- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
- پی آئی اے نجکاری، جلد عالمی مارکیٹ میں اشتہار شائع ہونگے
- صنعتوں، سروسز سیکٹر کی ناقص کارکردگی، معاشی ترقی کی شرح گر کر ایک فیصد ہو گئی
- جواہرات کے شعبے کو ترقی دیکر زرمبادلہ کما سکتے ہیں، صدر
- پاکستان کی سیکنڈری ایمرجنگ مارکیٹ حیثیت 6ماہ کے لیے برقرار
- اعمال حسنہ رمضان الکریم
- قُرب الہی کا حصول
- رمضان الکریم ماہِ نزول قرآن حکیم
- پولر آئس کا پگھلاؤ زمین کی گردش، وقت کی رفتار سست کرنے کا باعث بن رہا ہے، تحقیق
- سندھ میں کتوں کے کاٹنے کی شکایت کیلئے ہیلپ لائن 1093 بحال
- کراچی: ڈکیتی کا جن قابو کرنے کیلیے پولیس کا ایکشن، دو ڈاکو ہلاک اور پانچ زخمی
فیس بکی دانشور
ساتویں سے آٹھویں جماعت تک میری کلاس ٹیچر ایک ہی تھیں جو ایک سیاسی جماعت کی حامی تھیں، اور 1988ء کے بعد جو اگلے الیکشن ہوئے تھے، اِس میں وہ اکثر اپنی جماعت کے جھنڈے اور اسٹیکر لاکر جماعت کے بچوں میں بھی تقسیم کردیا کرتی تھیں۔ ایک دور دراز علاقے کے سرکاری اسکول سے عموماً کسی کو اتنی دلچسپی نہیں ہوا کرتی تھی کہ وہ جا کر جائزہ لے کہ اسکول میں اساتذہ کی کیا سرگرمیاں ہیں، سو لہذا اُن کی یہ بے ضرر سی مہم بھی جاری تھی۔
ساتویں یا آٹھویں جماعت کے بچے کو اس سے کیا سروکار کہ جھنڈا کس کا ہے؟ لہذا میں بھی بہت شوق سے مذکورہ جماعت کا جھنڈا میڈم سے لے لیا کرتا تھا۔ پہلی بار میڈم نے جھنڈا مجھے تھماتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹا ووٹ تو آپ کے امی ابو بینظیر کو ہی دیں گے، کیوں کہ پیپلز پارٹی اس دور کی مقبول جماعت تھی اور ہمارے علاقے میں پیپلز پارٹی ہی نمائندہ بھی تھی، لیکن میں نے بچپن کی نادانی اور جوش میں میڈم کو خوش کرنے کیلئے زور سے چلا کر یقین دہانی کرائی تھی کہ میں آپ کی جماعت کو ہی ووٹ دوں گا۔
خیر اِس تمہید سے آپ یہ سمجھیں گے کہ میں یہاں کسی سیاسی جماعت پر تنقید کروں گا، تو ایسا نہیں ہے۔ میری اِن کلاس ٹیچر کو معلوم ہوگیا تھا کہ میں نعت خوانی کرتا ہوں، لہذا یہ روز بلا ناغہ اسمبلی میں مجھ سے نعت پڑھواتی تھیں۔ جس روز میں بہانہ بناتا تھا تو زبردستی پڑھواتی تھیں۔ میڈم انگریزی پڑھایا کرتی تھیں تو مجھے شوق ہوا کہ میں انگریزی کے مضمون اور کہانیاں بجائے بورڈ سے نقل کرکے انہیں رٹ لینے کے اپنے الفاظ میں لکھوں۔ میڈم نے میری غلطیوں کے باوجود پوری کلاس کو میرے مثال دیتے ہوئے کہا کہ آپ سب کو یہ کوشش کرنی چاہیئے۔ اِس کے بعد سے میں نے کبھی انگریزی کا رٹا نہ لگایا۔ میڈم نے مجھے نعت پڑھنے کا اعتماد دیا، مجھے اپنے الفاظ میں انگریزی مضمون لکھنے کا اعتماد دیا۔ کچھ زیادہ نہ سہی لیکن حوصلہ افزائی کیلئے مجھے ہر روز اپنی سیاسی پارٹی کا ایک جھنڈا اور اسٹیکر دیا۔ یہ حوصلہ افزائی مجھ پر قرض ہے۔
جب جماعت نہم میں پہنچا تو کیمسٹری کے مضمون نے جی بھر کر بور کیا، مجھے ذرہ برابر دلچسپی نہیں تھی لیکن میں کیمسٹری کے استاد کا انتظار بڑے ذوق و شوق سے کیا کرتا تھا۔ سر کبھی فارغ وقت میں مجھ سے کبھی نغمہ سنتے یا پھر کبھی کوئی نعت۔ پھر دس روپے بطور انعام بھی دیتے تھے۔ دس روپے اُس زمانے میں بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ اُن کے اِس دوستانہ رویہ اور حوصلہ افزائی نے مجھے کیمسٹری میں دلچسپی لینے پر بھی مجبور کر ہی دیا۔ ان کی پشت تھپکنا بھی مجھ پر قرض ہے۔
اسی جماعت میں ہمیں ایک استاد فزکس بھی پڑھایا کرتے تھے۔ اُن کے جماعت میں داخل ہوتے ہی ایسی خاموشی طاری ہوجاتی گویا قبرستان ہو۔ سخت زبان اور ہاتھوں کا بے دریغ استعمال، صحیح معنوں میں جلاد کا مطلب انہی دنوں سمجھ آیا۔ اُن کی وجہ سے ہی مجھ سمیت بہت سے لڑکوں پر فزکس کا خوف طاری ہوگیا۔ اور اِس خوف نے اس مضبوطی سے پنجے گاڑے کہ میں اس مضمون میں کبھی دلچسپی ہی نہیں لے پایا اور ایف ایس سی سے گریجویشن تک رعایتی نمبروں پر پاس ہوتا رہا۔
مجھے آج تک محسوس ہوتا ہے کہ شاید فزکس کے استاد کو مجھ سے کوئی ذاتی پرخاش تھی۔ میرے گال اگلے روز تک اُن کے تھپڑوں کی وجہ سے دُکھا کرتے تھے۔ لاہور کی سردیوں میں صبح صبح معمولی سے غلطی پر ہاتھوں پر چھڑیوں کی بارش کا درد برداشت سے باہر ہوتا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، اُن کی کلاس میں سب سے زیادہ تشدد کی حد تک پٹائی میری ہوتی تھی۔ میرا حوصلہ پست ہوچکا تھا، اتنا پست کے دوبارہ فزکس کی جانب راغب نہ ہوسکا۔ مجھے اس استاد سے بس حوصلہ شکنی ملی۔ تعلیم، شعور اور اعتماد نہیں۔
ایک بار کچھ دوستوں نے ہمت کر کے اُن استاد کی شکایت اپنے والدین کے ذریعے پرنسپل تک پہنچائی۔ غالباً اِس شکایت سے اُن کی انا کو بہت ٹھیس پہنچی، لہذا پٹائی کا سلسلہ بند کرکے انہوں نے طعنوں اور تلخ الفاظ کے ذریعے حوصلہ شکنی کا آغاز کردیا۔
اسکول کے بعد میں کالج گیا اور پھر یونیورسٹی لیکن اِن تین ٹیچرز کے چہرے میرے ذہن میں سب سے واضح ہیں۔ آج کئی برس گزرنے کے بعد جب کوئی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو مجھے اپنی میڈم اور کیمسٹری کے استاد ضرور یاد آتے ہیں۔ حوصلہ شکنی کرنے والوں کو دیکھ کر بے اختیار فزکس کے استاد کی یاد آتی ہے۔
سوشل میڈیا پر صاحب علم و مطالعہ حضرات بھی موجود ہیں، سینئر صحافی و دانشور بھی، علماء بھی، شاعر بھی، کہنہ مشق رپورٹر بھی، نئے لکھنے والے بہترین لکھاری بھی اور ہم جیسے پارٹ ٹائم لکھنے والے یا قاری بھی۔
ہم سب نے مل کر یہ سوشل میڈیا تشکیل دیا ہے۔ اِس میڈیم نے ہمیں موقع دیا ہے کہ وہ تمام صاحب علم و معلومات جن سے عام حالات میں رابطہ ممکن نہ تھا، ہم اُن تک براہ راست رسائی حاصل کرسکیں، اُن سے سیکھ سکیں، اُن سے سوال پوچھ سکیں۔ کم از کم مجھے تو بہت سے اساتذہ میسر آئے اس میڈیم کی بدولت۔
مجھے امید یہی ہے کہ سوشل میڈیا مجھ جیسے طالب علموں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گا، ویسی حوصلہ افزائی جو میری میڈم اور کیمسٹری کے استاد نے کی۔ ویسی حوصلہ شکنی کا باعث نہیں جو فزکس کے ماسٹر نے کبھی میری اندھا دھند پٹائی کرکے کی یا انا کو ٹھیس پہنچنے پر طعنے دے کر کی۔ کیونکہ آپ کی حوصلہ افزائی کسی ’’فیس بکی دانشور‘‘ کو واقعی مزید جاننے اور سیکھنے پر مائل کرسکتی ہے۔ اُس کی تحقیر البتہ آپ کو فزکس کا استاد بنا دے گی اور اسے مجھ جیسا طالب علم جس کے گال اگلے روز تک دُکھا کرتے تھے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔