اسٹیٹس سمبل سمجھے جانے والی ’کام والیاں‘

مدیحہ ضرار  بدھ 24 مئ 2017
اگر ہم اِن کی خود داری اور عزتِ نفس پر دھچکے لگانے کے بجائے اِن کو تھوڑی سی عزت سے نواز دیں تو ہمارے اندر کا چھوٹا انسان بہت بڑا محسوس کرے۔ فوٹو: فائل

اگر ہم اِن کی خود داری اور عزتِ نفس پر دھچکے لگانے کے بجائے اِن کو تھوڑی سی عزت سے نواز دیں تو ہمارے اندر کا چھوٹا انسان بہت بڑا محسوس کرے۔ فوٹو: فائل

آج امی کے گھر جانا ہوا تو فاطمہ باجی کا پوچھا کہ کہاں ہیں؟ امی نے بتایا کہ جس گھر میں وہ کام کرتی ہیں، وہاں آج مالکن کے بیٹے کی ولیمے کی تقریب میں شرکت کرنے گئی ہیں۔ مجھے سُن کر اتنی خوشی ہوئی کہ لوگ ایسے موقعوں پر بھی گھریلو ملازمین کو عزت دے کر ساتھ لے جاتے ہیں اور اپنی تقریب کا حصہ بھی بناتے ہیں۔

مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوئی تو اِس کا اظہار امی سے بھی کردیا کہ کتنے اچھے لوگ ہیں جن کو خود سے منسلک اِن افراد کا خیال بھی ہے اور سب کو ہی ایسا کرنا چاہیئے۔ امی نے مزید بتایا کہ فاطمہ تو جانا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔ اِس کا موڈ سخت خراب تھا، بیچاری شرافت کے مارے چلی گئی ہے۔

یہ سُن کر میں نے تجسس اور حیرانگی کے عالم میں موڈ خراب کی وجہ پوچھی تو امی نے بتایا کہ وہاں فاطمہ کو کام والی کہہ کر متعارف کروایا جاتا ہے۔ اتنے خوبصورت اور شاندار تقریب میں اِس کو اپنے انہی پرانے کپڑوں میں جانا پڑتا ہے اور اِس کی مالکن سب کو بہت فخر سے بتاتی ہے کہ ہمارے گھر کام کرنے والی ہے اور لوگوں کے سامنے اسٹیٹس سِمبل (status symbol) ظاہر کرنے کے لیے اِس کو ساتھ ساتھ رکھا جاتا۔ اُس کے لیے یہ سب بہت تکلیف کا باعث بنتا ہے اور وہ مجھ سے آج اپنا دل ہلکا کرنے آئی تھی کہ وہ گھر سے بہت مجبوری کی حالت میں کام کے لیے نکلتی ہے۔ اگر بچوں کی ذمہ داری اور تعلیم کے مسائل نہ ہوتے تو وہ بھی کبھی کسی کے گھر میں کام والی نہ بنتی۔

فاطمہ کی طرح کتنی ایسی عورتیں روز ہمارے گھروں میں ’کام والی‘ کے نام سے جانی جاتیں ہیں۔ اگر ہم اِن کی خود داری اور عزتِ نفس پر دھچکے لگانے کے بجائے اِن کو تھوڑی سی عزت سے نواز دیں تو ہمارے اندر کا چھوٹا انسان بہت بڑا محسوس کرے۔ ہمارے معاشرے میں ہم اِن ملازمین کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ بیٹھتے ہیں اور اِن کو اپنا غلام مان لیتے ہیں۔ تھوڑی تنخواہوں پر رکھے یہ ملازم کسی صورت غلام نہیں کہلائے جاسکتے جن پر اُن کے آقا کا پورا اختیار ہوتا ہے۔ ہمارا دین تو غلاموں کو یہاں تک حقوق دیتا ہے کہ جو کھاؤ انہیں بھی ساتھ کھلاؤں اور جو پہنوں انہیں بھی پہناؤ لیکن کیا ہم کبھی یہ تصور کرسکتے ہیں کہ جو برانڈڈ سوٹ مالکن نے زیب تن کیا ہے، ویسا ہی وہ اپنی ملازمہ کو بھی دے؟

کچھ عرصے قبل کی بات ہے کہ ایک قریبی دوست کی شادی پر جانا ہوا تو دلہن کے کمرے میں ایک لڑکی انتہائی خوبصورت کام والے لباس میں بیٹھی تھی اور میری سہیلی اُسے نصیحت کررہی تھی کہ اگر تم سے کوئی پوچھے کہ تم کون ہو تو کہہ دینا، دلہن کی سہیلی ہوں اور اگر کوئی جاننے والی ملے اور کپڑوں کا پوچھے تو کہنا باجی نے اپنی سہیلی کے طور پر خاص مجھے بنا کر دیئے ہیں۔ اِس معصوم چہرے پر جو اعتماد اور آنکھوں میں چمک آرہی تھی وہ میرے اندر عجیب سرشاری پیدا کر رہی تھی اور جس طرح وہ اپنے لباس کو بار بار آئینہ میں دیکھ رہی تھی وہ مجھے احساس دلا رہا تھا کہ وہ دل سے خوش ہے۔

شکر اور قدر کیا ہوتی ہے، اُس معصوم لڑکی کا جھلملاتا چہرہ مجھے بتلا رہا تھا۔ مجھے یہ سوچ کر اچھا لگ رہا تھا کہ اُس لڑکی کو وہاں کام والی کے نام سے نہیں جانا جاتا بلکہ کسی مہربان دل نے اُسے اپنی سہیلی کا رتبہ دیا تھا۔

کبھی کبھی جو ہم بہت تھوڑی خوشی بانٹ رہے ہوتے ہیں وہ سامنے والے کیلئے کیا اہمیت رکھتی ہے، اِس کا اندازہ شاید بانٹنے والے کو بھی نہیں ہوتا۔ افسوس کہ ہم بحیثیت قوم قلبی و ذہنی طور پر شدید بیمار ہوچکے ہیں۔ شاید ہماری اِن بیماریوں کی بڑی وجہ ہمارے اندر تربیت کی کمی ہے۔ ہمارا رویہ اِس طبقے کے ساتھ کافی شرمندہ کُن ہے۔ خودداری، عزتِ نفس کو ہم نے اپنی ذاتی ملکیت سمجھ لیا ہے اور اِسے بانٹنا اپنے جیسے لوگوں میں پسند کرتے ہیں۔ آج کل تقریباً ہر گھر میں اِن طبقوں سے وابستہ لوگوں کو ’کام والے‘، ’صفائی والے‘، ’کوڑے والے‘ جیسے القاب دے کر پکارا جاتا ہے حالانکہ اِن کو اگر اصل نام کے ساتھ ایک عزت والا رشتہ دے کر پکارا جائے تو گھر والے بھی اِن سب کو اِسی طرح پہچانیں جیسےعام فرد کو لیکن نام کے بجائے اُن کا پیشہ پہچان بن جاتا ہے جو اُن کی عزتِ نفس کو عالی شان محفلوں میں بڑی ٹھیس پہنچا جاتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار ایک سوچ کا نام ہے جو ایک خاص زاویئے سے دیکھی گئی تصویر کے دوسرے رُخ کی عکاسی کرتی ہے۔ معاشرتی صورت حال کے پیش نظر انہیں مایوسیاں پھلانے سے سخت الرجی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ قلم میں اتنی طاقت ہے کہ وہ سوچ اور امید کے ساتھ سمت کا بھی تعین کر دیتی ہے۔ ان کی سوچ کو فیس بک پر madhe.aden@ سے مزید پرکھا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔