بچوں کو سیاستدانوں کے بیانات نہ پڑھنے کا مشورہ

ساجد علی ساجد  بدھ 24 مئ 2017

ایک اچھی خبر یہ سننے میں آئی ہے کہ بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو سختی سے تاکید کی ہے کہ وہ سیاستدانوں کے بیانات نہ پڑھا کریں کیونکہ اس سے ان کے اخلاق و کردار پر برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اسی قسم کا مفید مشورہ بعض اساتذہ نے جن کو اپنے طلبا وطالبات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت سے بھی گہری دلچسپی رہتی ہے۔ اپنے شاگردوں کو دیا ہے کہ وہ بے شک اخبارات پڑھیں مگر سیاستدانوں کے بیانات پڑھنے سے گریزکیا کریں۔

ایسے والدین اور اساتذہ کو غلط یا صحیح یہ خطرہ ہے کہ ایسے بیانات پڑھ کر طلبا وطالبات خاص طور پر بچے بگڑسکتے ہیں اور ان کی زبان خراب ہوسکتی ہے۔

ہمیشہ سے والدین کی اپنی اولاد اور اساتذہ کی اپنے طالب علموں کے بہتر مستقبل کے حوالے سے یہ خواہش رہی ہے کہ ان کے بچے آپس میں میل محبت کے ساتھ رہیں مثالی اتحادکا مظاہرہ کریں ایک دوسرے کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں اور لڑائی جھگڑے سے اجتناب کریں۔

مگر اس کے برعکس بیشتر سیاستدانوں کی ساری سیاسی مہم کا محور یہی ہوتا ہے کہ مخالفین پرکیچڑ اچھالی جائے انھیں بدنام کیا جائے سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کیا جائے۔ اس قسم کے سیاستداں خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اپنی بقا اسی میں سمجھتے ہیں کہ مخالفین کو مختلف نام اور القاب سے نواز کر عوام میں انھیں ذلیل کیا جائے انھیں بے نقاب کیا جائے ان کا کچا چٹھا بیان کیا جائے۔

اس میں سب سے اہم کردار اپوزیشن پارٹیوں کا ہوتا ہے اپوزیشن رہنماؤں کا غلط یا صحیح یہ خیال ہوتا ہے کہ جب تک وہ حکومت اور حکمرانوں کو بے نقط نہیں سنائیں گے عوام انھیں ’’جینوئن اپوزیشن‘‘ نہیں سمجھیں گے بلکہ یہ الزام لگاتے رہیں گے کہ جی کچھ نہیں یہ سب نورا کشتی ہو رہی ہے۔ کیونکہ بعض کیسز میں واقعی ایسا ہوتا ہے کہ حکمراں اور اپوزیشن جماعتیں پہلے سے طے کرکے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتی ہیں اور ایک دوسرے کی در پردہ اجازت سے خراب زبان استعمال کرتی ہیں اور شاید بعد میں خفیہ انداز میں ایک دوسرے سے معافی بھی مانگ لیتی ہیں کہ ہم نے یہ ساری باتیں میڈیا کا پیٹ بھرنے، تفنن طبع کے لیے اور زیب داستان کے لیے کی تھیں۔

تاہم ایسے بیانات پر والدین کی تشویش بجا ہے ان کو یہ خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ ان کے بچے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ایسے الفاظ استعمال کرسکتے ہیں اور ان کی زبان خراب ہوسکتی ہے۔

اس سلسلے میں پہلا فرض اور ذمے داری سیاستدانوں کی بنتی ہے کہ وہ آپس میں مل بیٹھ کر ایک ضابطہ اخلاق طے کریں کہ ایک دوسرے سے آپ جناب سے بات کریں گے ایک دوسرے پر کیچڑ نہیں اچھالیں گے بے بنیاد الزام تراشی نہیں کریں گے اگر کوئی الزام لگائیں گے تو اس کا ٹھوس ثبوت پیش کریں گے اگرکوئی ٹھوس ثبوت ہے تو سب سے پہلے میڈیا کے بجائے عدلیہ سے رجوع کریں گے۔ اگر آپ سچے ہیں تو مخالف سیاستداں کو بدنام کرنے کا آپ کا مقصد عدالت سے ہی حل ہوجائے گا اگر بہت ہی ضروری ہو تو آپ جناب سے شروع اور ختم کرکے اس قسم کا خط لکھیں۔ محترم جناب۔۔۔۔! باخبر ذریعوں سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ نے فلاں پروجیکٹ میں مبینہ طور پر اتنے ارب روپے کی کرپشن کی ہے جس کی دستاویزات منسلک ہیں اگر آپ نے ایک ہفتے یا پندرہ دن میں جواب نہ دیا تو ہم مجبوراً عدالت یا میڈیا سے رجوع کریں گے۔ فقط والسلام آپ کا مخالف سیاستداں۔

محترمی سب سے پہلے تو مذکورہ پروجیکٹ میں ہونے والی مبینہ کرپشن کی طرف توجہ دلانے کا شکریہ۔ بدقسمتی سے آپ کا الزام کسی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اپنے دعوے کے ثبوت میں ہم تمام تر اخراجات کی تفصیل اور ایک ایک پیسے کی رسید اپنے جواب کے ساتھ منسلک کر رہے ہیں اور ہتک عزت کے ازالے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

غالباً ہمارے سیاستدانوں کے علم میں یہ حقیقت نہیں ہے کہ سیاسی رہنماؤں پر اس قسم کی الزام تراشی کا ان کی پارٹیوں کے ووٹ بینک پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ کیونکہ عوام کی اکثریت جو شاید ضرورت سے زیادہ سیدھی سادی یا ضرورت سے زیادہ سمجھدار ہے اس قسم کے الزامات کو صحیح نہیں سمجھتی اور انھیں اہمیت نہیں دیتی اور غلط یا صحیح اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ان کے ووٹ دینے نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑنا ہے۔یا کچھ ایسی بات بھی ہے کہ عوام کی بڑی تعداد ہمارے محترم سیاستدانوں سے زیادہ باخبر اور زیادہ معلومات رکھتی ہے مثلاً ایک گرا پڑا عام راہگیر بھی سمجھتا ہے کہ پاکستان میں کوئی منصوبہ بغیر کمیشن کے مکمل نہیں ہوتا۔ یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے بلکہ کمیشن طے ہوجاتا ہے اس کے بعد کہیں جا کے کسی منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوتا ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ بلاوجہ کسی کا موڈ خراب کرنے کے لیے کرپشن کا الزام نہ لگایا جائے اور اگر ایسا دعویٰ کسی ایک فریق کی طرف سے کر بھی دیا جائے تو دوسرے فریق کو اسے سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔

عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے کہ کرپشن اگر کسی عوامی منصوبے میں ہو بھی رہی ہو تو اس سے عوام کا کوئی نقصان نہیں ہو رہا ہے ان کو تو بہرحال اسی تنخواہ پر گزارا کرنا ہے۔

پھر ایک ایسے ملک میں جہاں خواندگی کی شرح بڑھا چڑھا کر طے کی جاتی ہو اور جو شخص بھی صرف دستخط کر لیتا ہو اسے خواندہ قرار دے دیا جاتا ہو۔ صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ اور باشعور افرادکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی ظاہر ہے ایسے لوگوں سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اسی قسم کے حکمراں منتخب کریں گے جو اب تک ہم پر مسلط رہے ہیں۔

آخر میں ان تمام لوگوں خاص طور پر اپنے ملک کے معزز سیاستدانوں سے دلی معذرت جن کو ہمارے اس سارے لکھے سے تکلیف پہنچی ہو۔ ظاہر ہے آوے کا آوا بگڑا نہیں ہے ہر جگہ اچھے برے لوگ ہیں اور شاید اچھے لوگوں کی تعداد برے لوگوں سے زیادہ ہے۔

ہم آخر میں سیاستدانوں سے والدین کی یہ اپیل بھی دہرانا چاہیں گے کہ وہ بیانات دیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کی کہی ہوئی باتیں بچے بھی پڑھ سکتے ہیں کیونکہ یہ بیانات (PG) پی جی ریٹڈ نہیں ہوتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔