سائنس سے ہماراکوئی تعلق نہیں ہے!

راؤ منظر حیات  ہفتہ 20 مئ 2017
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

سائنس انسانی ذہنوں کوتبدیل کرڈالتی ہے۔انسانی رویے بھی نئی ایجادات اورٹیکنالوجی کے ذریعے ہردم بدلتے رہتے ہیں۔اگردیکھاجائے،توصنعتی انقلاب کی بنیادوہ سائنسی تحقیق اورتجسس تھاجس نے صرف ڈیڑھ سوبرس میں کرہِ ارض کواس طرح بدل ڈالا،جسکی نظیرگزشتہ کئی ہزارسال میں نہیں ملتی۔ڈیڑھ صدی نے لوگوں کی فکر پراتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں،جس کاادراک پہلے نہیں کیاجاسکتاتھا۔

جن قوموں اورملکوں نے سمجھ لیاکہ سائنس کواپنے معاشرہ میں مثبت طریقے سے استعمال کرنا چاہیے،وہ آج ترقی یافتہ جاتے ہیں۔اس کے برعکس جن قوموں نے سائنس کی قدرنہیں کی،وہ حقیقت میں غلام بنا دی گئی ہیں۔ذہنی،فکری اوراقتصادی غلام۔کئی طبقات سائنس اورمذہب کوآمنے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی کوشش یورپ میں بھی کی گئی تھی۔مگربے انتہا خون خرابے کے بعداس حقیقت کوتسلیم کیاگیاکہ عملی زندگی میں سائنس کوبہت اونچامقام حاصل ہے۔ وہاں، عرصہ دراز سے مذہب کوانسان کاذاتی معاملہ قرار دیدیا گیا ہے۔ آج کی دنیااسی کلیہ پرقائم ہے۔مگرمسلمان ممالک ابھی تک ذہنی انتشارکاشکارہیں۔

گزشتہ دوسال کی سائنسی ترقی پرنظرڈالیے۔انسان حیران ہوجاتاہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہورہاہے۔مگرساتھ ہی متضادخیال ذہن میں کوڑے مارتاہے کہ اس ترقی میں ہم لوگ اتناپیچھے کیوں ہیں۔کیلیفورنیاانسٹیٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی نے ایک حیرت انگیزدریافت کی ہے۔تحقیق کے مطابق شمسی نظام میں ایک نواں (9th) سیارہ (Planet)بھی ہے۔ پلوٹوکی دریافت کے بعدیہ سمجھا گیا کہ سورج کے اردگرد گھومنے والے سارے سیارے معلوم ہوچکے ہیں۔مگراب سائنسدانوں نے بتایاکہ پندرہ ہزار برس سے نواں سیارہ موجودہے۔ زمین سے پندرہ گنا بڑے حجم پرمشتمل ہے۔

اس سیارے میں صلاحیت ہے کہ سورج سے اربوں کلو میٹر دوربڑے اطمینان سے سورج کے گردچکرلگاتاہے۔دیکھنے میں توکچھ پتہ نہیں چلتاکہ انسانی علوم پراس کے کیااثرات ہونگے۔مگرسوچیے توہزاروںبرس قدیم علوم جوکہ ستاروں، سیاروں کی مخصوص تعدادکی بنیادپرقائم کیے گئے تھے،ایک دم مشکل میں پڑچکے ہیں۔ تمام حساب درحساب کی بنیادتبدیل ہوچکی ہے۔دوسروں لفظوں میںقدیم علمی بنیادمیں سقم نکل آیاہے۔آگے چل کرانسانی فہم اسے کیسے حل کرتی ہے،اسکاادراک ابھی قطعاً نہیں کیاجاسکتا۔آگے توجہ فرمائیے۔فالج ایک مہلک مرض ہے۔پوری دنیامیں کروڑوں مرد،خواتین اوربچے اس موزی مرض کی بدولت بیکارسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ہمارے اپنے ملک میں لاکھوںافرادفالج کے مریض ہیں۔

اس میں سے ستر فیصد لوگ کبھی بھی مکمل طور پرصحت یاب نہیں ہوتے۔ اکثر لواحقین کودیکھاہے کہ تیمارداری سے اتنے گھبراجاتے ہیں کہ مریض کی مشکل آسان ہونے کی دعائیں مانگتے ہیں۔ یہ موت کی تہذیت یافتہ دعاہے۔سٹینفورڈیونیورسٹی میں طب کے ڈیپارٹمنٹ نے اس معاملہ میں حیرت انگیز تجربات کیے ہیں۔انھوں نے اٹھارہ فالج کے مریض لیے۔بدقسمت لوگ سالہا سال سے بسترپرپڑے تھے۔ ہلنے جلنے سے بھی قطعاً محروم۔یونیورسٹی کے محقیقین نے انسانی سٹم سیل (Human Stem Cell)کوبذریعہ انجکشن مریضوں کے دماغ کے مخصوص حصوں میں داخل کر دیا۔یہ انتہائی پیچیدہ مرحلہ تھا۔کیاآپ یقین فرماسکتے ہیں کہ اٹھارہ کے اٹھارہ مریضوں نے دوبارہ چلناپھرناشروع کر دیا۔ لگتا تھاکہ انھیں کبھی فالج ہواہی نہیں۔اس تجربہ کے بعد فالج کامرض کبھی بھی جان لیوااورموذی نہیں رہیگا۔سٹم خلیوں کے ایک انجکشن نے اَن ہونی کوہونی کردیاہے۔یہ تحقیق ہمارے جیسے غیرسائنسی ممالک میں کب آئیگی،اس کے متعلق کچھ بھی کہنابے ثمرہے۔

ڈرائیورکے بغیرکارکاتصورمحض فلموںمیں موجود تھا۔ چندبرس پہلے ٹیکسس کے مختلف شہروں میں فورڈاورایپل کمپنی نے ایسی تجرباتی کاریں بنانی شروع کردیں جو سارا دن ٹریفک میں ڈرائیورکے بغیرپھرتی رہتی تھیں۔گنجان ترین سڑکوں پران کاروں کے اوپرصرف ایک معمولی سا آلہ لگاہوتاتھا۔کمپیوٹرکے مخصوص سافٹ ویئرکے تحت بالکل اسی طرح چلتی تھیں،جیسے کوئی انسان انھیں چلا رہا ہے۔صرف دو سال کے تجربہ نے”فورڈایپل”کمپنی کو اس قابل کردیاہے کہ انھوں نے مارکیٹ میں یہ کاریں فروخت کے لیے پیش کر دی ہیں۔امریکا میں بھی لوگ ان کاروں کودیکھ کرششدررہ جاتے ہیں۔ان میں لگے ہوئے کمپیوٹراس درجہ بہترین ہیں کہ دو برس میں ایک بھی کارکوحادثہ نہیں ہوا۔ان میں بڑے آرام سے سفر کیا جا سکتا ہے۔

ابھی اس کی پذیرائی قدرے مشکل نظرآتی ہے مگردس بارہ برس میں اس طرح کی کاریں ہرشہرمیں پھیل جائینگی۔ ان کاروں کی تحقیق کے پیچھے دنیا کے بہترین سائنسدان ہیں۔فورڈکے ایم ڈی نے سلی کون ویلی میں قابل ترین آئی ٹی کے ماہرین کواکٹھاکیا۔ان لوگوں نے بہت ریاضت کرکے ایسے سافٹ ویئراورکمپیوٹربنائے جوانسانی ذہن کی طرح سوچتے اورفیصلے کرتے ہیں۔ان کی بدولت کاروں میں ڈرائیورکی ضرورت ہی نہیں رہی۔بالکل اسی طرح جاپان کی سیکیورٹی کمپنی”سی کوم”نے ایک گھریلو حفاظتی ڈرون بنالیاہے۔اس کی جسامت صرف اورصرف ساٹھ سینٹی میٹرہے۔ڈرون گھرکے اردگردفضامیں موجود رہتا ہے۔

اس کے چلنے سے کوئی آوازبھی نہیں آتی۔یعنی کسی کے آرام میں خلل نہیں پڑتا۔ڈرون میں گھرکے افرادکے متعلق مکمل معلومات موجودہوتی ہیں۔جیسے ہی کوئی شخص زبردستی گھرمیں داخل ہونے کی کوشش کرے،یاچوری کی نیت سے گھرکی دیوارعبورکرنے کی ہمت کرے۔ڈرون فضاسے ایک دم نیچے آجاتاہے۔اس شخص کی تصاویرفوری طورپرکمپنی اورپولیس کوبھجوادیتاہے۔یہ ایسی آوازیں بھی نکالتاہے جس سے اہل خانہ ہوشیاراور باخبر ہوجائیں۔ ڈرون کی بدولت چندمنٹ میں پولیس اورسیکیورٹی کمپنی کے اہلکار گھرتک پہنچ جاتے ہیں۔ڈرون کی بدولت کسی بھی گھرمیں چوری یاڈاکہ مارناناممکن ہوجائیگا۔جاپان کی اس ایجادنے حفاظت کے پورے نظام کومکمل طور پر تبدیل کردیاہے۔

برطانیہ کی ایک نجی کمپنی نے محسوس کیاکہ برطانوی پاؤنڈکانوٹ بہت جلد میلاہوجاتا ہے۔پھٹ جاتا ہے۔ اگراس پرپانی پڑجائے توخراب ہوجاتاہے۔کمپنی کے ماہرین نے ایک خاص میٹریل(Poly Propylene) کاایک انتہائی باریک رول بنایا۔اس رول یافلم پربڑی آسانی سے نوٹ چھاپے سکتے ہیں۔ان میں خاص سیکیورٹی نشانات بھی موجودہیں،جنکی بدولت جعلی کرنسی بناناناممکن ہوجائیگا۔یہ نئے نوٹ نہ میلے ہونگے۔ہاں،اگران پرگردیامٹی لگ جائے،توبڑے آرام سے انکو دھویا جاسکتا ہے۔ان کی زندگی کاغذی نوٹوں سے ڈھائی گنازیادہ ہوگی۔

ان کوچھاپنے کے اخراجات بھی بہت کم ہونگے۔نوٹوں میں اس حدتک مضبوطی ہے کہ اگر واشنگ مشین میں بھی کسی پینٹ یاقمیض میں غلطی سے رہ جائیں،توانھیں کچھ نہیں ہوگا۔ ان پرپانی اورصابن سے کسی قسم کافرق نہیں پڑیگا۔ نوٹوں کی چھپائی سے لے کران کی حفاظت تک،ہرمرحلہ بڑے آرام سے طے ہوپائیگا۔ اربوں روپے کاکاغذکی بھی بچت ہوگی۔یہ ٹیکنالوجی ہمارے پاس کب آئیگی، اس کا جواب کوئی بھی نہیں دے سکتا۔

روس کی کمپنی”Energia”نے ایک حیرت انگیزخلائی ہوٹل کی بنیادرکھی ہے۔کمپنی طویل عرصے سے خلابازوں کوخلامیں بھیجنے کاکام کررہی تھی۔اس کے ماہرین نے فیصلہ کیاکہ کیوں ناعام لوگوں کوبھی خلائی سفرمیں انتہائی حفاظت اورآرام سے لے جانے کا بندوبست کیا جائے۔کئی برس کی تحقیق کے بعد،سات لوگوںکاایک چھوٹا ساہوٹل بنایاگیا۔اسے خلامیں پہنچانے کامکمل انتظام کیا گیا۔اس کے بعدبذریعہ اشتہار، ہوٹل کے مہمان چنے گئے۔ ایک راکٹ بنایا گیا جو سات افرادکوبڑے طریقے سے زمین سے اُٹھا کر خلا میں ہوٹل تک لے جائے۔اس میں کمرے بنائے گئے۔

مہمان کی مرضی ہے کہ وہ ایسے کمرے میں ٹھہرے،جس میں کشش ثقل ہو یا اس کمرے کامقیم بن جائے جس میں کشش ثقل بالکل نہ ہو۔یعنی وہ کمرے میں آہستہ آہستہ اُڑسکے۔بستروں کوبھی اسی ترتیب سے لگایا گیا ہے۔ہوٹل میں انٹرنیٹ کاانتظام بھی موجود ہے۔خلامیں جانے سے پہلے،تمام مہمانوں سے ان کے پسندیدہ کھانے پوچھے جاتے ہیں۔خلائی ہوٹل میں روبورٹ کھاناگرم کرکے بسترتک پہنچاتے ہیں۔اس ہوٹل میں پہنچنے کے لیے دودن کاوقت لگتا ہے۔ یہاں پانچ دن قیام کیا جا سکتا ہے۔ چندبرسوں بعد، اس ہوٹل کے کمرے شائدسوسے بھی زیادہ ہوجائیں۔ کامیاب تجربے کے بعدکئی خلائی کمپنیاں اس طرح کے جدیدترین ہوٹل بنانے کے متعلق غور کر رہی ہیں۔ “Energia”کمپنی کا یہ تجربہ مکمل طور پر کامیاب رہا ہے۔اس کے پیچھے جدید سائنسدان اور تحقیق ہے۔

یہ تمام ایجادات صرف اورصرف پچھلے دوسالوں کی ہیں۔ان کے علاوہ درجنوں ایسی محیراالعقول تحقیقات ہیں جنہوں نے انسانی زندگی بدل ڈالی ہے۔دوسال کی بات چھوڑیے۔گزشتہ دس برس پر نظر ڈالیے۔ سیکڑوں ایسی ایجادات نظرآئینگی جنہوں نے ہمارے طورطریقے بدل دیے ہیں۔مگر ایک افسوناک حقیقت بھی ہے۔کسی بھی نئی ایجادکاتعلق مسلمان ملک یا مسلمان سائنسدان سے نہیں ہے۔حددرجہ تلخ بات ہے کہ تمام مسلمان ممالک ایسی سائنسی تاریکی کاشکار ہیں، جسکاانھیں ادراک تک نہیں ہے۔ہاں،ہم نے ترقی کی ہے، فرقہ واریت میں، پُرتشدد خیالات میں،جنگ اورفسادمیں،بھلاسائنس سے ہمارے جیسے ملکوں کاکیاتعلق!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔