اجناس کی طرح کیا خون بھی کم پڑسکتا ہے؟

محمد اختر  اتوار 27 جنوری 2013
ماہرین کے مطابق بہت سی غلط فہمیوں کی وجہ سے بھی خون کا عطیہ کرنے والوں کی کمی ہوئی ہے۔ فوٹو: فائل

ماہرین کے مطابق بہت سی غلط فہمیوں کی وجہ سے بھی خون کا عطیہ کرنے والوں کی کمی ہوئی ہے۔ فوٹو: فائل

انگلینڈ میں کی جانے والی سٹڈی میں کہا گیا ہے کہ حادثات اور واقعات اور دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ متعلقہ افراد کو خون کی منتقلی کے لیے خون ملنا مشکل ہوچکا ہے۔

اس قسم کی اپیلوں کی تعداد بھی بہت بڑھ چکی ہے جن میں خون دینے کی استدعا کی جاتی ہے لیکن مطلوبہ خون دستیاب نہیں ہوتا۔

گذشتہ دنوں برطانیہ کے میں انگلینڈ اور ویلزمیں خون سپلائی کرنے والے قومی ادارے این ایچ ایس بلڈ اینڈ ٹرانسفیوژن کی جانب سے ایک فوری اپیل کی گئی کہ جن افراد کے خون کا گروپ او ہے، وہ خون کا عطیہ دیں کیونکہ ان کے پاس صرف  دو تین دن کے لیے خون کا سٹاک رہ گیا ہے۔ اس طرح سکاٹ لینڈ اور ویلز کے ریجن میں خون کا سٹاک بہت کم دنوں کا رہ گیا تھا۔ یاد رہے کہ خون کا او گروپ یونیورسل گروپ کہلاتا ہے کیونکہ اس گروپ کاخون دیگر تمام بلڈ گروپس کے حامل افراد کو لگ سکتا ہے۔

یاد رہے کہ زخمی افراد کے ساتھ ساتھ بہت سی صورتوں میں خون کے عطیے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے انیمیا ، لیوکیمیا اور ٹرانسپلانٹ اور دیگر آپریشن وغیرہ۔ حالیہ اپیل سے قبل خون کے عطیے کے لیے آخری ارجنٹ اپیل لندن اولمپکس کے موقع پر کی گئی تھی جب خدشہ تھا کہ بڑی تعداد میں لوگوں کی لندن آمد کی وجہ سے بلڈ بنکوں میں خون کی کمی ہوسکتی ہے۔اپیل کامیاب ہوئی اور بڑی تعداد میں عطیات ملنے کے باعث سٹاک سات دنوں کا ہوگیا۔

دوسری جانب برطانیہ کے قومی بلڈ بنک کے جون لیٹہیم کا کہنا ہے کہ خون کے عطیے کی اپیل کرنے سے پہلے اچھی طرح غور کرلینا چاہیے کہ جمع شدہ خون استعمال ہو اور ضائع نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ جب خون کے عطیے کی اپیل کی جاتی ہے تو لوگ بڑی تعداد میں عطیہ دینے آتے ہیں جس کی و جہ سے بعض اوقات ضرورت سے کہیں زیادہ خون جمع ہوجاتا ہے۔ اس لیے خون عطیہ کرنے کی اپیل بار بار نہیں کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ ہمارے پاس خون کبھی ختم نہیں ہوگا۔

اعداد وشمار کے مطابق ہر سال خون کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سوا دولاکھ نئے عطیہ دہندگان کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان افراد کی کمی کو پورا کیاجاسکے جو خون عطیہ کرنا چھوڑ چکے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ ایک دہائی کے دوران نوجوانوں کی طرف سے خون عطیہ کرنے کے رجحان میں بیس فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ صرف گذشتہ سال سترہ سے اٹھارہ سال کے افراد کی جانب سے خون عطیہ کرنے کے رجحان میں پچاس فیصد کمی ہوئی۔

ماہرین کے مطابق بہت سی غلط فہمیوں کی وجہ سے بھی خون کا عطیہ کرنے والوں کی کمی ہوئی ہے۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ ان غلط فہمیوں کو دورکرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ صحت مند افراد کی جانب سے خون کا عطیہ کرنا ایک مثبت عمل ہے ، پرانے خون کی جگہ نیا خون بنتا ہے تو اس سے صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔خاص طورپر نوجوان افراد بشرطیکہ وہ خون کی کمی یا کسی مہلک بیماری میں مبتلا نہ ہوں، کو خون کا عطیہ دینے سے ہرگز گھبرانا نہیں چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔