کاروان علم فائونڈیشن پر مہربانی کریں

جاوید چوہدری  جمعرات 25 مئ 2017
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

زہرہ نواز کے والد آرمی میں سپاہی تھے‘وہ کراچی میں تعینات تھے‘ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے کراچی میں گھر بنا لیا‘زہرہ کا ایک بڑا بھائی اور ایک چھوٹی بہن تھی‘ اللہ نے تینوں کو ذہانت اور قابلیت سے نواز رکھا تھا‘حالات معمول پر چل رہے تھے کہ محمد نواز کے مزاج میں تبدیلیاں آنے لگیں‘ انھوں نے ایک دن گاؤں واپس جانے کا اعلان کردیا‘بیوی نے بچوں کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا لیکن بے فائدہ‘خوشحال گھرانے میں لڑائی جھگڑے معمول بن گئے‘بات مار کٹائی تک پہنچ گئی‘ زہرہ نے ان دنوں ایف ایس سی پارٹ ون کے امتحانات دینے تھے لیکن اس کے والد نے اسے کمرے میں بند کردیا‘بھائی نے مداخلت کرکے بہن کے پیپردلوائے جس پر باپ بیٹے کا بھی دشمن ہوگیا۔

بالآخر باپ گھر بیچ کر آبائی گاؤں چلا گیا‘ وہاں اس نے دوسری شادی کرلی اور زہرہ کی والدہ کو طلاق دے دی‘ والدہ بچوں کو لے کرلاہور آگئی‘ اس نے ایک کمرہ کرائے پر لیا‘ بھائی نے ایف اے کے بعد تعلیم چھوڑ دی اور نوکری شروع کردی‘ خود زہرہ نے ٹیوشن پڑھانا شروع کردی لیکن وہ کوشش کے باوجود اتنی رقم جمع نہ کر سکی کہ ایف ایس سی پارٹ ٹو میں داخلہ لے سکتی‘سال اول میں اس نے بہت اچھے نمبرحاصل کیے تھے‘ وہ صبح چھ بجے سے رات نو بجے تک مختلف کلاسز کے بچوں کو پڑھاتی تھی‘ایک سال ضایع ہونے کے بعداس نے سیکنڈ ائیر میں داخلہ لیا‘معاشی دباؤ اور ٹیوشن پڑھانے کی وجہ سے اس کے سیکنڈ ائیر میں خاطر خواہ نمبر نہ آ سکے جس کی وجہ سے اسے میڈیکل کالج میں داخلہ نہ مل سکا۔اس نے دوبارہ امتحان دینے کا فیصلہ کیا اور یوں اس کا مزید ایک سال ضایع ہوگیا۔

اگلے سال اس نے دوبارہ انٹری ٹیسٹ دیا اور اس کا نام آرمی میڈیکل کالج میںویٹنگ لسٹ میں آگیا‘زہرہ کو آرمی میڈیکل کالج سے ایڈمیشن کال آئی تو فیملی کے پاس راولپنڈی جانے کے لیے اخراجات بھی نہیں تھے‘ڈاکٹر شاہد صدیقی(موجودہ وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی) کی بیگم کے زہرہ کی والدہ سے بہنوں جیسے تعلقات تھے‘ انھوں نے زہرہ کے ابتدائی اخراجات اورفیس ادا کر دی‘آرمی میڈیکل کالج میں کلاسز جاری تھیں لیکن زہرہ کو اس بات کی فکر رہتی تھی کہ آیندہ کے تعلیمی اخراجات کیسے پورے ہوں گے‘اس نے کئی فلاحی اداروں اور مخیر حضرات سے رابطہ کیا لیکن کہیں سے مثبت جواب نہ ملا‘ اس نے آخر میں کاروان علم فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا اور اسے اسکالرشپ ملنا شروع ہوگیا‘ زہرہ نے ڈینٹل ڈاکٹر کی تعلیم مکمل کی اور یہ آج نہ صرف اپنے خاندان کو سپورٹ کررہی ہے بلکہ یہ اسپیشلائزیشن کے اخراجات بھی خود ادا کررہی ہے۔

دوسری کہانی محمد افضل اور ان کی بیگم کشور سلطانہ کی ہے‘ یہ دونوں گوجرانوالہ کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں‘ان دونوں نے عزم و ہمت کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملتی‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں سب سے پہلے اولاد نرینہ دی‘ بیٹے کا نام عمیر افضل رکھا گیا‘عمیر پیدائشی نابینا تھا‘ اس کے بعد ان کے ہاں بیٹی عمارہ افضل پیدا ہوئی‘وہ بھی پیدائشی نابینا تھی‘ غریب میاں بیوی دوسری اولاد بھی نابینا ہونے پر آبدیدہ ہو گئے لیکن لبوں پر شکوہ نہ لائے‘اس کے بعد اللہ تعالی نے انھیں دوسرے بیٹے زبیر سے نوازا لیکن زبیر کو بھی قدرت نے بینائی سے محروم رکھا‘ہر والدین کی طرح محمد افضل اورکشور سلطانہ کی خواہش بھی تندرست اولاد کی تھی لیکن قدرت کو یہ منظور نہیں تھا‘اس کے بعد ان کے ہاں آنسہ افضل کی پیدائش ہوئی‘ یہ بچی ریڑھ کی ہڈی کے ٹیڑھے پن کے ساتھ دنیا میں آئی‘محمد افضل اور اس کی بیوی کے پاس دو آپشن تھے۔

یہ اپنے بچوں کو فقیر بنا دیتے یا پھر انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیتے‘ میاں بیوی دوسرے آپشن پر چلے گئے‘ انھوں نے معذور بچوں کو علم سے آراستہ کرنے کا فیصلہ کیا‘محمد افضل محنت مزدوری کرکے گھر کا چولہا چلاتا رہاجب کہ کشور سلطانہ نے خود کو چار معذور بچوں کی پرورش اور تعلیم کے لیے وقف کردیا‘زندگی کی گاڑی آگے بڑھتی گئی‘جب عمیر افضل نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تو میاں بیوی نے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے لاہور شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا‘محمد افضل نے لاہور میں کریانے کی دکان کھول لی‘دکان کی آمدن سے بمشکل گھر کا چولہا جلتا تھا ‘بچوں کی تعلیم‘ آمدورفت اور علاج معالجے کے لیے سخت مالی مشکلات نے حوصلے آزمانا شروع کر دیے۔

ایک دن کشور سلطانہ نے نماز کے بعد بھیگی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی‘اسی شام انھیں ایک جاننے والے کی معرفت کاروان علم فاؤنڈیشن کے بارے میں علم ہوا‘کشورسلطانہ درخواست لے کر کاروان علم فاؤنڈیشن کے دفتر پہنچی‘ فاؤنڈیشن نے چاروں بچوں کی ذمے داری اٹھا لی‘ کاروان علم فاؤنڈیشن کے تعاون سے عمیر افضل نے گریجوایشن‘ عمارہ افضل نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے ایم فل‘آنسہ افضل نے کنیئرڈ کالج سے بی اے آنرز اور زبیرافضل نے گریجوایشن تک تعلیم حاصل کی‘ آج یہ چاروں بچے معذور ہونے کے باوجود معاشرے کے فعال شہری ہیں۔

کاروان علم فاؤنڈیشن پندرہ سال سے طلبہ کو وظائف جاری کررہی ہے‘ فاؤنڈیشن کا دائرہ کار پورے پاکستان تک پھیل چکاہے‘ آج پاکستان کی کوئی یونیورسٹی‘میڈیکل کالج‘انجینئرنگ یونیورسٹی یا کالج ایسا نہیں جہاں فاؤنڈیشن کے تعاون سے طلبہ تعلیم حاصل نہ کررہے ہوں‘کاروان علم فاؤنڈیشن نے وظائف جاری کرنے کے حوالے سے بہت سے قابل ستائش اقدامات کیے‘ ادارے کے دروازے ضرورت مند طلبہ کے لیے سارا سال کھلے رہتے ہیں‘طلبہ کو تعلیم کے دوران جس مرحلے پر بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے‘ کاروان علم فاؤنڈیشن ان کی مدد کرتی ہے‘ کاروان علم فاؤنڈیشن نے وظائف کا سلسلہ اتنا باوقار بنارکھا ہے کہ کسی مرحلے پر طالب علموں کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی‘ ہر طالب علم کی درخواست کا انفرادی جائزہ لیا جاتا ہے اور ہر طالب علم کی تعلیمی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وظائف جاری کیے جاتے ہیں۔

فاؤنڈیشن درخواست گزار طلبہ کو سالانہ فیس‘سمیسٹر فیس‘کرایہ ہاسٹل‘ماہوار خرچ‘ طعام‘کتب اور کرایہ آمدورفت تک ادا کرتی ہے‘ کاروان علم فاؤنڈیشن زیر کفالت طلبہ کی بیوہ ماؤں اور ضعیف والدین کو گھریلو اخراجات کے لیے بھی وظائف دیتی ہے تاکہ طلبہ مکمل اطمینان اور یکسوئی سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں‘کاروان علم فاؤنڈیشن جب کسی کو وظیفہ جاری کرتی ہے تو یہ اس کی سرپرست بن جاتی ہے‘یہ پورا سال طالب علم کی کارکردگی کا جائزہ لیتی رہتی ہے‘یہ ہر ضرورت کے لیے مدد فراہم کرنے کے لیے دستیاب رہتی ہے‘ کاروان علم فاؤنڈیشن غریب طبقہ کے لوگوں کو ضروریات کے لیے زکوٰۃ اور عطیات کی رقم فراہم کرنے کے بجائے اس رقم سے ان کے بچوں کو علم و ہنر سے آراستہ کرتی ہے تاکہ یہ مستقل طور پر خاندان کا سہارا بن سکیں‘کاروان علم فاؤنڈیشن یتیم اور خصوصی طلبہ کو ترجیہی بنیادوں پر وظائف جاری کرتی ہے۔

یہ ادارہ اب تک 5524 طلبہ کو ساڑھے بارہ کروڑ روپے کے وظائف دے چکا ہے‘وظائف حاصل کرنے والے طلباء میں 937یتیم طلبہ اور 333خصوصی طلبہ(نابینا‘پولیو زدہ اور حادثات کی وجہ سے معذور) شامل ہیں‘مالی اعانت حاصل کرنے والوں میں ایم بی بی ایس (ڈاکٹر)کے1314‘بی ڈی ایس(ڈاکٹر آف ڈینٹل سرجری) کے 51‘ فزیوتھراپی(ڈاکٹر آف فزیوتھراپسٹ) کے 45‘ڈی وی ایم (ڈاکٹر آف ویٹرنری سائنسز)کے121‘ڈی فارمیسی (ڈاکٹر آف فارمیسی)کے99‘ایم ایس سی کے135،ایم اے کے133‘ایم کام کے40‘ ایم بی اے کے58‘ ایم پی اے کے 05‘ایم فل کے 19‘ بی ایس سی انجینئرنگ کے1398‘بی کام آنرز کے159‘ بی ایس آنرز کے701‘بی بی اے کے 61‘اے سی سی اے کے 18‘سی اے کے 04‘بی ایس ایڈ‘بی ایڈ کے 41‘ ایل ایل بی کے14‘بی اے آنرز کے45‘ بی اے کے73‘ سی ایس ایس کا 01‘ بی ٹیک کے 23‘ ڈپلومہ ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کے161‘ ایف ایس سی کے510‘ایف اے کے90‘آئی کام کے52‘ڈی کام کے05‘آئی سی ایس کے17میٹرک اور انڈر میٹرک کے 131 طلبا و طالبات شامل ہیں۔

میری آپ سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر اپنی زکوٰۃ‘صدقہ اور فطرہ کاروان علم فاؤنڈیشن کو عطیہ کریں‘ آپ کی یہ عنایت بے شمار گھروں میںعلم کے چراغ جلا دے گی‘ آپ اپنے عطیات میزان بینک کے اکاؤنٹ نمبر0240-0100882859 میںجمع کروا سکتے ہیں۔آپ67کشمیر بلاک ‘علامہ اقبال ٹاؤن لاہورکے پتے اور ای میل [email protected] پرفاؤنڈیشن سے رابطہ بھی کر سکتے ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے موبائل نمبر0321-8461122پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔