پکچر گیلری

رفیع الزمان زبیری  بدھ 24 مئ 2017

قرۃ العین حیدرکی ’’پکچرگیلری‘‘ میں چند تصویریں ہیں۔ ایک خود ان کی اپنی تصویر بھی ہے۔ ابن سید (لیفٹیننٹ کمانڈر عسکری) نے قرۃ العین کا تعارف یوں کرایا ہے۔

’’بنیادی طور پر عینی افسانہ نگار ہیں لیکن اس نے دوکامیاب ناول بھی لکھے ہیں۔ وہ کلاسیکی اور نیم کلاسیکی موسیقی سے بھی واقف ہے اوراس کا پینٹنگ سے بھی گہرا شغف ہے۔ یوں وہ اپنے تخیل کو فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں پر وارد کرنے کی اہل ہے لیکن ان سب مختلف النوع تجربوں میں اس کی ذاتی شخصیت کو بھی ایک واضح اورداخلی حیثیت حاصل ہے۔‘‘

قرۃ العین کی ’’پکچرگیلری‘‘ میں پہلی تصویر ان کے والد سید سجاد حیدر یلدرم کی ہے۔ یہ تصویر بنانی آسان نہ تھی۔ لکھتی ہیں ’’فرشتوں کی تصویر میں رنگ نہیں ہوتا، محض نور ہوتا ہے جو اتنا دلچسپ نہیں۔ نور سے آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ رنگ فانوس ایسے دلچسپ اور دلکش ہوتے ہیں، مگر خوشی کی بات ہے کہ یلدرم کی تصویر میں رنگ بھی ہیں۔‘‘

پہلا رنگ پس منظر کا ہے۔ یلدرم کے خاندان کو ان سب چیزوں پر فخر تھا جو ایک زمانے میں انسانیت کا اعلیٰ ترین معیار سمجھی جاتی تھیں یعنی کلچر اور شرافت نفس۔ خاندان کو اپنے سید ہونے پر بھی سخت ناز تھا۔ ’’اَنا‘‘ سب سے بڑی کمزوری تھی مگر یلدرم میں اس کا فقدان تھا۔ قرۃ العین لکھتی ہیں ’’سجاد حیدر یلدرم کی زندگی کے واقعات آنکھوں میں چکا چوند پیدا کرنے والے نہیں ہیں۔

انھوں نے اپنی ساری عمر بہت خاموشی اور نرم روی سے گزاری۔‘‘ وہ تقریر بہت عمدہ کرتے تھے۔ لباس ہمیشہ انگریزی اور بہت اعلیٰ پہنتے تھے، علی گڑھ میں مولانا محمد علی ان کے کلاس فیلو تھے۔ زمانہ طالب علمی سے ان کو ترکی سے ذہنی لگاؤ ہوگیا تھا۔ ہندوستان ہی میں انھوں نے ترکی زبان میں مہارت حاصل کرلی تھی، اسی کی بدولت پہلے بغداد میں اور پھر قسطنطنیہ میں برطانوی مشن میں کام کیا۔ ترکی ادب کی طرف توجہ کی۔ وہ کئی سال سلطنت عثمانیہ میں رہے اور ترک ادیبوں اور انقلابیوں کے بہت قریب ہوگئے۔ وہ ترکوں کے لہجے میں ترکی اور ایرانیوں کے لہجے میں فارسی بولتے تھے۔ عربی بھی روانی سے بولتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ مغربی طرز کی زندگی گزاری۔

’’پکچر گیلری‘‘ میں ایک تصویر مولانا مہر محمد خاں شہاب مالیر کوٹلوی کی ہے۔ قرۃ العین ان کے بارے میں لکھتی ہیں کہ وہ ایک شفیق درویش صفت مفکر اور منسکرالمزاج، فرومایہ، غیوروخوددار انسان تھے۔ وہ لکھتی ہیں ’’مولانا شہاب کا معاملہ ہماری ادبی اورعلمی Dichotomy کی ایک روشن مثال ہے۔ مولانا گو خیالات کے لحاظ سے بے حد ماڈرن تھے مگر تاریخی اعتبار سے پرانی نسل کے ایک اسکالرتھے اور سماجی لحاظ سے Privileged طبقے سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ایران اور شام، مصر وترکی میں Dichotomy نہیں ہے کیونکہ وہاں کسی مغربی زبان اور اس سے متعلق احساس برتری کا تسلط نہیں۔‘‘ مولانا شہاب جس خاموشی اور فروتنی کے ساتھ زندہ رہے اسی خاموشی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

عزیز احمد بہت پڑھے لکھے انسان تھے۔ وہ حیدرآباد میں تھے، مولوی عبدالحق نے انھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان بھجوایا، واپس آئے تو شہزادی در شہوار کے پرائیویٹ سیکریٹری ہوگئے۔ ان کے افسانوں کا پس منظر یہی تھا۔ یورپ میں تعلیم و سیاحت اور حیدرآباد کی فیوڈل سوسائٹی۔ وہ حیدرآباد سے کراچی آئے۔ ان کو ایک اچھی سرکاری ملازمت مل گئی۔ قرۃ العین اسی محکمے میں جس میں یہ تھے یعنی وزارت اطلاعات و نشریات کا فلمز اینڈ پبلیکیشن ڈپارٹمنٹ، ملازم ہوگئیں۔ یہاں ان کا عزیز احمد سے واسطہ پڑا۔ ان دنوں یہ محکمہ اہل قلم سے پُر تھا۔

قرۃ العین حیدر لکھتی ہیں۔ ’’سجاد ظہیر کے بعد عزیز احمد اردو کے دوسرے ادیب ہیں جنھوں نے مغرب کو اپنا موضوع بنایا۔ آج ادیبوں اور پڑھنے والوں کے لیے مغرب انوکھی بات نہیں لیکن اس وقت عزیز احمد کے افسانے ایک چیز تھے۔ علاوہ ازیں دوسری جنگ عظیم سے پہلے کا یورپ ایک ایسا موضوع تھا جس میں ملک راج آنند، سجاد ظہیر اور عزیز احمد کے علاوہ کسی نے نہیں لکھا۔

قرۃ العین نے ’’چاند نگرکا جوگی‘‘ کے عنوان سے ابن انشا کی تصویر کشی کی ہے اور انھیں ایک پراسرار فسوں خیز شعری کائنات کا خالق قرار دیا ہے وہ کہتی ہیں کہ یہ سیدھی دل میں اترجانے والی شاعری تھی یہ روانی اور سادگی سب سے پہلے حالی نے متعارف کی تھی۔ انشا موجودہ عہد کے ان معدودے چند شاعروں میں سے ہیں جن کے اشعار اور نظمیں لوگوں کو زبانی یاد ہوگئیں۔

کل چودہویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا

کچھ نے کہا یہ چاند ہے‘ کچھ نے کہا چہرا تیرا

ہم بھی وہیں موجود تھے‘ ہم سے بھی سب پوچھا کیے

ہم ہنس دیے‘ ہم چپ رہے‘ منظور تھا پردا تیرا

1950ء کا ذکر کرتے ہوئے جب ان کی ابن انشا سے ملاقاتیں ہوتی تھیں، قرۃ العین حیدر لکھتی ہیں ’’اس وقت کراچی میں ایک سرکاری دفتر میں انشا اور انکم ٹیکس آفیسرکی میز پر بیٹھے عالی کا گوری اور پنگھٹ اور جوگی اور من مندر کی ہندوستانی امیجری کے گیت اور دوہے لکھنا خالص شاعری تھی، لیکن ان شاعروں نے تخلیقی تجربے کی ایک مخصوص زبان اور لہجے کو دوبارہ دریافت کیا تھا۔ علامتوں کے ساتھ ایک یہ مصیبت ہے کہ وہ بہت جلد پامال ہوجاتی ہیں اور یہ اس وقت ہمارے ادب میں برابر ہو رہا ہے لیکن انشا کا چاند نگر منفرد رہا۔‘‘

قرۃ العین لکھتی ہیں۔ ’’ابن انشا نے چینی نظمیں ترجمہ کی تھیں۔ وہ چینی اور جاپانی شاعری سے بھی متاثر تھے۔ چاند بھی کوئی انوکھا موضوع نہیں ہے۔ ہجری عہد کے غاروں میں رہنے والے ہمارے اجداد پونم کے چاند دیکھ کر پتھر لڑھکاتے اور غوں غاں کرتے ہوں گے۔ تب سے لے کر آج تک شاعروں نے چاند کو چھٹی نہیں دی لیکن ایک چاند صرف ابن انشا کا تھا، کوئی دوسرا اسے اس طرح نہیں دیکھ سکا اور ہر شعر میں چاند کی اتنی تکرارکے باوجود وہ بور نہیں کرتا۔‘‘

ابن انشا کے کردار کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے قرۃ العین لکھتی ہیں۔ ’’ابن انشا نے جہانگیر روڈ کراچی کے سرکاری کوارٹر سے بتدریج آکسفورڈ اسٹریٹ، لندن کے ایک لگژری فلیٹ تک سفر کیا۔ بحیثیت شاعر اور طنز نگار اپنے ملک میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی لیکن وہ کبھی برخود غلط نہیں ہوئے، نہ کامیابی اور شہرت نے ان کا دماغ خراب کیا۔ انشا کا مزاج لطیف اور مہذب تھا۔ اردو زبان کی ہمہ گیری کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ طنز و مزاح بڑی آسانی سے ابتذال، بے ہودگی اور بدتمیزی میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ شائستہ طنز اور پھکڑپن میں بال برابر فرق ہے جسے متمدن لوگ پہچانتے ہیں مگر ہمارے بعض مزاحیہ شاعروں اور نثرنگاروں کے ہاں یہ سوقیانہ پن آہی جاتا ہے۔ واقعات، مسائل اور شخصیات پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے قلم کو سنبھالے رکھنا تہذیب کی پہچان ہے۔ انشا اس معیار پر پورے اترتے تھے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔