ہمارا تاریخی دشمن زندہ ہے

عبدالقادر حسن  اتوار 21 مئ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

عالمی سیاسی بساط پر شطرنج کے مہروں کو اپنی مرضی سے چلا کر بازی جیتنے کا طریقہ کار بہت پرانا ہے اگرچہ اس سے مطلوبہ نتائج کا حصول کبھی کبھار ہی حاصل ہو پاتا ہے اس کے باوجود بادشاہ اپنی سلطنت کودشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کی صفوں میں جاسوسوں کا جال بچھا کر رکھتے تھے تا کہ دشمنوں کے ارادوں کی خبر ان کے پہنچنے سے پہلے پہنچ جائے اور وہ اس کے مطابق اپنی ڈھال کا بندوبست کر سکیں۔

جاسوسی کا یہ کام ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور اس کے بارے میں کئی قصے کہانیاں مشہور ہیں کہ جاسوسوں نے دشمن کے ارادوں سے اپنی حکومت کو بروقت خبر کر کے اس کی عافیت کا سامان پیدا کیا لیکن جب یہی جاسوس پکڑے جاتے تھے تو ان کے ساتھ سلوک وہ نہیں ہوتا تھا جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا تھا بلکہ ان جاسوسوں کو فوری طور پر دشمن ملک کے لیے جاسوسی کرنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا اور یہی قانون ابھی بھی لاگو ہے اور اس کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔

ہمارے دشمن بھارت نے پاکستانی ریاست کو کبھی قبول نہیں کیا اور اس کو غیر مستحکم کرنے میں اس کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ پاکستان کے اندر دہشتگرد کاروائیوں میں وہ ہمیشہ ملوث رہا ہے لیکن ہماری حکومتوں نے کبھی اس کاواشگاف الفاظ میں اعتراف اوراظہار نہیں کیا۔ دبے لفظوں میں اظہار کا مطلب اس کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہے۔ پاکستانی عوام بھارتی کاروائیوں سے باخبر بھی رہتے ہیں اور اس نے کبھی ان کو درخور اعتناء نہیں سمجھالیکن ملک کے مقتدر حلقوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ بھارت کے بارے میں ہماری قوم کے جذبات کیا ہیں۔

بھارت کی مکارانہ کاروائیاں پاکستان کے اندر جاری رہتی ہیں اور وہ اس کا اظہار پاکستان کے اندر مختلف دہشتگرد کاروائیوں کے ذریعے کرتا رہتا ہے اس بار اس کا ثبوت بھی ہمارے ہاتھ لگ گیا جب بھارتی نیوی کاحاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو ہمارے ملک میں دہشتگردی کی وارداتوں میں پکڑا گیا اور اس نے یہ تسلیم کیا کہ وہ بھارتی جاسوس ہے اور اس کے ذمے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں شر پسندی کو پھیلانا تھا اور وہ یہ کاروائیاں ہمارے بردار اسلامی ملک ایران کے اندر بیٹھ کر کر رہا تھا اور اس نے اسلامی نام سے پاسپورٹ بھی بنوا رکھا تھا جو کہ وہ پاکستان آنے جانے کے لیے استعمال کرتا تھا۔

اس کے اقبالی بیان کے بعد عدالت نے اس کو پھانسی کی سزا کا مستحق ٹھہرایا جو کہ جاسوسوں کا ہمیشہ مقدر رہی ہے لیکن اس سزا کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے عالمی سطح پر اس طرح کا پرا پیگنڈہ کیا گیا کہ شاید ہم کوئی ظالم قوم ہیں جس نے اس کے ایک معصوم شہری کوپھانسی کی سزا دے دی ہے ان کے اس پراپیگنڈہ کا مقابلہ ہم عالمی سطح پر اس طرح تواس کے لیے نہ کر سکے کہ ہمارے پاس خارجہ امور کو چلانے کے لیے کوئی کل وقتی وزیر تک موجود نہیں جو اس کا موثر اور بروقت جواب دے سکے۔

بھارت کی جانب سے حکومتی سطح پر پیغام رسانی جو وزارت خارجہ کی سطح پر ہونی چاہیے تھی اس کے لیے بھارت نے اپنے ایک کاروباری فرد سجن جندال کا انتخاب کیا جو مری کی ٹھنڈی ہواؤں میں ہمارے وزیر اعظم سے ملاقات کر کے ان کو شاید اس معاملے میں بھی ٹھنڈا کر گئے اور اس بات کی یاد دہانی بھی کرا گئے ہوں کہ بھارت کو تو آپ پسندیدہ ملک کا درجہ دینے والے تھے۔

بھارت اپنی روایتی عیاری سے کام لیتے ہوئے پاکستانی عدالت کے فیصلے کو عالمی عدالت انصاف میں لے گیا جہاں پر ججوں نے پاکستان کے ایک جونیئر وکیل کے دلائل سے متاثر ہوئے بغیر پاکستانی عدالت کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا۔

قطع نظر اس بات کے کہ کیا وہ پاکستان کے اس اندرونی معاملے میں مداخلت کر سکتے ہیں جس کے واضح ثبوت بھی موجود ہیں اور ہم نے وہ ثبوت عالمی عدالت میں پیش بھی کر دئیے ہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب دنیا بھر میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں خود بھارت کشمیر میں جس طرح کی بر بریت کا مظاہرہ کر رہا ہے، شام میں مسلمانوں کے چیتھڑے اڑائے جا رہے ہیں، بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو پاکستانی محبت کی پاداش میں پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔

برما میں مسلمانوں کر زندہ جلایا جا رہا تھا، عراق اور افغانستان میں وحشیانہ بمباری سے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جا رہی تھی اور کی جا رہی ہے، مصر میں ٹینکوں سے مسلمانوں کو کچلا جا رہا تھا، تو اس وقت یہ عالمی انصاف فراہم کرنیوالے کہاں دبک کے بیٹھ گئے تھے۔

عالمی انصاف فراہم کرنے کے لیے کرسیوں پر بیٹھے ٹھیکیداروں کی منافقت کی حد ہے کہ وہ ایک ایسے معاملے میں مداخلت کر رہے ہیں جس کا اعتراف مجرم خود کر چکا ہے اور اپنے جرم پر فخر بھی کرتا ہے۔ہمارے پاس کلبھوشن کی جاسوسی کی وارداتوں کے مکمل ثبوت موجود ہیں اور یہی موقع ہے جب ہم بھارت کا مکارانہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کر سکتے ہیں اور یہی اس وقت کی ضرورت ہے ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ہمیں عالمی عدالت میں اس کیس کو بھر پور انداز میں لڑنا ہو گا۔

دشمن کے ساتھ انصاف کی جنگ کے اس نازک موقع پر ہمیں بطور قوم اور ہمارے سیاستدانوں کو قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا جو کہ اس تاثر کو تقویت دے گا کہ پاکستانی ایک قوم ہیں جو کہ اپنی ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کے موقع پر ایک اکائی بن جاتے ہیں اور یہی اکائی دشمن کی نظروں میں کھٹکتی ہے اور وہ اس میں شگاف ڈالنے کے لیے ہمارے ملک کے نام نہاد دانشوروں کا سہارا لیتا ہے جنھوں نے ملکی سلامتی کے اس نازک موقع پر اپنی ہی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے کہ حکومت کی وجہ سے پاکستان کا کیس کمزرو ہو رہا ہے اور انھوں نے اس میں وہ دلچسپی نہیں لی جوانھیں لینی چاہیے تھی۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر حکومت اس معاملے میں کہیں پر کمزور پڑ رہی ہے تو اس کی حمایت کے لیے تمام سیاسی جماعتوںکو متحد ہو جانا چاہیے اور اس وقت حکومت کی غلطیوں سے صرف نظر کر کے اس اہم کیس میں حکومت کی حمایت اور مضبوط سہارا فراہم کرنا ہم سب کی ذمے داری ہے۔سیاست کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھنا چاہیے کیونکہ ملکی سلامتی کی قیمت پر سیاست کرنے والوں کو یہ قوم کبھی معاف نہیں کرے گی لہذا ہمارے ملک کے تمام سیاستدانوں کو بھارت کے معاملے میں ہوش کے ناخن لینے ہو ں گے ورنہ پاکستانیت سے کوٹ کوٹ کر بھری جذباتی قوم ان کا بینڈ بجا دے گی۔

تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ بھارت ہمارا پیدائشی دشمن ہے اور جب تک وہ زندہ ہے ہمارا دوست نہیں ہو سکتا اس کے لیے بھارت کی حد تک ہمیں ہر وقت چوکنا اور خبر داررہنا ہو گا۔ وہ کسی بھی وقت اور کسی بھی موقع پر ہم پر وارکر سکتا ہے جیسے یہ جاسوسی معاملہ ہے اس لیے ہمیں یہ طے کر کے بھارت کے ساتھ کوئی معاملہ کرنا ہو گا ورنہ ہم چالاک بھارت سے مار کھا جائیں گے۔ ہماری پوری قومی عمر اس بات کی گواہ ہے کہ بھارت ہمارا دشمن ہے۔

ہماری آزادی سے لے کر اب تک اس نے ہمارے ساتھ دشمنی کی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے جس کی تازہ مثال یہی جاسوسی کا معاملہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کب اپنے پیدائشی دشمن کو دشمن تسلیم کر لیں گے ۔ 1947ء سے لے کر اب تک بھارت ہمارے ساتھ دشمنی ہی کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا لیکن ہم اس کی سازشوں سے اس حد تک بے خبر ہیں کہ ہمارا کوئی وزیر خارجہ تک نہیں ہے۔ اﷲ ہی رحم کرے مگر کیوں اور کب تک۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔