لیبیا میں فوجی ایئربیس پر حملہ؛ اہلکاروں سمیت 141 افراد ہلاک

ویب ڈیسک  ہفتہ 20 مئ 2017
ایئربیس پر حملہ اس وقت ہوا جب فوجی ملٹری پریڈ سے واپس آرہے تھے اور وہ غیرمسلح تھے،لیبین نیشنل آرمی۔ فوٹو: فائل

ایئربیس پر حملہ اس وقت ہوا جب فوجی ملٹری پریڈ سے واپس آرہے تھے اور وہ غیرمسلح تھے،لیبین نیشنل آرمی۔ فوٹو: فائل

طرابلس: لیبیا کے جنوب میں واقع فیلڈ مارشل خلیفہ ہفتار کی فوجی ایئربیس پر حملے کے نتیجے میں اہلکاروں سمیت 141 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کی وفادار تھرڈ فورس ملیشیا نے فیلڈ مارشل خلیفہ ہفتار کی خودساختہ لیبین نیشنل آرمی کی براک الشتی ایئربیس پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 141 افراد ہلاک ہوگئے جس میں فوجیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ خلیفہ ہفتار کے ترجمان احمد المسماری کا کہنا ہے کہ ایئربیس پر حملہ اس وقت ہوا جب فوجی ملٹری پریڈ سے واپس آرہے تھے اور وہ غیرمسلح تھے جب کہ مرنے والوں میں عام شہریوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے جو ایئربیس کے قریب مختلف ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کا کہنا ہے کہ حملے کی تحقیقات کے لئے انکوائری کمیشن بنانے کے احکامات جاری کئے جاچکے ہیں جب کہ حملے کے اصل ذمہ داروں کا تعین ہونے تک وزیردفاع المہدہ البرکاتی اور تھرڈ فورس ملیشیا کے سربراہ کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، ادھر وزیردفاع اور تھرڈ فورس کے سربراہ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فیلڈ مارشل خلیفہ ہفتار کی وفادار فوج کی ایئربیس پر حملے کے احکامات نہیں دیئے۔

لیبیا کے لئے اقوام متحدہ کے سفیر مارٹن کوبلر نے حملے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملے کے نتیجے میں عام شہری بھی ہلاک ہوئے جس پر شدید صدمہ ہے جب کہ برطانوی سفیر پیٹر میلٹ نے بھی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ براک الشتی ایئربیس پر حملہ انسانیت کا قتل ہے جس کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں ضرور لانا چاہیئے۔

واضح رہے کہ فیلڈ مارشل ہفتار اور متحدہ حکومت کے درمیان 2 مئی کو دبئی میں ایک دوسرے پر حملے نہ کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا جب کہ حالیہ حملے کے بعد فیلڈ مارشل ہفتار کے حامی مشرقی پارلیمنٹ کے اسپیکر اگولیا صالح نے تھرڈ فورس کو حملے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دبئی میں ہونے والے معاہدے کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔