جنرل باجوہ کے خطاب کی ٹائمنگ

تنویر قیصر شاہد  پير 22 مئ 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے،آئی ایس پی آر، کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور صاحب نے چارج سنبھالا تو میری اُن سے تفصیلی ملاقات ہُوئی۔اُن کے مرکزی دفتر میں۔اُن کے پیشرو(جنرل عاصم) بھی اپنے متعینہ فرائض کی بجا آوری میں خاصے مستعد تھے اور جناب آصف غفور کی مستعدی بھی کسی سے کم نہیں۔

عالمی سطح پر میڈیا کی دنیا میں پاکستان کو جن خطرات نے گھیر رکھا ہے،اس پیش منظر میں آخر کچھ سوچ کر ہی افواجِ پاکستان کے بڑوں، خصوصاًجنرل قمر جاوید باجوہ ، نے آئی ایس پی آر کی سربراہی کے لیے میجر جنرل آصف غفور کا انتخاب کیا ہوگا۔ نہایت چوکنے اور بیدار مغز آصف غفور صاحب سے گفتگو کے دوران اندازہ ہو رہاتھا کہ اُنہیں سامنے پڑے بے شمار مسائل کا بھرپور ادراک بھی ہے اور یہ امید بھی کہ سب بحران عارضی ہیں کہ اللہ پاک نے پاکستان، پاکستانی عوام اور افواجِ پاکستان کو اتنی صلاحیتوں اور توانائیوں سے نواز رکھا ہے کہ باہمی تعاون سے سب مسائل پر قابو پانااور دشمن کے پھیلائے گئے منفی پروپیگنڈوں کا توڑ کوئی ناممکن مرحلہ نہیں ہے۔

18مئی 2017ء کو پاکستان آرمی کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں جس شاندار سیمینار کا اہتمام کیا گیا،یہ دراصل اِنہی میجر جنرل آصف غفور اور اُن کے ساتھیوں کے زرخیز ذہن کی پیداوار تھا۔اس سیمینار کا موضوع،اس کے منتخب شرکت کنندگان، تقاریر،لوگوں کے سوال و جواب اور سب سے بڑھ کر سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ کا خصوصی خطاب،دلکشا بھی تھا،وقت کی اہم ضرورت بھی اور اندرونِ ملک و بیرونِ ملک ہر قسم کے سامعین کو ایک واضح اور کھلا پیغام بھی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقریر کے مخاطبین دراصل ہمارے ملک کے نوجوان تھے جن کی تعداد ملکی آبادی کا پچاس فیصد ہے اور ان میں سے اکثریت کی عمریں 25 برس ہیں۔ گویا اِنہی نوجوانوں نے اِس مملکتِ خدادا کو سنبھالنا اور سنوارنا ہے؛چنانچہ اِسی قیمتی ملکی سرمائے کو سنبھالنا اور بچانا ہمارا پہلا اور آخری فریضہ و ہدف ہونا چاہیے۔

اِسی پس منظر میں سیمینار کا عنوان بھی سوچ بچار کے بعد نہایت موزوں اور مناسب رکھا گیا تھا:Role of Youth in Rejecting Extremismآئی ایس پی آر کے ساتھ ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘‘(HEC)کا بھی تعاون برابر کا تھا؛ چنانچہ ہم نے ’’ایچ ای سی‘‘ کے سربراہ عزت مآب ڈاکٹر مختار احمد صاحب کو بھی جنرل باجوہ اورمیجر جنرل آصف غفور کے شانہ بشانہ وہاں موجود پایا۔ اُن کے ساتھ پاکستان کی کئی دیگر نامور یونیورسٹیوں کے کئی محترم وائس چانسلرزبھی اپنے وجودِ مسعود کے ساتھ وہاں موجود تھے۔

مثال کے طور پر: پنجاب یونیورسٹی کے وی سی پروفیسر ڈاکٹر ظفر صاحب،شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کے وی سی قاضی خالد صاحب، ایبٹ آباد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وی سی ڈاکٹر افتخار احمد، سندھ کی جناح یونیورسٹی کے وی سی طارق رفیع صاحب! تنوع، دانشمندی اور دانشوری کے ہر پہلو سے یہ سیمینار کہکشاں کی طرح جگمگا رہا تھا۔ کچھ اخبار نویس اسٹیج پر بٹھائی گئی بعض سویلین شخصیات پر بلند آواز میں تنقید کرتے بھی پائے گئے۔

دہشتگردی اور دہشتگرد وطنِ عزیز کے لیے بہت بڑی لعنت بن چکے ہیں۔ ملعون دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے حقیقی معنوں میں پاکستانی قوم نے اتنی زیادہ اور بڑی قربانیاں دی ہیں کہ شائد ہی دنیا بھر میں کسی قوم نے دی ہوں۔ یہ بھی سچ ہے کہ دہشتگردی کا خاتمہ کرتے کرتے پاکستان کا مالی لحاظ سے کچومر نکل گیا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ افواجِ پاکستان نے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے اور دہشتگردوں کے منحوس وجود کے خاتمے کے لیے اتنی جانی قربانیاں دی ہیں کہ شائد ہی دنیا میں کسی ملک کی فوج نے اس مقصد کی خاطر اپنا اتنا خون بہایا ہو؛ چنانچہ سیمینار سے خطاب کرتے ہُوئے جنرل باجوہ کا یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ ہم نے اپنی جانوں کے بدلے دہشتگردی کی خونی لہر کو پلٹا کر رکھ دیا ہے۔ اُن کا یہ کہنا بھی بجا تھا کہ ملک میں  ناقص حکمرانی اور عدم انصاف کی وجہ سے دشمن طاقتیں ہمارے نوجوانوں کا استحصال بھی کرتی ہیں اور اُنہیں اپنے ڈھب پر بھی لانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ یہ ہمارا المیہ ہے۔

جنرل صاحب کو مگر یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ 80ء کے عشرے میںجب نوجوانوں کو جہادِ افغانستان کے نام پر شدت پسندی اور انتہا پسندی کی طرف مائل کیا جا رہا تھا تو اُس وقت یہ قصور کس کا تھا؟ کیا یہ عوام کے مفاد میں تھا؟ کیا کسی سیمینار میں  یاعوام یا دانشوروں سے پوچھ کر جہادی آگ میں کودنے کا فیصلہ کیا گیا تھا؟

جنرل باجوہ کے خطاب میں بلوچستان میں بھارتی دہشتگردی کی درست نشاندہی تو کی گئی لیکن المیہ پھر یہی ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارتی دراندازیوں کے جرائم کے ثبوت کسی عالمی فورم میں کیوں پیش نہیں کیے جاتے؟ اور اگر پیش کیے جاتے ہیں تو عالمی قوتوں کے کانوں پر اثر کیوں نہیں ہورہا؟اِس کا ذمے دار کون ہے؟

مذکورہ سیمینار سے جنرل قمر جاوید باجوہ کے خطاب کی ٹائمنگ بڑی اہم تھی۔ جس وقت جنرل باجوہ جی ایچ کیو میں خطاب کر رہے تھے، عین اُسی وقت جنیوا کی عالمی عدالتِ انصاف پاکستان میں گرفتار کیے گئے بھارتی جاسوس اور دہشتگرد (کلبھوشن یادیو)کے بارے میں ابتدائی فیصلہ سنا رہی تھی۔پاکستان کی فوجی عدالت اس دشمنِ پاکستان کو سزائے موت بھی سنا چکی ہے۔

سیمینار کے دوران جنرل باجوہ نے یہ بتا کر بھی سب کو ششدر کر دیا کہ عالمی عدالتِ انصاف (جہاں بھارت سرکار اپنے جاسوس کی گلو خلاصی کے لیے پوری تیاری کے ساتھ آئی) میں پاکستان کی طرف سے وکیل بھی ہم نے بھیجا تھا (تاکہ کلبھوشن کے بارے میں بھارت کو کامیابی نہ مل سکے) جنرل صاحب کے انکشاف سے بہت سی بھنویں تَن گئیں۔ وکیل کا بندوبست فوج کی طرف سے کیوں کیا گیا؟ حکومتِ پاکستان کی طرف سے کیوں نہ کیا گیا؟ کیا کلبھوشن کا معاملہ صرف فوج کی درد سری ہے؟

پاکستانی وکیل ( خاور قریشی) کو دی گئی فیس بھی وجہ تنازع بنا دی گئی ہے، خصوصاً اِس خبر کے سامنے آنے کے بعد کہ بھارتی وکیل (ہریش سالو) نے کلبھوشن کا مقدمہ لڑنے کے لیے صرف ایک روپیہ فیس وصول کی۔ عالمی عدالتِ انصاف نے کلبھوشن کے بارے میں جو وقتی اور عارضی فیصلہ دیا ہے، پاکستان میں یار لوگوں نے اس کے اتنے رنگ برنگے ترجمے کیے اور توجیہیں کی ہیں کہ حقیقت کہیں درمیان میں کھو کر رہ گئی ہے۔

شور اتنا پریشان کن ہُوا کہ وزیراعظم کے مشیرِ امورِ خارجہ جناب سرتاج عزیز کو 20 مئی بروز ہفتہ ہنگامی طور پر اسلام آباد میں مدیرانِ اخبارات اور ٹی وی اینکروں سے ملاقات کرنا پڑی ہے۔ مدعا اور مقصد یہی تھا کہ ملعون کلبھوشن کے بارے عالمی عدالتِ انصاف کے الفاظ کو صحیح پس منظر میں دیکھا جائے۔اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ وکیل خاور قریشی کا انتخاب ہمارا متفقہ فیصلہ تھا۔ جنھوں نے مگر ان الفاظ کو اپنے مقاصد کے تحت’’ترجمہ‘‘ کرنا ہے، وہ سر تاج عزیز صاحب کی وضاحتوں کو ماننے اورقبولنے پر تیار نہیں ہیں۔ تو کیا بھارتی میڈیا کا پروپیگنڈہ اپنا اثر دکھا رہا ہے؟

یہ دشمن کی کامیابی نہیں؟ یہی تو جنرل باجوہ کہہ رہے تھے کہ دشمن کے بیانئے کا مقابلہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ جنرل باجوہ کے خطاب کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اُن کی تقریر کے دو دن بعد عالمِ اسلام میں دو بڑے واقعات ہُوئے ہیں: ایران میں صدارتی انتخابات کے نتائج اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورئہ سعودی عرب۔ ایران میں معتدل سوچ کے حامل جناب حسن روحانی دوبارہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے ہیں، حالانکہ ایرانی سپریم لیڈر جناب آیت اللہ خامنہ ای  اُن کے مخالف تھے۔

امریکی صدر کے دورئہ سعودی عرب کا مرکزی مقصد تو یہ تھا کہ سعودیہ کو 110ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے جائیں۔ دوسرا بڑا مبینہ مقصد یہ تھا کہ سعودی عرب، امریکا اور عالم ِ اسلام کے چالیس ممالک مل کر دہشتگردی کے خلاف جنگ کی حکمتِ عملی تیار کریں۔جنرل باجوہ کے خطاب کا مرکزی خیال بھی تو یہی تھا کہ دہشتگردی کے عفریت کو کس طرح لگام ڈالی جا سکتی ہے۔اُن کے غیر مبہم الفاظ کی بازگشت یقینا واشنگٹن،نئی دہلی،تہران اور ریاض پہنچی ہوگی۔یوں اُن کے خطاب کی ٹائمنگ خاصی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔