کراچی اندھیروں سے روشنی تک

مختار احمد  اتوار 21 مئ 2017
کراچی میں جہاں تک سب سے پہلے لالٹین روشن ہونے کا تعلق ہے، تو اِس کا کریڈٹ سندھ کلب کو جاتا ہے۔ فوٹو: فائل،

کراچی میں جہاں تک سب سے پہلے لالٹین روشن ہونے کا تعلق ہے، تو اِس کا کریڈٹ سندھ کلب کو جاتا ہے۔ فوٹو: فائل،

روشنیوں کا شہر کراچی ہمیشہ سے روشنیوں کا شہر نہ تھا بلکہ یہ تاریکی میں ڈوبا ہوا شہر ہوا کرتا تھا، جہاں شام ہوتے ہی گُھپ اندھیرا ہوجاتا تھا اور لوگ آسمان کے تاریکی کی چادر اوڑھنے سے قبل ہی اپنے کام بند کر کے سرِ شام سو جایا کرتے تھے۔ اِس زمانے میں زیادہ تر لوگ سورج کے طلوع ہوتے ہی جاگتے تھے اور سورج کے غروب ہوتے ہی اپنے گھروں میں دُبک جاتے تھے۔

رات میں گھروں کو روشن رکھنے کے لئے چراغوں اور لالٹین سے روشنی کی جاتی تھی، جو کہ انتہائی معمولی نوعیت کی ہوتی تھی مگر مجبوری کے عالم میں لوگوں کے لئے یہ مدھم روشنی ہی کافی ہوتی تھی کیونکہ اُس وقت تک کلاچی، کراچو، کراچے اور مختلف ناموں سے موسوم شہر کے لوگ بجلی کے نام سے بھی نہ آشنا تھے ماضی کے اُس دور میں چند سڑکیں ہوا کرتی تھیں اور ان پر بیل گاڑیاں، اونٹ گاڑیاں، گدھا گاڑیاں، گھوڑا گاڑیاں چلا کرتی تھیں مگر سڑکوں پر روشنی کا انتظام نہ ہونے کے سبب گھوڑا گاڑیوں پر لگے دو مٹی کے تیل سے جلنے والے چراغوں جبکہ گدھا گاڑیوں میں لالٹین باندھ کر رات کا سفر کیا جاتا تھا۔

غالباً یہ 1847ء سے پہلے کا دور تھا 1839ء میں جب انگریز آئے تو اُس وقت تک یہ شہر رات کا اندھا شہر تھا جس کے باعث شہر کے اندر چوریوں، ڈکیتیوں اور نقب زنی کے واقعات اکثر و بیشتر پیش آیا کر تے تھے۔ جس کے پیشِ نظر سر چارلس نیپئر نے اِس شہر میں روشنی کے انتظامات کرنے کے لئے خصوصی انتظامات کئے۔ اُس نے شہر کی سڑکوں کو روشن کرنے کے لئے باقاعدہ طور پر ایک بورڈ بنایا جس نے کافی غور و خوض کے بعد شہر کی سڑکوں کو روشن رکھنے کے لئے 1847ء میں سڑکوں کے کنارے ناریل کے تیل سے جلنے والے لیمپ نصب کروائے۔ اِن لیمپوں کو روشن رکھنے کے لئے زمین کے اندر تیل کا ایک چھوٹی سی ٹینکی بنائی گئی جبکہ لیمپ 5 سے 6 فٹ کی اونچائی پر نصب کئے گئے، جن میں میونسپلٹی کے اہلکار صبح کے اوقات میں اس کی چمنیاں صا ف کر کے ان میں تیل بھرا کرتے تھے جبکہ رات کو انہیں دوسرے اہلکار روشن کر نے کے لئے آیا کر تے تھے مگر پھر ان اہلکاروں نے کھوپرے کے تیل کی چوری شروع کر دی جس کے سبب لیمپ مٹی کے تیل سے جلائے جانے لگے یہ اقدام 1883ء میں اٹھایا گیا تھا۔

کراچی میونسپل کمیشن جسے 1878ء میں میونسپلٹی کا درجہ ملا، اِس کے چیف انجینئر مسٹر جیمس اسٹریچن نے پہلی بار سڑکوں کو روشن رکھنے کے لئے بجلی کمپنی قائم کرنے کی تجویز دی مگر کیونکہ بجلی کی تنصیب میں بہت سارے سرمائے کی ضرورت تھی۔ اس لئے اسی دور میں سڑکوں پر گیس لیمپ لگادئیے گئے اور گیس کے ہنڈے کو روشن رہنے لگے، جس سے سڑکیں، چوراہے پہلے سے زیادہ روشن رہنے لگے اور اندھیرے کی وجہ سے رات کو پیش آنے والے حادثات میں بھی کمی واقع ہوئی۔

گیس سے سڑکوں کو چند فرلانگ تک روشن رکھنے کا سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا، صاحبِ ثروت افراد نے گھروں کو روشن رکھنے کے لئے بھی گیس لیمپوں کا استعمال شروع کر دیا۔ ایسے میں دور سے دیکھنے پر شہر میں مدھم مدھم سی روشنی نظر آتی تھی۔ اسی دوران 1913ء میں شہر میں بجلی کی فراہمی کے لئے میسرز فار بس کیمپ بیل کمپنی باقاعدہ طور پر قائم کی گئی۔ اِس کے حصص فروخت کئے گئے تو لوگوں کی بڑی تعداد نے حصص خریدے۔ بعد ازاں یونائیٹڈ ایسٹرن ایجنسی نے سارا کاروبار خرید لیا اور شہر بھر میں بجلی کی فراہمی شروع کر دی مگر کیونکہ لوگ کرنٹ لگنے سے خوف زدہ تھے، اس لئے اکثر لوگ چراغ، لالٹین اور گیس استعمال کر تے رہے یوں پہلی جنگِ عظیم سے قبل ہی کراچی میں بجلی آگئی جس سے شہر روشن ہوگیا۔

بجلی پیدا کر نے کے لئے پہلا پاور ہاؤس کچہری روڈ جو کہ آج ڈاکٹر ضیاء الدین روڈ کہلاتا ہے، کے ساتھ واقع خالی اراضی پر قائم کیا گیا اور یہاں مٹی کے تیل سے بجلی کی پیداوار شروع کی گئی۔ مٹی کے تیل سے پاور ہاؤس کو چلانے کے لئے باقاعدہ طور پر ایک ڈپو بھی قائم کیا گیا، یہ تیل ڈپو آج بھی اپنی پرانی اور خستہ حالت میں موجود ہے جبکہ قدیم ترین پاور ہاؤس جو کہ پتھروں سے بنا ہوا تھا، اُس کی صرف بیرونی دیواریں باقی ہیں جبکہ اندر سے اسے عہدِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھال دیا گیا ہے۔

کراچی میں جہاں تک سب سے پہلے لالٹین روشن ہونے کا تعلق ہے، تو اِس کا کریڈٹ سندھ کلب کو جاتا ہے، جہاں صرف انگریزوں کو ہی ممبر بنایا جاتا تھا۔ اُس نے 1902ء میں کلب کے لئے ایک جنریٹر نصب کرکے سب سے پہلے کلب کو بجلی کی سہولت سے آراستہ کیا جو کہ لوگوں کے لئے ایک انوکھی چیز تھی۔ لہذا لوگ دور دراز کا سفر کرکے جلتی ہوئی لائٹیں دیکھنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ پھر جب 1913ء میں بجلی آگئی تو اِس کا پہلا کنکشن جہانگیر کوٹھاری بلڈنگ جو آج بھی ایم اے جناح روڈ پر موجود ہے اسے فراہم کیا گیا۔ آج بھی اس قدیم عمارت کے اندر لگا ہوا قدیم طرز کا میٹر دیکھا جاسکتا ہے۔


کہا جاتا ہے کہ غالبًا جہانگیر کوٹھاری جو کہ کراچی کا بہت بڑا صنعت کار تھا اور پارسی برادری کا لینڈ لارڈ تھا، اُس نے بھی بجلی کے حصص خریدے تھے لہذا اسے بجلی کا پہلا کنکشن دیا گیا تھا لیکن اِس بارے میں دوسری رائے یہ ہے کہ چونکہ یہ عمارت نیپئر روڈ کے سنگم پر واقع ہے اور نیپئر روڈ اِس وقت معاشی حب کے طور پر جانا اور مانا جاتا تھا، لہذا سب سے پہلے بجلی کے کنکشن اس معاشی حب کو دیئے گئے۔ اُس کے بعد بجلی کا دوسرا کنکشن پریس والی بلڈنگ، لی مارکیٹ کو دیا گیا۔ اِس کے بعد لوگوں نے گھروں میں بھی بجلی کے کنکشن لینا شروع کردیئے۔

آج 12روپے یونٹ کے گھریلو صارفین کو بتاتے چلیں کہ اُس وقت بجلی کی قیمت گھریلو صارفین کے لئے دو پیسے فی یونٹ جبکہ تجارتی مقصد کے لئے ایک آنہ فی یونٹ کے حساب سے وصول کی جاتی تھی۔

جب کہ گارڈن کے علاقے میں مکی مسجد کے ساتھ واقع قدیم ترین دفتر بجلی کے بلوں کی وصولی کنکشن کی فراہمی اور شکایت دور کرنے کا کام کیا کرتا تھا۔ یہ عمارت آج بھی پوری آن بان شان کے ساتھ کھڑی ہے اور اپنے شاندار ماضی کا احوال سنا رہی ہے جب کہ اسی زمانے میں بعض لوگوں نے بجلی خرید کر گھروں اور صنعتوں کو کنکشن کی فراہمی کا کام بھی کیا۔ جس میں سے پونا بائی نامی ایک خاتون جن کے نام سے رنچھوڑ لائن میں ایک واچ ٹاور بھی بنایا گیا۔

اِس کے بعد بجلی کا نظام کراچی الیکٹرک کارپوریشن نے سنبھالا اور اس نظام کو وسعت دیتے ہوئے پورے شہر میں بجلی کے تاروں کا جال بچھاتے ہوئے شہر کراچی کو روشن اور منور کر دیا۔ بعد ازاں جنرل پرویز مشرف کے دور میں کے ای ایس سی کی نجکاری کر دی گئی اور اِس کے بعد کراچی الیکٹرک کے نام سے نجی کمپنیوں نے کام شروع کیا، جو عوام کی توقعات پر اب تک تو پورا نہیں اُتر سکی ہے۔ اِس وقت شہر کراچی میں بجلی کی مانگ میں مزید اضافہ ہی ہورہا ہے جس کے سبب شہر میں کئی کئی گھنٹوں تک لوڈ شیڈنگ معمولات کا حصہ بن گئی ہے۔ جس سے شہریوں کو نجات دلانے کے لئے کے الیکٹرک دن رات سنجیدہ کو ششیں کر رہی ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ کوشیشیں کامیاب نہیں ہورہیں اور روشنیوں کا شہر دھیرے دھیرے اندھیروں کی جانب بڑھ رہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کےساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔