بے حسی نہیں چلے گی!

سمانہ بتول  منگل 23 مئ 2017
 اگر ہم باتوں سے بڑھ کر عملی طور پر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہماری قوم سنجیدگی سے درپیش مسائل کا حل نکالے نہ کہ بے حسی کا مظاہرہ کرے۔ فوٹو: فائل

اگر ہم باتوں سے بڑھ کر عملی طور پر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہماری قوم سنجیدگی سے درپیش مسائل کا حل نکالے نہ کہ بے حسی کا مظاہرہ کرے۔ فوٹو: فائل

  پاکستانی معاشرے کو انتہائی اہم اور سنجیدہ باتوں کو مذاق سے ہلکا کرنے کی عادت پڑچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنجیدگی سے اصلاح کی کوشش کرنے کی بجائے کرپٹ اور قوم کے مجرموں کا مذاق بنا کر اپنے دلوں کو تسلی دے لی جاتی ہے۔ مصنوعی جذبات اور ڈینگیاں ہم پر غالب آتی جا رہی ہیں۔

دوپہر میں دھماکے، حملوں اور لاشوں پر رنج و افسوس کا اظہار (دو آنسو بھی بہا لئے) اور ذمہ داروں پر غصہ نکالنے کے بعد شام کے وقت سیاسی کامیڈی پروگرامز دیکھ کر قہقہے پہ قہقہے لگائے جا رہے ہوتے ہیں اور پھر اِن اداکاروں کو شاباش دی جاتی ہے کہ یہ عوام کو حالات کی تلخی سے باہر نکالتے ہیں جو کہ نہایت ضروری ہے۔

لیکن ہم یہ فراموش کر رہے ہیں کہ اِس طرح کا طرزِ عمل ہمیں بے حس بنا رہا ہے۔ کوئی کچھ کرنے کا سوچے بھی تو بے حسی آ دبوچتی ہے، پھر ہم اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کی ذمہ داری حکمرانوں اور سیاستدانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ سیاستدانوں کی بدعنوانی کو طنز و مزاح کی حد تک اہمیت دی جاتی ہے۔

دنیا میں جہاں حکمرانوں اور سیاستدانوں کی معمولی سی بدعنوانی پر بھی عوام اُن کے احتساب کیلئے، اپنے حقوق بچانے کیلئے، اپنے فرض کو نبھاتے ہوئے گھروں کے آرام و سکون کو الوداع کہہ کر سڑکوں پر نکل آتی ہے اور مطالبات کو انجام تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہے ایسے دور میں پاکستانی عوام گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے، سیاسی اشرافیہ کی بد عنوانیوں پر لعن طعن کرنے اور سوشل میڈیا پر طنزیہ کلمات میں تنقید کا اظہار کر کے خوش ہو رہتی ہے۔ پھر ایسے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی اِس قسم کے طنز و مزاح اور بے ضرر تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ جمہوریت ہے اور برداشت اِس میں سب سے بڑی خاصیت ہے۔ حالانکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ باتیں عوام کی غفلت اور بے حسی میں اضافہ کر رہی ہیں جو کہ انہیں اُن کی عزت سے بڑھ کر عزیز ہیں۔

ایسی بے حسی کے ترحم آمیز اور افسوسناک نتائج ظاہر ہورہے ہیں جیسا کہ آج کل بدعنوانی صرف حکومتی اور سیاسی طبقات تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ عوام میں بھی نچلی سطح تک منتقل ہوچکی ہے۔ دوسرا یہ کہ جب بھی دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو بجائے اِس کے، کہ عوام ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کیلئے اپنا فرض نبھائے، اپنے ہی آپ میں کڑھ کر حالات جوں کے توں رہنے پر یقین رکھتے ہوئے اپنے معمولات میں مگن رہتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب وہ ذمہ داران جو سیاسی اشرافیہ کا حصہ ہیں، مذمتی بیانات اور دو چار کھوکھلے دعوے کرکے اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں کہ جب سب بھگتنے والی عوام ہی سو رہی ہے، کوئی فرق نہیں پڑتا تو ریاستی اداروں کا بلاوجہ تردّد میں پڑنا چہ معنی دارد۔

اِس بے حسی سے نجات کا حل صرف اسی میں ہے کہ پہلے اپنے گریبانوں اور دامن کو بدعنوانی و بد دیانتی جیسی غلاظت سے پاک کیا جائے تاکہ جب حکمرانوں اور سیاستدانوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے کا موقع آئے تو خود عوام کے اپنے اندر  کسی قسم کا کوئی خوف جاگزیں نہ ہو یا پھر ذاتی فوائد، قومی اجتماعی فوائد کے آڑے نہ آ جائیں۔

دوسری بات ہر فرد کو اجتماعی سوچ کا حامل ہونا چاہیئے۔ اپنے حقوق و فرائض کے ساتھ ساتھ ہم وطنوں کے حقوق کا مکمل طور پر احساس رکھنا چاہیئے کہ بہرحال ایک دوسرے کے حقوق کا احساس کرنا قومیت کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔

ہمیں چاہیئے کہ ہر ایسے رویے کو جو کہ ہمیں عملی طور پر متحرک کرنے کے بجائے ہمارے اندر احساسِ زیاں کو ختم کرنے کا موجب بنے اسے سختی کے ساتھ جھٹلا دیں بجائے اِس کی حوصلہ افزائی کریں۔ کوئی بھی بات جو سنجیدگی چاہتی ہے اسے سنجیدگی سے ہی لینا چاہیئے۔ اگر ہم باتوں سے بڑھ کر عملی طور پر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہماری قوم سنجیدگی سے درپیش مسائل کا حل نکالے نہ کہ بے حسی کا مظاہرہ کرے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ   [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔