جمہوری نظام کے مشتریو ہوشیار باش

نصرت جاوید  جمعرات 24 جنوری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

صحافیوں کے ایک بڑے گروپ کے ہمراہ میری جنرل اشفاق پرویز کیانی سے صرف ایک ملاقات ہوئی ہے۔ ان دنوں وہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ہوا کرتے تھے۔ ایک اور اتفاقی ملاقات ان ہی دنوں اس وقت ہوئی جب وہ ایک سفارتی تقریب میں مشاہد حسین سید کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ جنرل کیانی سے ذاتی شناسائی نہ ہونے کے باو جود میں نے بطور رپورٹر ان کے بارے میں جو کچھ جانا وہ مجھے یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ ایک غور و فکر کرنے والے پڑھاکو نوعیت کے فوجی ہیں جو بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے جمہوری نظام کا تسلسل بہت ضروری ہے۔

ہماری ان دنوں بہت ہی مستعد عدلیہ سے موجودہ حکمرانوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مگر نظر بظاہر آزاد عدلیہ کی یہ مستعدی بھی ایک حوالے سے جمہوری نظام کو توانائی فراہم کر رہی ہے۔ ہمارے بے باک میڈیا کا بڑا حصہ بھی اس نظام کا حامی ہے۔ اگرچہ اس کی صفوں میں زیادہ سے زیادہ پرستاروں کے متلاشی ایسے اداکار بھی شامل ہو گئے ہیں جو آزاد صحافت کے نام پر لوگوں کو جمہوری نظام سے بیزار کر رہے ہیں۔ پاکستان کی بڑی اور موثر سیاسی جماعتیں بھی آج کل لال حویلی کے اداکار کی سوچ کے مطابق ’’ستو پیئے‘‘ جرنیلوں کو سیاسی معاملات میں مداخلت پر اُکساتی نظر نہیں آ رہیں۔

یہ تمام اعترافات کرنے کے بعد بھی میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے ملک کے چند بہت ہی بااثر افراد اور حلقے یہ طے کیے بیٹھے ہیں کہ نئے انتخابات نہ ہوں اور کسی نہ کسی طرح ’’جمہوری تماشے‘‘ کو ختم کرا کر پاکستان میں ’’اہل، ایمان دار اور محب الوطن ٹیکنو کریٹس‘‘ کی حکومت بنوا دی جائے۔ یہ حکومت سیاستدانوں کا کڑا ’’احتساب‘‘ کرے اور وہ تمام غیر مقبول معاشی فیصلے نافذ کر ڈالے جو ’’ووٹوں کے محتاج‘‘ سیاست دانوں کے بس سے باہر نظر آتے ہیں۔ ’’جمہوری تماشے‘‘ کو لپیٹنے والے عناصر کا اثر اگر صرف اندرون ملک تک محدود ہوتا تو میں شاید اس کے بارے میں اتنا فکر مند نہ ہوتا، مجھے زیادہ پریشانی اس وجہ سے بھی لاحق ہونا شروع ہو گئی ہے کہ چند ٹھوس معلومات کی بدولت اب مجھے پاکستان کو معاشی مشکلات کے دنوں میں امداد فراہم کرنے والے ملکوں اور اداروں کے چند سفارتکار اور سرکردہ افراد بھی ’’جمہوری تماشے‘‘ کے خلاف کام کرتے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔

میں کل ہی آپ کو بتا چکا ہوں کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعوے دار بنے کچھ ملکوں کے اسلام آباد میں مقیم چند نوجوان سفارتکار بڑی بے تابی سے یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف قادری دھرنے میں شرکت کرنے پر کیوں تیار نہیں ہو رہی۔ اب یہ اطلاع پا کر مزید پریشانی ہو رہی ہے کہ قادری کے بلٹ پروف کنٹینر میں بہت نمایاں دکھنے والے ایک صاحب ان دنوں لندن چلے گئے ہیں۔ وہ اس شہر کیا لینے گئے ہیں؟ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب مجھے ان صاحب کا کوئی عزیز اور قریبی دوست ابھی تک نہیں دے سکا ہے۔ لندن گئے قادری کے اس مصاحب کے بارے میں میرے پاس خبر یہ بھی ہے کہ قادری ڈرامے کے پر امن اختتام کے بعد وہ ان تمام افراد کے بارے بھی ایسی معلومات بڑی دلجوئی سے اکٹھا کر رہے تھے جو عبوری حکومت کے ممکنہ وزیر اعظم ہو سکتے ہیں۔

یہ بات کافی واضح تھی کہ ارادہ یہ بنایا جا رہا ہے کہ انتخابات کے لیے بنائی جانے والی حکومت کے ممکنہ سربراہان کے خلاف ایسا مواد ملے جو ان کی کردار کشی میں معاون ہو سکے۔ فخر الدین جی ابرہیم کا نام جب چیف الیکشن کمشنر کے منصب کے لیے طے ہوا تو ’’جمہوری تماشے‘‘ کو ختم کرنے کے خواہش مند گوریلوں کے پاس ان کی ذات پر گند اُچھالنے کا وقت ہی باقی نہ رہا تھا۔ زیادہ سے زیادہ اعتراض ان کے بڑھاپے پر ہوا اور کچھ شکایات موجودہ حکومت کے قاف لیگ میں بیٹھے ’’اتحادیوں‘‘ نے کھاریاں کا ضمنی انتخاب ہارنے کے بعد اٹھائیں۔ ’’جمہوری تماشے‘‘ کو لپیٹنے کے لیے تیار بیٹھے گوریلے پوری تن دہی سے ان دنوں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ عبوری حکومت کے وزیر اعظم کا نام طے ہو جانے سے کہیں پہلے اس کے چہرے پر کالک مل دی جائے۔

عبوری حکومت کے ممکنہ سربراہوں میں ایک بڑا نام عاصمہ جہانگیر کا بھی تھا۔ میاں محمد نواز شریف کو ان کی ذات پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ مگر مولانا فضل الرحمٰن اس ضمن میں ’’دینی بنیادوں‘‘ پر اپنا کردار ادا کر چکے ہیں۔ عاصمہ بھی اپنے بجائے عدلیہ سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک نیک نام کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کو ’’فارغ‘‘ کردینے کے بعد اب توپوں کا رُخ رضا ربانی کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ موصوف نے سینیٹ کے حالیہ اجلاس میں قادری ڈرامے پر جو تنقید کی، وہ انھیں ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کا حامی ثابت کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اس تقریر کے علاوہ رضا ربانی کی ذات کے بارے میں کوئی ایسی ٹھوس بات نہیں مل پا رہی جو اس نیک طنیت سیاست دان کو ’’عادی بدعنوان‘‘ ثابت کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکے۔

مجھے ہرگز یہ خبر نہیں کہ بالآخر کون حکومت اور حزبِ مخالف کی آئینی طور پر ضروری ٹھہرائی مشاورت کے ذریعے انتخابات کے لیے بنائی جانے والی حکومت کا سربراہ بنایا جائے گا۔ مگر ایک بات اٹل ہے۔ جو بھی اس منصب پر فائز ہوا کینیڈا سے آیا قادری اس کے خلاف اعلان جنگ کر دے گا۔ مجھے ہر گز حیرت نہ ہو گی کہ اگر وہ اس بار عبوری حکومت کے وزیر اعظم کے خلاف شور و غوغا مچائے تو گجرات کے چوہدری بھی اس کے حامی بن جائیں اور شاید بالآخر کسی وقت تحریک انصاف بھی۔ ایم کیو ایم بھی اس کے ہمنوا بن سکتی ہے۔

مگر اس ہم نوائی کا اصل انحصار اس بات پر ہو گا کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کرانے کے ضمن میں فخر الدین جی ابراہیم کی رائے سے سپریم کورٹ اتفاق کرتی ہے یا نہیں۔ فرض کیا عبوری حکومت کے ممکنہ وزیر اعظم کے خلاف رچایا ڈرامہ قادری کے اسلام آباد والے دھرنے کی طرح ٹائیں ٹائیں فش فش ہو گیا تو بالآخر پرویز مشرف کو استعمال کرنا ضروری ہو جائے گا۔ وہ بھی کینیڈا سے آئے قادری کی طرح اچانک نمودار ہو کر جمہوری کھیل بگاڑ سکتے ہیں۔ جمہوری نظام کے مشتریو ہوشیار باش۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔