کشمیر بنے گا پاکستان

شکیل فاروقی  منگل 23 مئ 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان مدت دراز سے فسادکی جڑ بنا ہوا ہے جس کا سراسر ذمے دار اور قصور وار بھارت اور صرف بھارت ہی ہے۔ اسے اگر برسوں سے مسلسل رِستا ہوا ناسور کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس تنازع کی وجہ سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان چار خونیں جنگیں اور نہ جانے کتنی سرحدی جھڑپیں ہوچکی ہیں۔ دراصل یہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے۔

قصہ یہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان بالکل واضح طور پر یہ طے پایا تھا کہ ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی وہ مملکت پاکستان کا حصہ بنیں گے اور جن علاقوں میں ہندوؤں کی اکثریت ہوگی وہ بھارت کے پاس جائیں گے۔ رہی بات آزاد ریاستوں کی تو وہ ان میں سے کسی بھی ملک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ اپنی مرضی سے کریں گی۔

چنانچہ اس فارمولے کے تحت حیدرآباد دکن کی ریاست نے اپنی رضامندی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ دوسری جانب بھارتی حکمراں کانگریس پارٹی کے لیڈروں کے کشمیر کے راجہ ہری سنگھ کے ساتھ بھارت کے ساتھ الحق کے سلسلے میں مذاکرات ہوئے۔ جس حوالے سے بھارت کا دعویٰ ہے کہ کشمیر کے راجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا وعدہ کرلیا تھا حالانکہ راجہ ہری سنگھ کے بیٹے نے بھارت کی پارلیمان کے ایوان زیریں لوک سبھا میں تقریر کے دوران اس معاہدے کی حتمی توثیق کو قبول نہیں کیا۔ پاکستان کی جانب سے اس معاہدے کو منظر عام پر لانے کے بار بار اصرار کے باوجود بھارت ایسا کرنے میں ہمیشہ ہی ناکام رہا۔

اُدھربھارت نے یہ دغا بازی کی کہ الحاق کے لیے اکثریت کے فارمولے کی آڑ لے کر حیدرآباد دکن میں پولیس ایکشن کے نام پر فوج کشی کردی اوراس طرح جبراً اس مسلم آزاد ریاست کو ہڑپ کرکے بھارت کا حصہ بنا لیا۔اس جارحانہ کارروائی کے سرغنہ کانگریس پارٹی کے شدت پسند اور متعصب رہنما سردار ولبھ بھائی پٹیل تھے جو بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے دست راست تھے۔

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت اورکشمیر کا زمینی رابطہ صرف ضلع گورداس پور سے تھا جو مسلم اکثریت والا ضلع ہونے کی بنا پر تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولے کے مطابق پاکستان کے حصے میں آنا چاہیے تھا اور ریاست کشمیر کو بھی اسی فارمولے کے تحت پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا، مگر افسوس صد افسوس کہ فرنگی حکمرانوں کی بندربانٹ کے نتیجے میں ایسا نہ ہوسکا۔

برصغیر کے فرنگی حکمرانوں نے کھلی بے انصافی اور بدنیتی کا ثبوت دیتے ہوئے مسلم اکثریتی ضلع گورداس پور کو بھارت کے حوالے کردیا اور یوں دونوں ہمسایوں پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑائی جھگڑے کا بیج بو دیا۔ دراصل ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ فرنگی حکمرانوں کی ہمیشہ سے ہی ایک سوچی سمجھی پالیسی رہی ہے جس کا مقصد اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل ہے۔

بانی پاکستان کے بعض ناقدین کا خیال ہے کہ اگر قائداعظم کشمیری رہنما شیخ عبداللہ سے ملاقات پر آمادہ ہوجاتے تو شاید کشمیرکی صورتحال مختلف ہوتی، مگر اصل بات یہ ہے کہ قائداعظم کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی دوسری خوبیوں کے علاوہ مردم شناسی کی غیر معمولی اور منفرد صلاحیت بھی ادا کی تھی۔ وہ اس حقیقت کو پہلے ہی بھانپ چکے تھے کہ شیخ عبداللہ ایک انتہائی موقع پرست اور ناقابل اعتبار شخص تھا اور بعد کے حالات نے قائد کے اس تجزیے کو بالکل درست ثابت کردیا۔ شیخ عبداللہ کی سیاسی قلابازیوں کا خمیازہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام آج تک بھگت رہے ہیں اورظلم و ستم کی جس چکی میں وہ برسوں سے بری طرح مسلسل پس رہے ہیں وہ دراصل شیخ عبداللہ ہی کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ اگر پاکستانی فوج کا اس وقت کا کمانڈر جنرل گریسی دھوکہ بازی کرکے قائد اعظم کی حکم عدولی نہ کرتا تو آج کشمیر کی یہ صورتحال نہ ہوئی ہوتی۔

بھارت نے یہ ڈھونگ رچا کر کہ مہاراجہ نے کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کردیا ہے اپنی فوجیں داری میں اتار دیں۔ غنیمت یہ ہے کہ پاکستان نے کسی طور کشمیر کا ایک علاقہ بھارت کے قبضے سے آزاد کرالیا جسے ہم آزاد کشمیر کے نام سے پکارتے ہیں۔ افسوس اگر اس نازک موقع پر ہم سے غلطی سرزد نہ ہوتی تو کشمیر کا قصہ کب کا پاک ہوچکا ہوتا۔ لیکن:

اب پچھتاوت ہووت کیا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

اس کے بعد قدرت نے ہمیں مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کا ایک اور سنہری موقع اس وقت دیا تھا جب 1962 میں چین کے ساتھ لڑائی کے وقت بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو عملاً خالی کردیا تھا اور جب بھارت کو اپنے دفاع کے ہی لالے پڑے ہوئے تھے۔ لیکن اس وقت کے صدر ایوب خان نے امریکا کے جھانسے میں آکر یہ نادر موقع ضایع کردیا۔ ایوب خان نے دوسری فاش غلطی 1965 میں مقبوضہ کشمیر کی اندرونی صورتحال کا غلط اندازہ لگا کر کی جس کے نتیجے میں بھارت نے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ 6 ستمبر کو خوفناک جنگ چھیڑ دی جس کا مقابلہ نہ صرف افواج پاکستان بلکہ پوری پاکستانی قوم نے بے مثال ہمت اور بہادری سے کیا اور ہماری فضائیہ اور بحریہ نے بری فوج کے شانہ بہ شانہ انتہائی جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کردیے۔

بھارت نے 1965 کی جنگ کے بعد پاکستان کے خلاف انتہائی سنگین سازش تیار کی اور مشرقی پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے حالات بگاڑنا شروع کردیے تاآنکہ نوبت 1971 کی جنگ تک جا پہنچی جس کا آخری انجام مشرقی پاکستان کے سقوط کے سانحے اور بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں وقوع پذیر ہوا۔ اگر بقیہ مغربی پاکستان کا قائم رہنا امریکا کے مفاد میں نہ ہوتا تو پھر خاکم بہ دہن ہمارا وجود بھی باقی نہ رہتا۔ مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔

قیام پاکستان کے بعد اولین معرکے میں جب کشمیر کا ایک حصہ بھارت کے قبضے سے آزاد ہوگیا تو بھارت کے پردھان منتری نہرو بقیہ کشمیر کو بھارت کے زیرنگیں رکھنے کے لیے ’’بچاؤ بچاؤ! کی دُہائی دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جا پہنچے جس کی قرارداد کے نتیجے میں طے پایا کہ کشمیر کے تنازعے کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے کرایا جائے گا۔

بھارت نے یہ چال وقت حاصل کرنے کے لیے چلی تھی جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کے زمینی حقائق کو تبدیل کرنا تھا۔ تب سے اب تک بھارت نے طرح طرح کے حربے آزما لیے جس میں کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کی رٹ بھی شامل ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی کرنے سمیت اس کی آبادی کے تناسب Demographic Character کو تبدیل کرنے کا حربہ بھی آزما کر دیکھ لیا ہے مگر اسے ہر بار منہ کی کھانا پڑی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی پٹھو حکمراں محبوبہ مفتی جو درحقیقت بھارت سرکارکی محبوبہ ہے اپنے آقاؤں کے اشاروں پر ناچتی ہوئی کشمیریوں کے مستقبل کا سودا کرنے کے درپے ہے اور اس مذموم سازش میں شریک ہے کہ بہادر کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کسی بھی طرح کچل دیا جائے۔ مگر انشا اللہ بھارت کی محبوبہ اور اس کے حواریوں کے تمام منصوبے خاک میں مل جائیں گے اور وہ دن دور نہیں جب کشمیر بنے گا پاکستان۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔