پاکستان نے بھارت کو کلبھوشن تک قونصلر رسائی فراہم نہیں کی۔ بھارت اسے ’’قونصلر ریلیشن سے متعلقہ ویانا کنوینشن‘‘ کے قواعد کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مقدمے کی کارروائی کلبھوشن کے علم میں لائے بغیر کی گئی اور اس سلسلے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ بھارتی وکیل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کلبھوش سے جبراً اقبال جرم کروایا گیا اور اس کی گرفتاری  بلوچستان میں نہیں ہوئی بلکہ ایران میں داخل ہوکر اسے اغوا کیا گیا۔ بھارت نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ ’’ کلبھوشن یادیو کو (عالمی عدالت انصاف میں جاری) سماعت مکمل ہونے سے قبل ہی پھانسی دے دی جائے گی‘‘۔ بھارتی وکیل نے درخواست کی کہ عدالت اس سزا پر عمل درآمد رکوانے کے احکامات جاری کرے۔

پاکستان کے وکیل خاور قریشی نے جوابی دلائل میں کہا کہ کلبھوشن سفارتی رسائی کا استحقاق ہی نہیں رکھتا، بھارت نے عجلت میں عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا ہے۔ انھوں نے بھارتی درخواست کو ’’تاخیری حربہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے خارج کرنے کی استدعا کی۔ خاور قریشی نے یہ سوال عدالت کے سامنے رکھا کہ بھارت کلبھوشن کو اپنا شہری تسلیم کرتا ہے تو اس کے پیدائشی سرٹیفکیٹ، پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات کیوں فراہم نہیں کیے گئے؟ بھارت نے کلبھوشن کی بے گناہی یا جاسوس نہ ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

پاکستان میں ہونے والی کارروائی کو ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی قرار دینے کے بھارتی مؤقف کا جواب دیتے ہوئے پاکستانی وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ دہشتگردی اور جاسوسی میں ملوث افراد پر مذکورہ قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔

قونصلر یا سفارتی رسائی کا معاملہ پاکستان اور بھارت کے مابین 2008ء میں ہونے والے دوطرفہ معاہدے کے مطابق حل کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے مطابق سیاسی یا سیکیورٹی بنیادوں پر ہونے والی گرفتاریوں میں قونصلر رسائی کو صوابدیدی اختیارات سے مشروط کیا گیا ہے اور کلبھوش پر یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔

پاکستانی وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ تین بنیادوں پر بھارت کی درخواست خارج کی جائے۔ اول تو اس معاملے میں کوئی ہنگامی صورت حال پیدا نہیں ہوئی، دوم  عدالت سے جن بنیادوں پر بھارت ریلیف مانگ رہا ہے ان کی کوئی قانونی بنیادیں سرے سے موجود ہی نہیں اور تیسری اہم بات یہ کہ زیر بحث معاملے عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ پاکستانی وکیل نے متعدد مثالیں پیش کیں جن میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

انھوں نے پیراگوئے بنام امریکا، جرمنی بنام امریکا اور میکسکو بنام امریکا میں عالمی عدالت کے فیصلے کے باوجود مقامی قوانین کے مطابق ہونے والے فیصلوں کے نظائیر پیش کیے۔ انھوں نے جون 2000ء میں عالمی عدالت میں پیش کردہ پاک بھارت مقدمے کی بھی مثال دی۔ ستمبر 1999ء میں بھارت نے پاکستان نیوی کے غیر مسلح طیارے کو نشانہ بنایا۔ پاکستان نے اس واقعے پر انصاف کے لیے بھارت کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کیا۔ عالمی عدالت نے اس تنازعے کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا۔ پاکستانی وکیل خاور قریشی نے یہ بھی کہا کہ سیاسی عزائم کی بنیاد پر عدالت سے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کی درخواست انتہائی نامناسب قدم ہے۔

کلبھوشن کے معاملے میں بھارت کا عالمی عدالت سے رجوع کرنا غیر دانش مندانہ فیصلہ تھا لیکن اس نے ہمیں عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ہمیں ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کا موقع ملا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔