پاکستانی عوام اور جمہوریت

شاہد علی  پير 22 مئ 2017
جس عوام پر ظلم ہورہا ہے وہی اُن حکمرانون اور کرپٹ سیاست دانوں کی خاطر لڑ، مر کر دوبارہ انہی کو منتخب کر کے حکمرانی کا شرف بخش دیتی ہے۔ فوٹو: فائل

جس عوام پر ظلم ہورہا ہے وہی اُن حکمرانون اور کرپٹ سیاست دانوں کی خاطر لڑ، مر کر دوبارہ انہی کو منتخب کر کے حکمرانی کا شرف بخش دیتی ہے۔ فوٹو: فائل

 پاکستان کی نام نہاد جمہوریت کو پھلتے پھولتے ایک عرصہ گزر گیا، اور آج بھی جب ٹی وی چینل پر حکومت اور اپوزیشن کے نمائندگان ٹاک شوز سمیت جہاں بھی موقع ملے آمریت کا رونا روتے ہیں، بجائے اِس کے وہ اپنی کارکردگی بتائیں۔ لیکن اس جمہوریت کا حُسن تو کوئی جمہور سے ہی پوچھے۔ جمہوری حکومت اور اداروں نے سنورنے کے بجائے مزید بگڑنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔

آج میں سرکار کے چند اہم اداروں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کے ساتھ ہم جیسی غریب عوام کا واسطہ پڑتا ہے اور جہاں سے ہمیں خواری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

 واپڈا

کیا کہنا اِس ادارے کے تقریباً تمام ہی ملازمین نے کرپشن میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ بجلی آئے نہ آئے، لوڈ شیڈنگ کم از کم 14 گھنٹے، میٹر چینج فیس کے نام پر وصولی اور ظلم کی انتہا دیکھیں کہ فیس ادا کرنے کے باوجود میٹر تبدیل نہیں کئے جارہے اور اضافی بل بھیجا جارہا ہے۔ اگر پوچھا جائےاتنا بل کیوں؟ تو جواب میں کہتے ہیں کہ ایوریج یونٹ بل آتا رہے گا جب تک میٹرتبدیل نہیں ہوتا۔ اور اگر کوئی مزدور دس بارہ ہزار کمانے والا انکار کرے تو میٹرکاٹ دیتے ہیں۔

 پولیس

جرم روکنا، دہشت گردی سے بچاؤ اور چوری پکڑنا اِن کا کام نہیں۔ انصاف اور قانون کا تو نہیں کہہ سکتے البتہ یہ وہ کیس ڈھونڈتے ہیں جس میں دو گروہوں کی لڑائی ہو اور صلح کے نام پر یا دوسری پارٹی کوذلیل و رسوا کرنے کے نام پر پیسہ بٹورا جاسکے۔

 سرکاری اسپتال

خداکسی دشمن کو بھی یہ جگہ نہ دکھائے۔ ایک بیڈ پر دو، دو مریض اور وہ بھی تعلق بیڈ پر ملیں گے۔ اگر آپ کا کوئی ڈاکٹر واقف ہے تو ٹھیک ورنہ مریض  تڑپ تڑپ کر جان خالقِ حقیقی کو دے دیتا ہے۔ اسپتال میں موجود نجی سیکیورٹی، کینٹین ، نرسز اور خاکروب مریض کے گھر والوں سے پیسے بٹورنے میں لگے رہتے ہیں۔

 سرکاری اسکول

یہ معاشرے کی بد حالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پڑے لکھے لوگ اور امراء اپنے بچوں کو سہولتوں کی قدر دکانے کیلئے مثال دیتے وقت ڈراتے ہیں کہ، ’’اگر تمہیں سرکاری اسکول میں زمین پر بیٹھ کر پڑھنا پڑے تب پتہ چلے اور تو اور سرکاری اسکول کا ٹیچر خود اپنے بچوں کو نجی اسکول میں پڑھائی کیلئے بھیجتا ہے۔

 پٹوار خانہ

جائیداد کے لین دین اور اپنی جائیداد کی منتقلی اک ایسا عمل ہے جس میں بندہ چکرا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کام مشکل نہیں مگر ہمارے پٹواریوں کو حرام کمائی کی ایسی لت لگ گئی ہے کہ اس کا اتنا طویل اور جھنجھٹوں والا طریقہ بتاتے ہیں بندہ خود ہی کہہ دیتا ہے صاحب آپ کو نذرانہ مل جائے گا کچھہ چکر چلا کر جلدی سے کام ختم کردیں۔

اس کے علاوہ عدالتیں، ٹریفک پولیس، ریلوے اور ڈاکخانہ کا جو حال ہے آپ کے سامنے ہے۔ حکومت کچھ نہیں کرسکتی کیوں کہ یہ لوگ حکومت کی مہربانی کی بناء پر یہاں تک پہنچتے ہیں اور پھر گورنمنٹ اپنے مطلوبہ کام اِن سے کرواتی ہے۔

آخر میں جو ہورہا ہے، اِس پر افسوس اس لیے نہیں ہوتا کہ جس عوام پر ظلم ہورہا ہے وہی اُن حکمرانون اور کرپٹ سیاست دانوں کی خاطر لڑ، مر کر دوبارہ انہی کو منتخب کر کے حکمرانی کا شرف بخش دیتی ہے۔ خدا ہی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ   [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔