سی پیک کے ثمرات سمیٹنے کیلئے قومی یکجہتی ضروری ہے!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 22 مئ 2017
ایکسپریس میڈیا گروپ اور فاسٹ مارکیٹنگ کے زیر اہتمام ’لاہور میں منعقدہ سیمینار میں شرکاء کی گفتگو۔ فوٹو: ایکپسریس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور فاسٹ مارکیٹنگ کے زیر اہتمام ’لاہور میں منعقدہ سیمینار میں شرکاء کی گفتگو۔ فوٹو: ایکپسریس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور فاسٹ مارکیٹنگ کے زیر اہتمام لاہور کے مقامی ہوٹل میں ’’ سی پیک: ترجیحات اور چیلنجز‘‘ کے موضوع پرگزشتہ دنوں ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ،ترقی و اصلاحات احسن اقبال تھے جبکہ مقررین میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ، لاہور میں تعینات چینی کونسل جنرل لانگ ڈنگ بن، پنجاب حکومت کے ترجمان ملک محمد احمد، سینئر صحافی عارف نظامی، ایکسپریس پبلی کیشنز کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر اعجاز الحق، شعبہ پاکستان اسٹڈیز بیجنگ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پروفیسر تنگ منگ شنگ اور فاسٹ مارکیٹنگ کے ڈائریکٹر نعمان باجوہ شامل تھے۔

سیمینار میں روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر ایاز خان اور فاسٹ مارکیٹنگ کے سی ای او اصغر گورائیہ نے خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر صنعتکاروں، تاجر برادری کے نمائندوں، متعدد میڈیا گروپس کے مدیران اور اساتذہ سمیت طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی ۔ مقررین نے سی پیک کے حوالے سے ملک بھر میں خصوصی سیمینار منعقد کرانے پر ایکسپریس میڈیا گروپ کو خراج تحسین پیش کیا۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

احسن اقبال (وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ،ترقی و اصلاحات)

میں ایکسپریس میڈیا گروپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جس نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر ملک بھرمیں سیمینارزکا سلسلہ شروع کیا ہے۔سی پیک پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین منصوبہ ہے جس کی کامیابی کے لیے عوامی آگہی انتہائی ضروری ہے۔ قمرزمان کائرہ ایک بڑی جماعت کے مرکزی رہنما ہیں مگر شاید ان کے پاس سی پیک کے حوالے سے معلومات نامکمل ہیں۔ انہوں اپنی تقریرمیں جتنے نکات اٹھائے ان کے جوابات پہلے ہی مختلف فورمزپر دیئے جاچکے ہیں۔

سندھ کے موجودہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ پہلے بطور سینئر وزیراوراب بطور وزیر اعلیٰ سی پیک کے حوالے سے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ سی پیک کے حوالے سے چین میں ہونے والی پہلی میٹنگ میں مراد علی شاہ موجود تھے جبکہ چھٹی جے سی سی میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شامل تھے اور سب نے اتفاق رائے سے سی پیک کے منصوبوں کی توثیق کی اور یہ اعلان کیا تمام صوبائی حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اس پر متحد ہیں۔

میرے نزدیک اب اس منصوبے پر سوالات اٹھانا خیر خواہی نہیں ہے۔ 20 ویں صدی سیاسی نظریات کی صدی تھی جبکہ اکیسویں صدی اقتصادیات کی صدی ہے۔دنیا میں سیاسی بلاکس کا دورختم ہوچکا ہے بلکہ اب دنیا بڑی معاشی طاقتوں کے لحاظ سے G8 اور G20 میںتقسیم ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جس میں قوموں کی سلامتی اور بقاء ان کی معاشی طاقت پر ہے۔ ماضی میں ہم نے اقتصادی ماڈل نہیں اپنایا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔

پہلی مرتبہ اقتصادی رُخ میں ایک ٹھوس تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ہم جیو پالیٹکس کے مدار سے نکل کر جیواکنامکس کے مدار میں آئیں۔پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے اس خطے کی تجارت کا سبب بن سکتا ہے لیکن یہ مرکزی کردار ادا کرنے کیلئے ہمیں محنت کرنی پڑے گی اور ’’میڈاِن‘ ‘پاکستان کے معیار کو دنیا میں منوانا ہوگا۔ سرمایہ کاروں کو یہاں سرمایہ کاری پر رضامند کرنے کیلئے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔سرمایہ دار کو جہاں امن، استحکام اور اچھی پالیسیاں ملیں گی، وہاں سرمایہ کاری کرے گا۔ پسماندہ ملک کے پاس سستی لیبر اور کم پیدارواری لاگت ہوتی ہے لہٰذا ترقی یافتہ ممالک سے ، سرمایہ کاروں کو پرکشش مراعات دیکر پسماندہ ملک میں لایا جاتا ہے۔

سی پیک نہ صرف پاکستان کی ترقی کا منصوبہ ہے بلکہ اس سے خطے کا جیو اکنامکس توازن بھی تبدیل ہوجائے گا۔ چین سے انڈسٹری اس لیے پاکستان منتقل ہورہی ہے کیونکہ ہم سی پیک میں پارٹنر ہیں، چین کی لیڈر شپ چاہتی ہے کہ پاکستان صنعتکاری کی راہ پر گامزن ہو۔ سی پیک کسی گزرگاہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک فریم ورک کا نام ہے جس میں چار منصوبے شامل ہیں۔پہلا ستون گوادر پورٹ ہے جسے جدید ترین بندرگاہ بنایا جائے گا۔ چین کی ایک بڑی کمپنی گوادر کو سمارٹ پورٹ سٹی بنانے کے ماسٹر پلان پر کام کررہی ہے لہٰذا آئندہ 20سے 30 برسوں میں گوادر ، ہانگ کانگ اور سنگاپور کی طرز کا پورٹ سٹی بن چکا ہوگا۔

46ارب ڈالر جو ابتدائی سرمایہ کاری تھی اس میں سے 35 ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں پرخرچ ہوں گے۔ یہ قرض نہیں ہے بلکہ نجی سرمایہ کاری ہے جو آئی پی پی بورڈ ہے۔ 11 ارب ڈالر جو انفراسٹرکچر کیلئے ہے یہ دوفیصد مارک اپ پر20 سے25سال کی فنانسنگ ہے جو تقریبا بلا سود قرض ہے۔ بجلی کے منصوبوں پر 4سے 5سال لگتے ہیں۔ مئی 2017سے مئی 2018کے دوران توانائی کے جو منصوبے مکمل ہوں گے ان سے 10 ہزار میگا واٹ نئی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوجائے گی جو ہماری ملکی کانیا ریکارڈ ہے۔

1947ء سے لیکر 2016ء تک ہم 16ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتے تھے جبکہ 4سالوں میں ہم 10ہزار میگا واٹ بجلی شامل کردیں گے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ 35ارب ڈالر میں سے 9.1 ارب ڈالر حصہ سندھ کا ہے جو سب سے زیادہ ہے، دوسرے نمبرپر بلوچستان ہے جبکہ پنجاب کا نمبرتیسرا ہے ۔ خیبر پختونخوا کے وہ پسماندہ علاقے جو پاکستان کی ترقی کے مراکز سے کٹے ہوئے تھے انہیں گوادر کے ساتھ جوڑ کر خیبر پختونخوا کی ترقی کا عمل شروع کیا جارہا ہے۔

گلگت میں فائبر آپٹک کیبل بچھائی جارہی ہے جس سے وہاں لاہور اور کراچی کی طرز کے سافٹ ویئر پارک بن سکیں گے اور گلگت بلتستان ڈیجیٹل انقلاب میں شامل ہوجائے گا۔ 70سال سے ہمارے پاس تھرکول کا کوئلہ موجود ہے جس کی اتنی صلاحیت ہے کہ اگر ہم سالانہ 5ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کریں تو 400 سال کیلئے بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ سی پیک کے نتیجے میں تھر پاکستان کا انرجی سینٹربننے جارہاہے جو سندھ کا پسماندہ ترین علاقہ ہے۔ سی پیک کے تحت مغربی، مشرقی اور وسطی روٹ بنائے جارہے ہیں۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ اس حکومت کو صرف سڑکیں بنانے کا خبط ہے ، انہیں معلوم نہیں کہ چین، کوریا، ملائشیا، جرمنی ، امریکا غرض کے سب نے ترقی کے پہلے مرحلے میں سڑکیں بنائیں کیونکہ انفراسٹرکچر کے بغیر معیشت کھڑی نہیں ہوسکتی۔ جدید انفراسٹرکچر کو سیاسیت کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر ترقی ممکن نہیں ۔ ہم پاکستان کو ایک ماڈرن معیشت بنانا چاہتے ہیں۔

ہم نے تمام صوبوں کی مشاورت سے سی پیک کے تحت 9 انڈسٹریل زونز کے قیام پر اتفاق کیا ہے، یہ زونز ہر صوبے کی ذمہ داری ہیں تاکہ وفاقی حکومت پر کوئی اعتراض نہ کرسکے۔ ہم چین کی کمپنیوں کو آفر کررہے ہیں کہ دنیا کے کسی اور ملک میں جانے کے بجائے پاکستان میں آئیں تاکہ لوگوں کو روزگار ملے۔ ویژن 2025ء میں ساتواں ستون علاقائی تعاون ہے، ہم اس خطے میں رابطے سے پاکستان کو تجارت اور اقتصادیات کا مرکز بنائیںگے۔

قمر زمان کائرہ ( مرکزی رہنما پاکستان پیپلزپارٹی)

سی پیک کی بنیاد جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں رکھی گئی۔اس وقت گوادر پورٹ پر کام شروع ہوا اور چینی سرمایہ کاری یہاں آئی۔ ہم نے بھی اس پر خصوصی کام کیا اور آصف علی زرداری نے چین کے بہت سارے دورے کیے جن کا مقصد یہی راہداری منصوبہ تھا۔ موجودہ حکومت نے ہمارے دور کے معاہدوں کو مزید آگے بڑھا یا اور تیزی سے کام شروع کیا جو لائق تحسین ہے ۔یہ منصوبہ یقیناً گیم چینجر ہے۔ تمام جماعتیں اس پر متفق ہیں اور اس حوالے سے قومی اتفاق رائے موجود ہے۔ اس منصوبے پرصوبوں نے سوالات اٹھائے ، حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر سب کے تحفظات دور کرے۔

وزیراعلیٰ پنجاب چین کے ہر دورے پر وزیراعظم کے ساتھ ہوتے ہیں انہیں دیگر وزرائے اعلیٰ کو بھی ساتھ لیجانا چاہیے تاکہ اعتماد پیدا ہوسکے۔ جب دیگر صوبوں کی حکومتوں نے اس منصوبے کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے تو پیپلز پارٹی نے اس پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی تاکہ قومی منصوبے پر تحفظات دور کیے جاسکیں۔ یہ منصوبہ پاکستان کا مستقبل ہے لہٰذا ہم اسے متنازعہ نہیں بننے دیں گے تاہم جو سوالات اٹھے ہیں ان کا جواب ضرور دینا چاہیے۔ میں اسمبلی کا رکن ہوں لیکن مجھے اس منصوبے کے بارے میں علم نہیں ہے حالانکہ حکومت جومعاہدے کررہی ہے ان کے بارے میں جاننا پارلیمان کا حق ہے۔

انفراسٹرکچر کے حوالے سے چینی حکومت ہمیں 25سال کیلئے 1.6فیصد کی شرح پر قرض دے رہی ہے جبکہ باقی رقم عالمی قوانین کے مطابق 5فیصد شرح پر بطور قرض لی جا رہی ہے ۔ ہم نے اپنے دور میںہائیڈل منصوبوں پر بات چیت کی ۔ ہماری کوشش تھی کہ دریائے انڈس پر منصوبے لگائے جائیں۔ موجودہ حکومت نے ان منصوبوں کو چھوڑ کر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام شروع دیا جن پر بہت سارے سوالات اٹھے کہ کیا یہ عالمی معیار کے مطابق ریٹ پر دیئے گئے ہیں ؟

انڈسٹریل زونز کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے اور بزنس کمیونٹی کو بھی اس پر تحفظات ہیں۔ چین سے کیا معاملات طے ہوئے ہیں عوام کو بروقت بتانا چاہیے لیکن اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو پھر مزید سوالات اٹھیں گے۔ چین کی اپنی لیبر باصلاحیت ہے، سوال یہ ہے کہ وہ یہاں انڈسٹری کیوں لگائیں گے؟ سی پیک ایک بہت بڑا منصوبہ ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اعتماد قائم کرنا ہوگا۔

لانگ ڈنگ بن (چینی قونصل جنرل لاہور)

سی پیک ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کا اہم اور بڑا حصہ ہے۔ اپریل 2015ء میں اس کے آغاز کے ساتھ ہی یہ دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران میں نے پنجاب میں ہونیوالے سی پیک کے تمام منصوبوں کا دورہ کیا ہے۔ جس کے بعد میں بے حد خوش اور مطمئن ہوں کہ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی قیادت میں سی پیک کے منصوبے تیزی سے تکمیل کی طرف بڑھ رہے ہیں جو انتہائی اہم بات ہے۔ 300میگا واٹ کا سولر پاور منصوبہ مکمل ہوچکا ہے اور یہ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوچکی ہے۔ ساہیوال میں 1320میگا واٹ کا کول پاور پلانٹ تکمیل کے مراحل میں ہے اور جون میں مکمل ہوجائے گا۔ 392کلومیٹر کی موٹر وے بھی زیر تعمیر ہے۔

لاہور میں اورنج لائن منصوبہ بھی تیزی سے تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے، یہ منصوبہ لوگوں کو پرُسکون اور آرام دہ سفر مہیا کرے گا۔ میںوزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی ٹیم کو بہتر کاکردگی پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔سی پیک صرف چند منصوبوں کا نام نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان رابطوں، بڑے پیمانے پر دنیا کے ساتھ تجارت اور خطے کی معیشت کی بہتری کا نام ہے۔ پاک چین دوستی صرف سی پیک نہیں ہے بلکہ اس منصوبے سے دونوں ممالک کی دوستی ایک نئی جہت میں داخل ہوگئی ہے، یہ منصوبہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے انتہائی سود مندثابت ہوگا۔ پاک چین دوستی پائندہ باد!

ملک محمد احمد (ترجمان پنجاب حکومت )

سی پیک کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب بہت متحرک ہیں اور یہ منصوبہ ان کے دل کے قریب ہے۔ سی پیک سے سوشل انفرا سٹرکچر میں بہتری آرہی ہے۔ خادم اعلیٰ روشن پروگرام کے تحت سکولوں کو روشن کرنے کیلئے 154 سے زائد چینی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی خواہش کی ہے۔ کچھ عرصہ قبل بلوچی طلباء کا وفد وزیراعلیٰ پنجاب سے ملا۔ ان میں سے بعض طلباء نے کہا کہ پنجاب بڑا بھائی ہے، میٹرو منصوبے، سڑکیں و دیگر منصوبے پنجاب میں ہورہے ہیں، کیا گوادر کے نام پر لیا گیا پیسہ لاہور میں تو نہیں لگایا جارہا؟

اس بات سے محسوس ہوا کہ نچلی سطح پر سی پیک کا درست تاثر نہیں پہنچ رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ سی پیک کے تحت توانائی کے سب سے بڑے منصوبے سندھ میں ہیں اور ریلوے انفراسٹرکچر کے حوالے سے سب سے زیادہ حصہ خیبرپختونخوا کا ہے۔ ہم سیاسی استحکام کے لیے کوشاں ہیں اور پنجاب حکومت اس حوالے سے بہتر کام کررہی ہے۔ پنجاب حکومت نے طلباء کو چین بھیجا ہے جو چینی زبان سیکھ رہے ہیں، طلباء وہاں حصول تعلیم کیلئے جاتے رہیں گے جس سے بہتری آئے گی۔

عارف نظامی (سینئر صحافی)

کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور قومی یکجہتی ضروری ہے، میں پروفیسر تنگ منگ شنگ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں،ہمیںسیاسی استحکام اور قومی یکجہتی کو مزید فروغ دینا چاہیے۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ہم جمہوریت کو بہت آگے تک لے گئے ہیں مگر سیاستدانوں کی محاظ آرائیوں اور ٹی وی اینکرز کی خواہشوں کی وجہ سے ہم نے سی پیک کا مزہ خراب کر دیا ہے۔ ہم نے سیاست کو گیم بنا دیا ہے جس کی وجہ سے شاید ہم سی پیک کی ترقی کے اہداف کی تکمیل نہیں کر پائیں گے۔

ہمیں چین جیسا استحکام تو شاید نصیب نہ ہو لیکن سی پیک و دیگر قومی مفاد کی چیزوں پر اتحاد ہونا چاہیے مگر ہمارے ہاںایسا نہیں ہے اور میرے نزدیک اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ سی پیک میں سڑکیں، موٹر ویز، کوئلے سے بجلی کے منصوبے و دیگر ترقیاتی کام شامل ہیں۔ ہمارے لیے یہ بات باعث فخر ہے کہ گزشتہ سال چین سے ایک قافلہ گوادر کے راستے افریقہ چلا گیا۔ سی پیک کے حوالے سے صوبوں کے تحفظات ہیں، احسن اقبال نے انہیں دور کرنے کی کوشش کی ہے مگر شاید ابھی ان کے کچھ سوالات کے جوابات باقی ہیں یا پھر صوبے اس پر بھی سیاست کرنا چاہتے ہیں، میرے نزدیک اسے سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہیے۔

نوازشریف کو اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر معاملات ٹھیک کرنے چاہئیں۔ سی پیک کی بھارت کو بہت تکلیف ہے کیونکہ چین نے اسے شامل نہیں کیا۔ چین میں ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس میں نوازشریف کا جانا اور مودی کا وہاں نہ ہونا پاکستان کی کامیابی ہے، اس سے پاک چین تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ بجٹ کی آمد آمد ہے، ہمیں ملکی معاشی صورتحال ، سی پیک و دیگر اہم چیزوں کو بھی دیکھنا ہوگا۔

اعجازالحق (چیف ایگزیکٹو آفیسر ایکسپریس پبلی کیشنز)

ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے سی پیک کے موضو ع پر اسلام آباد اور کراچی کے بعد اب لاہور میں سیمینار منعقد کیا گیا، یہ سلسلہ جاری ہے جس کے تحت خیبر پختونخو ا، گوادر اور دیگر شہروں میں بھی سیمینار منعقد کیے جائیں گے۔ ان سیمینارز کا بنیادی مقصد عوام کو اس اہم منصوبے کے بارے میں آگاہی دینا ہے کیونکہ اس وقت سی پیک ہماری زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ بطور میڈیا ہاؤس ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس کے صرف مثبت پہلو سامنے لائے جائیں بلکہ اگر اس میں کہیں خرابی ہے تو اس کی بھی نشاندہی کی جائے۔

یہی وجہ ہے کہ اس سیمینار میں اپوزیشن کے نمائندے بھی موجود ہیں۔ ان سیمینارز کا مقصد یہ ہے کہ عام آدمی کو اس منصوبے کے ثمرات ، فوائد اور حقائق کا علم ہو سکے اور یہ چیز اعتماد سازی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے جیو پولیٹیکل صورتحال میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے جو اہمیت کی حامل ہے، اس ضمن میں حکومت کیا کررہی ہے اس کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

پروفیسر تنگ منگ شنگ (ڈائریکٹر شعبہ پاکستان اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ ،بیجنگ یونیورسٹی)

آج سے 40برس قبل جب امریکا، چین کیلئے مسائل پیدا کرتا تھا تو اس وقت دنیا میں صرف پاکستان، چین کے ساتھ کھڑا تھا۔ جب ہم نے ’’اوپن پالیسی‘‘ کا آغاز کیا تو پاکستان نے ہمیں راستہ دیا۔ چین میں روایت ہے کہ اگر کوئی ہماری تھوڑی مدد کرے تو ہم پوری زندگی اس کا احسان نہیں بھولتے اور اس سے زیادہ واپس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لیے چینی وزیراعظم نے کہا کہ اگر آپ چین سے محبت کرتے ہیں تو پاکستان سے بھی کرلیں۔

2015ء میں جب چینی صدر پاکستا ن آئے تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مدد چین کی مدد کے برابر ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین پاکستان کی ترقی اور پاکستانیوں کی فلاح و بہبود دل سے چاہتا ہے۔ یہ سب کے سامنے ہے کہ چین کے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘منصوبے کے تحت کسی ملک میں اتنی ترقی نہیں ہوئی جتنی پاکستان میں ہوئی ہے۔ اب تو سی پیک کے تحت پاکستان میں 39منصوبے شروع ہورہے ہیں جن میں سے 19 منصوبے رواں سال یا آئندہ برس مکمل ہوجائیں گے۔

ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے دنیا کے بے شمار ممالک کے ساتھ منصوبے ہیں مگر اس میں پاکستان نمبر ’’ون ‘‘ ہے۔ چین ، پاکستان کی ترقی اور اسے مضبوط بنانا اپنا فرض سمجھتا ہے کیونکہ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں چین کا ساتھ دیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مضبوط اور مستحکم پاکستان چین کے لیے بہتر ہے۔ پاکستان کا استحکام چین کا استحکام ہے اورسی پیک پاکستان کی ترقی کا اہم موقع ہے۔ میں پاکستانیوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ترقی کے اس راستے پر چلنے کیلئے تیار ہیں؟

بہت سارے لوگوں نے کہا کہ ہم تیار ہیں اور چاہتے ہیں کہ چینی سرمایہ کاری یہاں آجائے۔ میں نے کہا کہ یہ سرمایہ کاری بیکار ہے کیونکہ ایک ملک کی ترقی کیلئے سب سے اہم قومی یکجہتی ہے جبکہ ترقی کا دوسرا راز سیاسی استحکام ہے۔ اگر سیاسی استحکام نہ ہو تو معاشی ترقی میں مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ پاکستان کو ان دو چیزوں کے ساتھ ساتھ تعلیم پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ سی پیک سے فائدہ اٹھانے کیلئے اعلیٰ درجے کے قابل طلباء اور پڑھے لکھے مزدور چاہئیں۔تعلیم کے حوالے سے چینی یونیورسٹیاں پاکستان کے ساتھ تعاون کررہی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ہر میدان میںترقی کرے اور سی پیک سے فائدہ اٹھائے۔

نعمان باجوہ (ڈائریکٹرفاسٹ مارکیٹنگ )

ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے سی پیک سیمینارز کا اقدام قابل ستائش ہے۔ ہم اسلام آباد اور کراچی میں سی پیک سیمینار کے پارٹنر تھے اور آئندہ بھی اس کا حصہ رہیں گے۔ہماری نظریں ملک میں گروتھ کاریڈور پر لگی ہوئی ہیں اور اس کے تحت ہم نے کمرشل و رہائشی منصوبوں سمیت متعدد منصوبے شروع کررکھے ہیں جن میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ اقتصادی راہداری سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے اور 10سالہ، 15سالہ منصوبہ بندی کے تحت کام کیا جائے کہ ہمیں آنے والے برسوں میں کس قسم کے وسائل چاہئیں۔

پاکستان کے روشن مستقبل کے حوالے سے اداروں کی کیپسٹی بلڈنگ کلیدی اہمیت رکھتی ہے لہٰذا ہمیں اپنی بندرگاہوں ، اداروں اور لوگوں کی صلاحیت بہتر کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ اداروں کے مابین رابطوں اور ملکر کام کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جائے تاکہ ہم دنیا میں ایک موثر ترین بندرگاہ والا ملک بن کر ابھر سکیں۔ ہمارے پاس تمام وسائل موجود ہیں ۔ دنیا میں جو بہترین بندرگاہیں موجود ہیں ہمیں ان کی طرز پر کام کرنا چاہیے، ان کے ماہرین کی رائے لینی چاہیے اوراپنے لوگوں کی تربیت کرنی چاہیے تاکہ ان کی صلاحیتوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔