سارے کام فوج نہیں کر سکتی

جاوید چوہدری  منگل 23 مئ 2017
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

عربی کی کہاوت ہے ’’انسان جب بدقسمتی کے دور میں آتا ہے تو وہ خواہ اونٹ پر بھی بیٹھا ہو اسے کتا کاٹ جاتا ہے‘‘ میاں نواز شریف کی حکومت بھی اس وقت بدقسمتی کے اسی عمل سے گزر رہی ہے‘ یہ لوگ روز غلط فہمیوں‘ مسائل اور اختلافات کے کتوں سے بچنے کے لیے کسی نہ کسی اونٹ پر چڑھتے ہیں لیکن یہ تمام تر احتیاط کے باوجود کسی نہ کسی مسئلے کے جبڑے میں آ جاتے ہیں‘ یہ روز معاملات ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور روز ہی کوئی ان کے دودھ میں لیموں نچوڑ جاتا ہے‘ بنیادیں کوئی دوسرا ہلاتا ہے لیکن ملبہ ان پر آ گرتا ہے‘ پھونک کوئی مارتا ہے لیکن چنگاری ان کے دامن میں آ گرتی ہے اور پانی کوئی چھوڑتا ہے لیکن کیچڑ ان کے ذمے آ جاتا ہے اور یہ سلسلہ تقریباً چار سال سے جاری ہے‘ اس بدقسمتی‘اس خرابی کا اصل ذمے دار کون ہے؟ یہ جواب قدرے مشکل ہے۔

نواز شریف اس وقت وزیراعظم بنے جب ہم نے من حیث القوم اپنے ماضی کی غلطیوں کی فصل کاٹنا شروع کر دی تھی‘ ہم نے جو 1980ء کی دہائی میں افغانستان میں بویا تھا اور ہم نے 2001ء میں امریکا کے حکم پر جو یوٹرن لیا تھا ہم 2013ء میں ان فیصلوں کی جو ان فصلوں کے درمیان پھر رہے تھے‘ ہم انڈیا‘ افغانستان اور ایران کی طرف سے بھی دباؤ میں آ چکے تھے اور ہم اندر سے بھی ان قوتوں کے ہاتھوں زخمی ہو رہے تھے جنھیں ہم نے 1980ء کی دہائی میں اسلام اور پاکستان کا محافظ بنایا اور پھر اچانک 2001ء میں ہم نے انھیں پاکستان اور اسلام دونوں کا دشمن ڈکلیئر کر دیا اور یہ لوگ اس بے وفائی پر پورس کے ہاتھی بن کر ہمیں روندنے لگے‘ میاں نواز شریف دباؤ کے عین اس موقع پر وزیراعظم بن گئے اور ماضی کا کیچڑ ان کی جھولی میں آ گرا‘ یہ ان کی پہلی بدقسمتی تھی‘ ہمیں یہ ماننا ہو گا‘ 2014ء سے 2016ء کے آخر تک سول ملٹری ریلیشن شپ خرابی کی انتہا کو چھو رہے تھے۔

حکومت ٹویٹس کی گولہ باری کی زد میں بھی رہی اور یہ جنرل راحیل شریف کی کمزوریوں کا نشانہ بھی بنی‘ جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت میں دباؤ میں رہے‘ یہ وزیراعظم سے ملتے تھے تو یہ ان کی مان لیتے تھے اور یہ جب جی ایچ کیو جاتے تھے تو یہ ادارے کے ’’ٹویٹ‘‘ کے سامنے سرتسلیم خم کر لیتے تھے‘ حکومت تین سال جنرل راحیل شریف کی اس کنفیوژن کے پاٹوں کے درمیان پستی رہی‘ یہ میاں نواز شریف کی دوسری بدقسمتی تھی‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا عمران خان حکومت کے لیے خوفناک تودا ثابت ہوئے اور حکومت چار سال سے اس تودے کے نیچے سسک رہی ہے‘ عمران خان ماننے والی مٹی سے نہیں بنے‘ یہ ’’ٹرمینیٹر‘‘ کی طرح ہر بار گرکر‘ ٹوٹ کر‘ تباہ ہو کر اور بکھر کر دوبارہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور نئے سرے سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں‘ عمران خان نے اس لڑائی کے دوران دل کھول کر نوجوان طبقے‘ ریٹنگ کی دوڑ میں غلطاں میڈیا اور بے مہار سوشل میڈیا کو استعمال کیا اور حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیے‘ عمران خان میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی بدقسمتی ثابت ہو رہا ہے اور پیچھے رہ گئی میاں نواز شریف کی ذات تو یہ اپنے ماضی اور اپنی طبیعت کی خامیوں میں گھرے ہوئے انسان ہیں۔

پانامہ شریف فیملی کی غلطی تھا‘ شریف فیملی نے آف شور کمپنیاں بھی بنائیں‘ فلیٹس بھی خریدے اور ان کے پاس اس جائیداد کی کوئی ٹھوس ’’منی ٹریل‘‘ بھی موجود نہیں‘ یہ ایک حقیقت ہے‘ میاں صاحب طبیعت کے نرم اور سادہ ہیں‘ ان کی نرمی اور ان کی سادگی بھی روز مسائل پیدا کرتی ہے‘ یہ بڑے بڑے مسئلے چلتے چلتے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ یہ کوشش انھیں اکثر مہنگی پڑ جاتی ہے‘ ڈان لیکس میاں صاحب کی اس ’’سادہ طبیعت‘‘ کا شاخسانہ تھا‘ انھیں کس نے کہا تھا یہ حساس میٹنگ میں کہہ دیتے ’’تسی کر دیو‘‘ اور یہ کمیشن کی رپورٹ کے بعد چلتے چلتے فواد حسن فواد سے کہہ دیتے ’’تسی نوٹی فکیشن جاری کر دیو‘‘ چنانچہ حکومت ڈیلیور کرنے اور ملکی تاریخ کے بڑے بڑے اور اہم ترین فیصلے کرنے کے باوجود روز بدنامی کے کسی نہ کسی کتے کا شکار ہو جاتی ہے‘ یہ حکومت کی چند بڑی بدقسمتیاں ہیں‘ کلبھوشن یادیو حکومت کی بدقسمتی کا تازہ ترین کتا ثابت ہوا۔

کلبھوشن یادیو عین اس وقت گرفتار ہوا جب سول ملٹری ریلیشن شپ خرابی کی انتہا کو چھو رہے تھے‘ حکومت جنرل راحیل شریف کے دباؤ میں تھی‘ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار وزیراعظم کو سمجھا رہے تھے ’’آپ فوج کے تینوں سربراہوں کو ایک ایک سال کی ایکس ٹینشن دے دیں‘‘ پانامہ کے بم سے بھی چنگاریاں نکل رہی تھیں‘ آصف علی زرداری اور عمران خان کو بھی نئی توانائی مل چکی تھی اور میاں نواز شریف کی صحت بھی خراب تھی‘ وہ ایک مشکل وقت تھا‘ میاں نواز شریف نے اس مشکل وقت میں کلبھوشن کے ایشو سے سائیڈ پر رہنے کا فیصلہ کیا‘ یہ معاملہ فوج کے ہاتھ میں تھا‘ حکومت نے ’’فوج کے ہاتھ میں رہنے دیں‘‘ کی حکمت عملی وضع کر لی‘ سرتاج عزیز‘ طارق فاطمی‘ وزارت خارجہ‘ وزارت دفاع اور امریکا اور یورپ میں موجود اہم سفارتی مراکز کو اشارہ دے دیا گیا کلبھوشن کے معاملے میں جو فوج کہے وہ کر دیا جائے‘ یہ حکمت عملی آج تک جاری ہے۔

فوج نے پریس کانفرنس کا عندیہ دیا‘ حکومت نے پرویز رشید ان کے حوالے کر دیے‘ پرویز رشید29مارچ 2016ء کو جنرل عاصم باجوہ کے ساتھ بیٹھے اور کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کا اعلان کر دیا‘ فوج نے ڈوزیر بنا کر دیا‘ حکومت نے یہ ڈوزیر عالمی سطح پر پیش کر دیا‘ فوج نے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت کلبھوشن کو سزائے موت سنا دی‘ حکومت نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی‘ انڈیا 8 مئی 2017ء کو عالمی عدالت انصاف میں گیا‘ فوج نے کیس لڑنے کا فیصلہ کیا ‘حکومت ساتھ چل پڑی‘ بیرسٹرخاورقریشی کو وکیل کرنے کا فیصلہ ہوا‘ حکومت نے فیصلہ مان لیا‘ عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کی پھانسی کے خلاف ’’اسٹے آرڈر‘‘ دے دیا‘ حکومت نے اس ناکامی کو کامیابی ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دی‘ یہ اس وقت بھی بدنامی کے نئے کانٹے چن رہی ہے‘ یہ سوال اب بہت اہم ہے کیا کلبھوشن کے معاملے میں وزیراعظم کی حکمت عملی صحیح تھی؟ ہم اس طرف آنے سے قبل پہلے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی طرف آئیں گے۔

ہمیں پہلے کلبھوشن کیس کے چند حقائق ماننے ہوں گے‘ یہ درست ہے ہم کیس کا پہلا مرحلہ ہار گئے‘ عالمی عدالت نے فیصلہ دیا‘ یہ کیس عالمی عدالت انصاف کی حدود میں آتا ہے اور پاکستان کیس کے فیصلے تک کلبھوشن کو پھانسی نہیں دے سکتا‘ بھارت کے یہ دونوں موقف مان لیے گئے لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا‘ ہمارا وکیل ناتجربہ کار یا کمزور نہیں تھا‘ یہ 1993ء سے عالمی عدالت میں پیش ہو رہے ہیں‘ یہ کوئین کونسل ہیں اور بھارتی وکیل ہریش سالوے بھی منجھے ہوئے بین الاقوامی امور کے ماہر وکیل ہیں‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا عالمی عدالت تنازعے کے فریقین ملکوں کو ایڈہاک جج تعینات کرنے کی سہولت دیتی ہے‘ یہ ایڈہاک جج فیصلہ نہیں لکھتے‘ یہ عالمی عدالت کو مقامی قوانین کے بارے میں بریفنگ دیتے ہیں‘ ایڈہاک جج عموماً اصل کیس شروع ہونے کے بعد تعینات کیے جاتے ہیں‘ ہمارا اصل کیس ابھی شروع نہیں ہوا چنانچہ ایڈہاک جج کی تعیناتی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا‘ بھارت نے بھی ایڈہاک جج تعینات نہیں کیا تھا اور پاکستان نے بھی‘ بھارت کے جس جج جسٹس دلویر بھنڈاری کو ہمارا میڈیا ایڈہاک جج بنا کر پیش کر رہا ہے وہ ایڈہاک جج نہیں ہیں‘ یہ بھارت کی طرف سے عالمی عدالت کے مستقل جج ہیں۔

کیس کی ابتدائی سماعت میں بھارت کا اٹارنی جنرل بھی نہیں آیا تھا اور ہمارے اٹارنی جنرل بھی ’’دی ہیگ‘‘ نہیں گئے تھے۔ بھارتی وکیل نے کیس پیش کرنا تھا چنانچہ اس نے اپنے پورے نوے منٹ استعمال کیے‘ ہم نے صرف دفاع کرنا اور اپنا موقف پیش کرنا تھا چنانچہ ہمارے وکیل نے صرف 50 منٹ میں اپنی بات مکمل کر لی‘ پیچھے رہ گیا اسٹے آرڈر تو ہمیں ماننا ہو گا یورپ سزائے موت کے خلاف ہے‘ یہ سزائے موت کے ایشو پر آنکھیں بند کرکے حکم جاری کر دیتا ہے چنانچہ یہ اسٹے آرڈر جاری ہونا ہی تھا‘ ہم نے خود بھی کورٹ کو یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیا تھا‘ ہماری ٹیم نے کورٹ کو بتایا تھا ہم سر دست کلبھوشن کو پھانسی نہیں دے رہے۔

یہ ابھی دو اپیلیں کر سکتا ہے چنانچہ عدالت نے ہماری نرمی کو آرڈر میں تبدیل کر دیا تاہم یہ بھی حقیقت ہے بھارت نے عالمی عدالت میں جانے کے لیے چار ماہ تیاری کی تھی جب کہ ہم نے اس فورم پر توجہ نہیں دی تھی‘ ہمیں کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد ان تمام ممکنہ فورمز کے بارے میں حکمت عملی بنانی چاہیے تھی جن پر بھارت جا سکتا تھا‘ ہم اس حکمت عملی میں مار کھا گئے اور یہ ہماری بڑی حماقت تھی تاہم جس طرح ہر خرابی کے اندر ایک خوبی چھپی ہوتی ہے بالکل اسی طرح قدرت نے اس فیصلے کے ذریعے ہمیں بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کر دیا‘ ہم اب عالمی عدالت کے ذریعے پوری دنیا کو کلبھوشن کی کارروائیاں‘ پاکستان میں دہشت گردی کا بھارتی نیٹ ورک اور بھارت کی سفاکی دکھا سکتے ہیں‘ ہم دنیا کو بتا سکتے ہیں دہشت گرد ہم نہیں‘ بھارت ہے اور دنیا کو اسے روکنا ہوگا۔

میں اب بنیادی سوال کی طرف آتا ہوں ‘ میرا خیال ہے کلبھوشن پر میاں نواز شریف کی حکمت عملی غلط تھی، کلبھوشن پاکستان کا ایشو ہے پاکستان کے کسی ادارے کا نہیں اور پاکستان کے کپتان اس وقت میاں نواز شریف ہیں‘ ملک میں کوئی اچھائی ہو یا خرابی اس کے ذمے دار بہرحال وزیراعظم ہوں گے چنانچہ میاں نواز شریف کو کلبھوشن کے ایشو پر آج نہیں تو کل بہرحال اپنی ذمے داری بھی قبول کرنا ہو گی اور پورے ملک کو ایک صفحے پر بھی لانا ہوگا‘ میاں صاحب کو یہ کیس بھی پورے جذبے اور پورے اتفاق کے ساتھ لڑنا ہو گا‘ یہ ایک حساس ایشو ہے‘ حکومت یہ حساس ایشو کسی ایک ادارے اور لوگوں کے کسی ایک گروپ پر نہیں چھوڑ سکتی‘ وزیراعظم کو اس ایشو پر جلد یا بدیر بہرحال شیر بنناہو گا‘ سارے کام فوج نہیں کر سکتی یہ حقیقت ہے‘ حکومت کو سارے کام فوج پر نہیں چھوڑنے چاہئیں‘ کچھ کام حکومت کو بھی کرنے چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔