ٹرمپ کا دورۂ سعودی عرب اور ہم

جاوید قاضی  جمعرات 25 مئ 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یوں لگتا ہے دنیا بھٹک سی گئی ہے۔ یہ دنیا ایک دھرتی پر آباد ہے۔ وہ دھرتی جس کو ہم ماں کہتے ہیں اور جس کو کچھ بھی خبر نہیں ہے، وہ بیچاری سورج کے گرد گھومتی رہتی ہے اور چاند اس کے گرد۔ یہ انسان کائنات میں مخلوقات ہے۔ اب کیا یہ اشرف المخلوقات ہے کہ نہیں، دن بدن یہ بات ایک سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے۔ اس مخلوق کے پاس زبان ہے، زباں سے بیان بناتا ہے، سوچتا ہے، ارپتا ہے، خیالوں کی پگڈنڈی پر چل کر خوابوںکو بنتا ہے۔ آیندہ آنے والے زمانوں میں اپنی آنکھیں گھونپ دیتا ہے۔ مگر کہیں یہ شاید بھٹک سا گیا ہے اور اس انسان میں خصوصاً مسلمان نجانے کہاں کو چل پڑا ہے۔ ہمارے اندر کے تضادات ایسے ابل پڑے ہیں کہ پوری دنیا میں اس کا چرچا ہوا۔

میرا پچھلا مضمون ’’وہی منزل وہی راستہ‘‘ یعنی OBOR   فورم پر تھا، اور آج سعودی عرب میں جو مسلمان ممالک کے سربراہان کی کانفرنس ہوئی، اس کے پس منظر میں ہے۔ کتنا بدل گیا ہے انسان اور انسانوں کے اس سنسار میں کتنا بدل گیا ہے مسلمان۔ ایک طرف مسلمان سربراہان کی وہ کانفرنس بھی ہوئی تھی 1974 ء میں، جس کی میزبانی پاکستان کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے۔ سرد جنگ کے وہ زمانے تھے۔ ہمارے ذوالفقار علی بھٹو کی یہ کاوش امریکا کو بہت ناگوار گزری۔ ہم مسلمان ممالک میں وہ واحد ملک ہیں، جو جوہری طاقت رکھتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو موئن جو دڑو کے بیٹے تھے۔ وہ اپنے آپ کو وادی مہران کا وارث مانتے تھے۔ وہ مہا پاکستانی تھے۔ چین سے ہمارے تعلقات پرانے ہوسکتے ہیں، مگر کچی اینٹوں سے بنی دیوار کی مانند تھے۔ بھٹو نے ایک طرف وہ تعلقات بھٹی سے نکلی ہوئی پکی اینٹوں کی طرح بنائے، تو دوسری طرف پاکستان کو مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک سے ملایا۔ وہ درحقیقت مسلمان ممالک کے غیر جانبدارانہ بِلاک کو ترتیب دے رہے تھے۔ کتنے سارے آزاد سربراہان کا دوبارہ ظہور پذیر ہونا معمرقذافی، الجزایر کے حوآری بو مدین، شام کے حافظ الاسد، سعودی عرب کے شاہ فیصل وغیرہ وغیرہ، اور پھر یہ سب جیسے فیضؔ کی ان سطروں کی طرح

ہم جو نیم تاریک راہوں پر مارے گئے

یا پھر یہ کہ

آخر شب کے ہمسفر نہ جانے کیا ہوئے

کس طرح پھر بھٹو مارے گئے، شاہ فیصل مارے گئے، شیخ مجیب مارے گئے، یہ سب بین الاقوامی تعلقات میں امریکا کی مروج ترتیبات کو نہیں مانتے تھے اور سوویت یونین کے اتنے قریب نہ تھے کہ وہ اپنے آپ کو بچا سکتے۔ سرد جنگ کے زمانے میں مسلمان ممالک کو اکٹھا کر کے کوئی غیر وابستہ بلاک بنانا کوئی آسان کام تو نہ تھا۔

وہ فراق اور وہ وصال کہاں

وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

اور اب کے جو سعودی عرب میں اسلامی ممالک کی کانفرنس تھی، وہ کیا تھی؟ ہنسنے کا مقام تھی یا رونے کا؟ امریکا کی تاریخ کا پہلا صدر ’’ٹرمپ‘‘ نے ملک سے باہر اپنا پہلا دورہ کیا بھی تو وہ بھی ایسے ملک کا جہاں جمہوریت نہیں،   جب کہ ایران بھی آزادی رائے میں چودھویں نمبر پر ہے۔ ایک ایسی ریاست جو کہ داخلیت پرستی کا شکار ہے، مختصر یہ کہ وہ ایک Closed society ہے۔ یوں تو یہ OBOR FORUM کے بعد دوسرا بڑا بین الاقوامی ایونٹ تھا۔ اگر غور کیا جائے تو چین بھی پیسہ دیتا ہے اور سعودی عرب بھی، اس طرح سے دونوں نے اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے، کہ ایک طرف چین ہے، جہاں دنیا کے سربراہان OBOR FORUM میں چل کر آئے ہیں اور دوسری طرف سعودی عرب ہے جس کے پاس بھی دنیا چل کر آئی۔ مگر دونوں کانفرنسز کا زاویہ، نکتہ اور مزاج الگ الگ تھا۔

چین نے جو تیس، پینتیس سال میں اربوں ڈالر کمائے، اس کی پیداواری صلاحیت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے برعکس اس کی کھپت اور مانگ سکڑ گئی۔ اس نے نئی راہیں تلاش کیں۔ ONE BELT ONE ROAD کا خیال لے کر چین آگے آیا اور اس طرح پھر اس کی پیداواری صلاحیت پر بھی کوئی منفی اثر نہیں پڑا، مگر OBOR کی وجہ سے چین بھی فائدے میں رہا اور دوسرے ممالک بھی۔ اور جو ملک ان کے قریب ہوئے، ان کو انفرااسٹرکچر ملا۔ مگر سعودی عرب نے کیا دیا؟ دہائیوں سے قدرت سے ملے تیل کے خزانے سے سیکڑوں ہزاروں ارب ڈالر کمائے اور لٹائے۔

شہزادوں کی دنیا ہے، لمبی لمبی گاڑیاںہیں، باز اور عقاب ہیں، ہوائی اور بحری جہاز ہیں اور کرنے کو کچھ نہیں۔ ان کے وجود کو یقینی بنایا امریکا کی سامراجی سوچ نے، سرد جنگ کے زمانے کا سینٹرل اسٹیج مشرق وسطیٰ تھا۔ اسرائیل، سامراج کا نور نظر تھا۔ اور سعودی عرب ماسوائے شاہ فیصل کے باقی تمام ادوار میں امریکا کا غیر مشروط اتحادی رہا۔ بارک اوباما وہ واحد امریکی صدر تھا جس نے سعودی عرب پر انگلی اٹھائی۔ سعودی عرب نے مصر کے جنرل سی سی کو اربوں ڈالر دے دیے کہ وہ سابق صدر مرسی اور اس کی سوچ کو ختم کرے۔

سعودی عرب نے شام میں سول وار کو بھڑکانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر ڈالے۔ اور ملکوں کے سربراہان کے لیے تحفوں کے ڈھیر لگا دیے۔ دنیا کے جو 54 ممالک سعودی عرب کی کانفرنس میں جمع ہوئے، ان میں سے شاید ہم ہی واحد ہیں جو ایران کے پڑوسی ہیں۔ ان 54 ممالک میں سے ہمارا ملک ہی ہے جو کہ سعودی عرب کی اس اسٹرٹیجک سوچ سے قریب تر ہے۔ اب اس بھٹکی ہوئی دنیا میں جو مسلمانوں کے ساتھ ہونے جا رہا ہے، خدا خیر کرے۔ ٹرمپ آئے، سعودی عرب کے بعد سیدھا اسرائیل پہنچ گئے۔ مطلب ایران دشمنی میں اب وہ دور بھی آ گیا ہے کہ سعودی عرب، اس اسرائیل کے بہت قریب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔