مشکل فیصلوں کا وقت

عبدالقادر حسن  جمعرات 25 مئ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہم مسلمان بطور قوم اس قدر زوال پذیر ہوگئے ہیں کہ اپنے اسلامی ملکوں کی سربراہی کانفرنس میں کافروں کے واعظ و نصیحت سننے پر مجبور ہو چکے ہیں، یہ بطور مسلمان ہمارے پستی کی انتہا ہے اور جب یہ فرما دیا گیا ہے کہ کافر تمہارا دوست نہیں ہو سکتا تو ہم پھر بھی اسی عطار کے لونڈے ہی سے دوا لینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سعودی عرب میں اسلامی سربراہی کانفرنس سے امریکی صدر نے اپنے خطاب میں مسلمان ملکوں پر یہ واضح کردیا کہ اسلامی ملکوں کو خود ہی دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنا ہو گا اور وہ اس کے لیے امریکا کی جانب دیکھنا بند کر دیں۔

ان کی اسلامی سربراہی کانفرنس سے تقریر کا لب لباب یہی تھا کہ وہ آپس کے اختلافات کو خود ہی حل کرنے پر توجہ دیں ۔ امریکی صدر نے منتخب ہونے کے بعد اپنا پہلا دورہ ہی مسلمانوں کے مرکز سعودی عرب کا کیا جہاں پر ان کی خوب پذیرائی کی گئی ۔انھوں نے اپنی تقریر میں پچاس سے زائد اسلامی ملکوں کے سربراہوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ امریکا کی اس خطے میں اپنی ترجیحات ہیں جن کے لیے وہ مسلمان ملکوں کے تعاون کے خواہاں ہیں۔ ان کے دورے کے دوران سعودی عرب اور امریکا کے درمیان اسلحہ کی فروخت کے لیے بھی اربوں ڈالر کے معاہدے طے پائے۔ امریکی صدر نے اپنے اس دورہ سے تمام دنیا کے مسلمانوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ وہ ایران کو اس دنیا میں امن و امان کے حوالے سے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور اگر وہ ان کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا تو اسے تنہا کر دیا جائے بالفاظ دیگر اس پر جنگ مسلط کر دی جائے گی۔

اسلامی سربراہی کانفرنس کا مقصد مسلمان ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینا اور دہشتگردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا تھا لیکن اس میں ایک بڑے اسلامی ملک ایران کی شمولیت نہ ہونے کے باعث اس کا اصل مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا اور بجائے اس کے کہ کانفرنس سے اسلامی دنیا میں محبت ، بھائی چارے اور یکجہتی کا پیغام جاتا اس کے الٹ ہو گیا اور اس کانفرنس کا اختتام ایران کے لیے دھمکیوں پر ہوا۔ کس کو معلوم نہیں کہ امریکی اپنے مفادات کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں اور انھوں نے دنیا بھر میں نفرت اور جنگوں کے جو بیج بوئے ہیں دنیا ان کو بھگت رہی ہے اور نہ جانے کب تک اس کا شکار رہے گی۔ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان اربوں ڈالر کے اسلحہ کے معاہدے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ یہ اسلحہ ہم مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں پر ہی استعمال کریں گے جس کا پیغام ایران کو تعاون نہ کرنے کی صورت میں دے دیا گیا ہے۔

اس تمام صورتحال میں پاکستان کا کردار کیا ہو گا یا کیا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہی ہو گا ۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات تاریخی نوعیت کے علاوہ عالم اسلام کا مرکز ہونے کی وجہ سے مذہبی بھی ہیں ان میں توازن برقرار رکھنے کے لیے سیاسی بصیرت کا اصل امتحان اب شروع ہو گا تا کہ ہمارے ہمسایہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بھی زد نہ پہنچے گو کہ ہمیں ایران کی اعلیٰ فوجی قیادت کی جانب سے دھمکیوں کی صورت میں پیشگی وارننگ جاری کر دی گئی ہے شاید ایران نے اسلامی کانفرنس کے مقاصد کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا اور اس نے ایٹمی پاکستان کو اس کے اندر گھس کر نشانہ بنانے کی بات بھی کی تھی جس کو دیوانے کی بڑ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ میرے خیال میں ایران یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس کے خلاف جارحیت کی گئی تو پاکستان اس کا حصہ ہو گا اور اس نے حفظ ماتقدم کے طور پر پاکستان کو خبردار کیا، اس معاملے کے بارے میں تبصرے کے لیے علیحدہ کالم درکار ہے ۔

پاکستان جو کہ خود ہی دہشتگردی کا شکار ہے اس کو اب ایک نئی صورتحال کا سامنا ہے اور ہم ایک بار پھر ایک نئے امتحان میں پڑنے والے ہیں، اس نئی صورتحال میں دانشمندانہ فیصلے ہی پاکستان کی خود مختار حیثیت کو بحال رکھ سکتے ہیں ۔ ہمارے وزیر اعظم اور سیاسی قیادت کا امتحان شروع ہو رہا ہے اور یہ امتحان تو شاید اس وقت ہی شروع ہو گیا تھا جب ہم نے اپنے سابق آرمی چیف راحیل شریف کو سعودی عرب کی جانب سے بنائی جانے والی اسلامی فوج کی سربراہی کے لیے اجازت دی تھی، اس وقت توقع اس بات کی، کی جا رہی تھی کہ راحیل شریف سعودی عرب اور ایران کے درمیان اختلافات کی خلیج کو کم یا دور کریں گے لیکن موجودہ صورتحال میں اس فیصلے نے ہمیں دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے اور اب ہمیں یا تو کسی ایک کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرنا ہو گا اور یا پھر ثالثی کا کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ اسلامی ممالک میں پاکستان ایک منفرد حیثیت کاحامل ہے جس کے پاس اسلامی دنیا کا واحد ایٹم بم بھی ہے اور سعودی عرب بھی خاص طور پر اپنے دفاع کے لیے ہمیشہ پاکستان کی طرف ہی دیکھتا ہے اور ہم نے بھی ہمیشہ ہر طرح کی صورتحال میں سعودی عرب کا ہی ساتھ دیا ہے۔

ہمارے وزیر اعظم جو کہ اس کانفرنس کے اہم شرکاء میں شامل تھے انھوں نے اپنے ایک بیان میں انتہا پسندی کے خلاف بننے والے مرکز میں شامل ہونے کے بارے میں اپنے خیالات کا محتاط الفاظ میں اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سلسلے میں ابھی کو ئی فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن انھوں نے اس بات کا اعادہ ضرور کیا ہے کہ ان کا اپنا ملک دہشتگردی کا شکار رہا ہے اور اس میں اب خاطر خواہ کمی ہو چکی ہے اور ہمیں دنیا کے ساتھ مل کر دہشتگردی کو ختم کرنا ہو گا ۔ ان کا یہ کہنا کہ چونکہ مغرب دہشتگردی کے خلاف صف آراء ہو گیا ہے تو مسلم امہ کو بھی پیچھے نہیں رہنا چاہیے، اس بیان سے یہ واضح نہیں ہو رہا ہے کہ پاکستان اس نئی صورتحال کا حصہ بنے گا یا نہیں۔ اس سے پہلے یمن کے خلاف سعودی عرب کی حمایت کے لیے فوج بھیجنے کے معاملے میں بھی بہت لے دے ہوئی تھی اور بالآخر معاملہ قوم کے منتخب نمایندوں کے پاس لے جایا گیا ۔

جنہوں نے سعودی عرب فوج بھیجنے کی مخالفت کی اور یوں ہماری حکومت ایک بڑی مشکل سے بچ نکلی کیونکہ عربوں کی اس جنگ میں دونوں طرف مسلمانوں کا خون ہی بہہ رہا ہے اور ہمیں اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا، یہ دانشمندانہ فیصلہ تھا جس کی وجہ سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں وہ گرمجوشی نہیں رہی جو کہ ماضی میں تھی بلکہ اگر واضح لفظوں میں کہا جائے تو سعودی عرب ہم سے ناراض ہو گیا تھا جن کو معمول پر لانے کے لیے ہم نے اپنے سابق جرنیل کو سعودیہ کی جانب سے تشکیل دی جانے والی فوج کا سربراہ بننے کے لیے اجازت دی اور یہی اجازت لگتا ہے کہ اب ہمارے گلے کا طوق بننے والی ہے۔

اب ایک بار پھر حالات اس طرح کے بن رہے ہیں کہ ہمیں عنقریب ایران کے خلاف اتحاد کا حصہ بننے پر مجبور کیا جائے گا اور اس کے لیے ہر طرح کا دباؤ بڑھایا جائے گا ۔ ہمیں اس خطے میں اپنی پوزیشن کو مستحکم اور غیر جانبداری برقرار رکھنے کے لیے ایک واضح حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی اور ایسی کسی بھی سازش کا حصہ بننے سے گریز کرنا ہو گا جو کہ عالم اسلام اور خاص طور پر پاکستان کے لیے نقصان دہ ہو۔ اس نازک موقع پر ہمیں اپنی لولی لنگڑی وزیر خارجہ کے بغیر خارجہ پالیسی کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو کہ اس وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اگر ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن رکھا ہوتا تو جو امتیازی سلوک ہمارے ساتھ دنیا میں ہو رہا ہے اس سے بچاؤ ممکن تھا ۔

ابھی اس اسلامی کانفرنس میں ہمیں وہ عزت نہیں دی گئی جس کے ہم حقدار تھے اور امریکا اور سعودی عرب کے سربراہوں نے اپنی تقاریر میں ہمارا نام تک لینا گوارا نہیں کیا جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیں کتنی سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور لگتا ہے کہ ایک دفعہ پھر ہم اُسی صورتحال سے دوچار ہونے جا رہے ہیں جس کا سامنا ہم نے افغان جنگ میں کیا جب ہمیں کہا گیا تھا کہ ہم امریکا کے ساتھ ہیں یا اس کے مخالف، ہماری حالت ’’ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘‘ والی ہونے جا رہی ہے اس صورتحال سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے ہمارے عسکری اور سیاسی قیادت کو مشکل فیصلے کرنے ہوں گے اور یہی مشکل فیصلے ہمیں اس مشکل سے نکال پائیں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔