شاہراہِ ریشم کا نیا جنم

زاہدہ حنا  بدھ 24 مئ 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

میں اس چھوٹے سے شہر میں پیدا ہوئی جو شیر شاہ سوری کا مولد اور مدفن تھا۔ اس شہر میں پیدا ہونے والے کسی بھی مرد ، عورت یا بچے کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ جرنیلی سڑک سے واقف نہ ہو۔ شیرشاہ نے یہ طول طویل سڑک صرف 5 برس میں بناکر مکمل کردی تھی۔ یہ سڑک ہندوستان اور پاکستان کی مانگ میں افشاں کی طرح کھنچی ہوئی ہے۔ کلکتے سے پشاور تک برصغیر کے مختلف شہروں اور قصبوں سے گزرتی ہوئی، انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہوئی، لوگوں کے خط ایک دوسرے تک پہنچاتی ہوئی، سامانِ تجارت کو دور دور تک پھیلاتی ہوئی یہ سڑک ہمارے لیے سرمایہ افتخار ہے۔ جرنیلی سڑک کے بارے میں تفصیل سے پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ شیرشاہ کے علم میں چین کی شاہراہِ ریشم کی تفصیلات تھیں۔ سڑک کے کنارے مسافروں کے لیے سرائے خانے، میٹھے پانی کے لیے کنویں، ڈاک کا نظام جس کے لیے تازہ دم اور تیز رفتار گھوڑے کچھ فاصلے پر تیار ملتے تھے، یہ وہ انتظام تھا جو سیکڑوں برس پہلے چینیوں نے شاہراہِ ریشم پرکیا تھا۔

ان دنوں جس اوبی او آر کا چرچا ہے، اس کے بارے میں جانئے تو یہ بات دلچسپ معلوم ہوتی ہے کہ ہان شاہی کے زمانے میں چین نے شاہراہِ ریشم اور اس سے جڑی ہوئی چھوٹی سڑکوں کو دور دور تک پھیلا دیا۔ یوں شاہراہِ ریشم تجارت اور سیاحت کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گئی، آج ہم شاہراہ ریشم کا ذکر کرتے ہیں جس کے ذریعے ہان شاہی نے 130 قبل مسیح میں سرکاری طور پر مغرب سے تجارت کا آغاز کیا تھا۔اس شاہراہ کا خواب ہان شاہی کے بانی بادشاہ نے دیکھا جو ایک باغی کسان تھا، جسے ہم شاہ گاؤزے کے نام سے جانتے ہیں لیکن اس قدیم تجارتی راستے کو یہ نام ایک جرمن جغرافیہ داں اور سیاح فرڈیننڈ وان رچ تھوفین نے 1877ء میں دیا جو زباں زِد خاص و عام ہوگیا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ چینی ریشم دنیا بھر میں مقبول تھا اور اس وقت ریشم کے کیڑوں سے ریشم نکالنا اور اسے کپڑے کی صورت دینا صرف چینی کاریگروں کوآتا تھا۔ یہ شاہراہ تجارتی قافلوں کے گھوڑوں اور بار برداری کے جانوروں کے سموں کی اڑتی ہوئی دھول سے بھری رہتی لیکن سلطنت عثمانیہ کے سلاطین نے مغرب سے تجارت پر قطعاً پابندی عائد کردی یوں یہ شاہراہ کھنڈر ہوگئی۔

سلاطین عثمانیہ کو مغرب ومشرق سے آنے والے سامان تجارت سے کوئی خوف نہ تھا لیکن اصل ڈر انھیں اس بات سے تھا کہ اس شاہراہ کے ذریعے مختلف علاقوں کے لوگ ایک دوسرے سے گھلتے ملتے، خبروں اور خیالات کا تبادلہ ہوتا، فنون لطیفہ، مذاہب، فرقے، سائنسی معلومات، ٹیکنالوجی، فن تعمیر کے نت نئے انداز، مختلف زبانیں سب ہی ایک دوسرے تک پہنچتیں، غرض ایک سیال کیفیت اور آزادہ روی کی لہر تھی جو ان کے خیال میں سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرسکتی تھی۔ انھوں نے اس شاہراہ سے تجارتی قافلوں کے گزرنے پر پابندی 1453 میں لگائی۔ ایسا کرتے ہوئے انھیں یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ کھڑے ہوئے پانی کی طرح جامد سماج بھی سڑنے لگتے ہیں۔ اس کا اندازہ چند صدیوں کے اندر عثمانیوں کو ہوا لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔

یہ پرانی باتیں ہیں اور اب چین اپنی تاریخ کے ایک نئے اور شاندار دور میں داخل ہورہا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک اپنی سرحدوں سے نکلنے کے لیے بے قرار ہے۔ پہلے اس کے شہنشاہ چین کو ڈاکوؤں اور قزاقوں سے محفوظ رکھنے کے لیے عظیم الشان دیوار بناتے تھے اور اب وہ اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر ساری دنیا میں پھیل جانا چاہتے ہیں۔

اسی کا ایک مظہر اوبی او آر ہے۔ اس منصوبے کا ذکر 2013ء میں صدر ژی نے انڈونیشیا کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا اورکہا تھا کہ یہ شاہراہ ریشم کا نیا جنم ہوگا، اس سے مشرق ومغرب کے روابط بڑھیں گے اور تجارتی تعلقات اور خوشحالی میں بہت اضافہ ہوگا۔ اس پروگرام میں چینیوں کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگائے کہ چند دنوں پہلے اوبی او آر پر ہونے والی پہلی کانفرنس میں 130 قوموں کے ڈیڑھ ہزار افراد نے شرکت کی۔ ان میں 29 ملک ایسے بھی شامل تھے جنہوں نے اپنے چوٹی کے رہنماؤں کو شرکت کے لیے بھیجا، ان میں روس، اٹلی، فلپائن اور پاکستان شامل تھے۔

اس کی افتتاحی تقریب میں چین کے صدر ژی چن پنگ نے کہا کہ موجودہ دور میں کوئی ملک تنہا ترقی نہیں کرسکتا، ہم باہمی تجربات سے استفادہ کرکے ہی ترقی کرسکتے ہیں، تمام ممالک آپس کے تنازعات پُر امن طریقے اور باہمی مذاکرات سے حل کریں، ون بیلٹ ون روڈ خوشحالی کا عظیم منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ بین البراعظمی تعان کے نئے دورکا آغاز ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم شاہراہ ریشم جیسے منصوبے سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔

اس کانفرنس میں روسی صدر ولا دیمیر پیوٹن کی شرکت بہت اہمیت رکھتی تھی۔ صدر پیوٹن نہ صرف اس کانفرنس میں شریک ہوئے بلکہ انھوں نے بندرگاہوں، سڑکوں ، ریلوے نظام اور صنعتی زون کو قائم کر کے اس تجارتی راستے کو یکجا کرکے زمینی اور بحری تجارت کے رشتے میں پرونے کے عزم کو سراہا۔ یہ وہ منصوبہ ہے جو تین براعظموں کو ایک لڑی میں پرودے گا۔ ترک صدر طیب اردگان نے بھی اس منصوبے کی توصیف کی اور اس میں اپنے ملک کی شرکت کا وعدہ کیا۔ یونانی وزیراعظم نے کہا کہ ایک ایسے زمانے میں جب کہیں سرحدوں پر دیوار اٹھانے کی بات ہورہی ہے اور کئی اہم ملک اپنی سرحدوں سے باہر دیکھنے کے بجائے اندر کی طرف دیکھنے میں ہی اپنی بقا سمجھ رہے ہیں، چین نے اس عظیم پہل کاری سے تعاون ، مکالمے اور ایک دوسرے سے جڑنے کی فضا بنائی ہے۔ دنیا کے مسائل حل کرنے کا راستہ دکھایا ہے۔

پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے خطے میں دہشت گردی، نقل مکانی اور خوراک و پانی کی قلت جیسے خطرات پر قابو پانے میں مدد ملے گی، سرحدی کشیدگی کم نہ ہوئی تو ترقی خواب بن جائے گی، وقت آرہا ہے کہ معیشت سیاست سے آگے نکل جائے گی۔ ہمارے بارے میں چار سال سے کہا جارہا ہے حکومت ابھی جارہی ہے لیکن ہم اس کی پروا کیے بغیر عوام کی خدمت میں مصروف ہیں۔ چین کے تعاون سے ہمارے یہاں سی پیک منصوبے پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔

سی پیک ہماری اقتصادی اور معاشی ترقی کے لیے نہایت اہم ہے۔ انھوں نے کہا کہ سی پیک ون بیلٹ ون روڈ کا اہم حصہ ہے۔ ہانگ کانگ میں پاکستان سرمایہ کاری فورم میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آج کا پاکستان پُر اعتماد ہے اور سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے، سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے خصوصی اقتصادی زون قائم کیے گئے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ عالمی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان میں خدمات کا شعبہ تیزی سے ترقی پا رہا ہے، اس کی رفتار کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اقتصادی راہداری کے ذریعے مسافتیں کم ہوں گی اور دنیا کے براعظم ایک دوسرے کے قریب آئیں گے، پائیدار ترقی کے لیے ملکوں کے درمیان تعاون ناگزیر ہے۔

آج ساری دنیا یہ تسلیم کررہی ہے کہ چینی وزیراعظم کی یہ پہل کاری دنیا کے متعدد ملکوں میں خوشحالی کا سبب بنے گی۔ عرصے تک اس کا مقابلہ شاہراہِ ریشم سے کیا جائے گا۔ اس کے باوجود مختلف علاقوں کے لوگوں کو جوڑتا ہوا یہ راستہ، شاہراہِ ریشم کا مقابلہ نہیں کرسکے گا جس کا آغاز 130 قبل مسیح میں ہوا تھا۔ اس شاہراہ نے دنیا کو دو بلند پایہ ادیب دیے جن کا ڈنکا آج بھی بجتا ہے۔

میری مراد ابن بطوطہ اور مارکوپولو سے ہے۔ یہ دونوں اپنی جوانی میں دنیا کی سیر کو نکلے۔ سیاح تھے اور دونوں سفر کی صعوبتوں کو سہتے ہوئے چین پہنچے۔ دونوں نے اپنا سفر 13 ویں اور 14 ویں صدی کی درمیانی مدت میں کیا۔ انھوں نے اپنی سیاحت کے جو واقعات لکھے ہیں، وہ آج بھی دنیا میں دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ابن بطوطہ سلطنت دہلی کی طرف سے چین میں سفیر بناکر بھیجا گیا۔ وہاں کے قصے اس نے جس طور بیان کیے ہیں، وہ پڑھنے والوں کو حیران کردیتے ہیں۔ اس نے دیوار چین پر قدم نہیں رکھا لیکن وہ اس دیوار کو ذوالقرنین کی تعمیر کردہ سمجھتا تھا جس نے یا جوج اور ماجوج کو چین کے اندر دراندازی سے روکا تھا۔ وہ چین کی صنعت و حرفت سے بہت متاثر تھا اور ان کا تذکرہ اس نے تفصیل سے کیا ہے۔

اسی طرح مارکوپولو نے شاہراہِ ریشم پر سفر کیا، چین پہنچا اور قبلائی خان کا مہمان ہوا۔ اس کی فرمائش پر وہ اس وقت کے پوپ سے ایک خط اور یروشلم کے مقدس چراغ سے تیل لے کر دوبارہ قبلائی خان کے دربار میں حاضر ہوا اور اس کی فرمائشیں اس تک پہنچائیں۔ابن بطوطہ اور نکولائی مارکوپولونے 13 ویں اور 14 ویں صدی کے دوران جو سفر کیے، جن علاقوں سے گزرے، ان کی تفصیل دنیا جان نہیں سکتی تھی اگر شاہراہِ ریشم موجود نہ ہوتی۔ ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ کسی ابن بطوطہ یا مارکوپولو کو جنم نہیں دے سکتا لیکن یہ عین ممکن ہے کہ تین براعظموں کو جوڑنے والی سڑک اور سمندری راستے معاشی معجزوں کے ساتھ ہی کسی ایسے مہم جُو کو جنم دیں جو اکیسویں صدی کے اختتام پر مریخ کا سفر کررہا ہو اور ہمیں ان شہروں کا قصہ سنارہا ہو جن سے گزر کر وہ مریخ کی طرف روانہ ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔