ہمارے تعلیمی مراکزکہاں کھڑے ہیں؟

عابد محمود عزام  جمعرات 25 مئ 2017

قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں جو بھی ہوا، وہ شرمناک، قابل مذمت اور نہ صرف یونیورسٹی کے لیے بلکہ دنیا بھر میں ہمارے ملک، تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں کے لیے باعث شرمندگی ہے۔ دو طلباء گروپوں میں تصادم کے نتیجے میں 40 سے زاید طلباء زخمی ہوئے۔ دونوں جانب سے فائرنگ کے علاوہ پتھروں اورڈنڈوںکا آزادانہ استعمال کیا گیا۔ وائرل ہونے والی ویڈیو میں ایک دوسرے پر بہیمانہ اور جاہلانہ انداز میں لاٹھیاں برساتے لڑکوں کو دیکھ کر بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ کسی تعلیمی ادارے کے طالب علم ہیں، کیونکہ اگر انھوں نے حقیقی معنوں میں تعلیم حاصل کی ہوتی تو اس طرح جہالت کا مظاہرہ کر کے یونیورسٹی اور ملک کی بدنامی کا سبب نہ بنتے۔ انتظامیہ کو پولیس اور رینجرزکو فوری طلب کرنا پڑا اور صورتحال پر قابو پانے کے لیے یونیورسٹی کو غیرمعینہ مدت تک کے لیے بند کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ کئی ہفتوں قبل سفاکیت کے واقعے کے بعد بندکی جانے والی عبدالولی خان یونیورسٹی ابھی کھلی بھی نہ تھی کہ قائداعظم یونیورسٹی کو شرپسند عناصرکے دنگے فساد کی وجہ سے بند کرنا پڑا، جو بہت افسوس ناک بات ہے۔

ملک کے تعلیمی اداروں میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں وقتاً فوقتاً مختلف تنظیموں اورگروہوں کی جانب سے لڑائی جھگڑے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، جو ہمارے تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ قوموں اور ملکوں کی ترقی و تنزلی کا دارومدار تعلیمی اداروں اور طلباء وطالبات پر ہی ہوا کرتا ہے۔ جن ممالک میں یہ دونوں اپنی ذمے داریاں ٹھیک طریقے سے ادا کریں تو ان ممالک کو ترقی کی منازل طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور اگر تعلیمی ادارے سیاسی، صوبائی، لسانی اور مذہبی عصبیت کے گڑھ بن جائیں اور طلبہ کی توجہ تعلیم سے زیادہ لڑائی جھگڑے پر ہو تو پھر وہ ممالک ترقی کی دوڑ میں پوری دنیا سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔

ہمارے ملک کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑائی جھگڑے معمول بنتے جا رہے ہیں۔ گھر سے علم و آگہی کے لیے نکلنے والے طلباء انتہا پسندانہ رویوں، لڑائی جھگڑے، تشدد، لسانی و صوبائی تعصب اور ڈھیروں ساری نفرتوں کی لپیٹ میں آتے جا رہے ہیں۔ لڑائی جھگڑے، اسلحہ، سنگ و خشت اور ڈنڈوں کا استعمال اور قتل و قتال کسی بھی طرح تعلیمی اداروں کے کلچر کا حصہ نہیں بننا چاہیے، مگر افسوس! ملک کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑائی جھگڑے اور تصادم کے حیران کن حد تک واقعات پیش آ چکے ہیں۔ اب تک طلبہ تنظیموں کے تصادم اور دیگر معاملات میں ایک بڑی تعداد قتل ہو چکی ہے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد شاید بہت ہی زیادہ ہو۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ گھر سے تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آنے والے کتنے طلبا دوران تعلیم مقدمات میں ملوث ہونے کی وجہ سے جیلوں میں بند ہیں۔

مقدمات میں الجھنے کی وجہ سے کتنے طلبا کو تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اپنا پیٹ کاٹ کر اولاد کو پڑھانے والے والدین پر کیا گزرتی ہو گی، جب ان کو معلوم ہوتا ہو گا کہ جس اولاد کو پڑھنے کے لیے تعلیمی اداروں میں بھیجا تھا، وہ اولاد وہاں جا کر لڑنے میں مشغول ہے اورگزشتہ مہینوں میں یہ اطلاعات بھی میڈیا پر کثرت سے آتی رہی ہیں کہ ملک کے تعلیمی مراکز میں منشیات کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جو تعلیمی ادارے دنیا بھر میں اپنے بہترین اور بے مثال کام کی وجہ سے اپنی پہچان آپ ہونے چاہیے تھے، آج وہی ادارے لڑائی جھگڑے اور منشیات کے گڑھ بنتے جا رہے ہیں۔

یہ نظام کی کمزوری ہے کہ وہ تعلیمی ادارے جہاں سے علم و تحقیق کے سوتے پھوٹنے چاہیے تھے، جہاں سے نت نئی ایجادات کی بریکنگ نیوز آنی چاہیے تھی اور جہاں مسلمان سائنسدانوں اور محققین کے فلسفے کو زندہ کیا جانا تھا، آج وہاں لسانی و علاقائی عصبیت پروان چڑھ رہی ہے۔ دنگا فساد ہو رہا ہے۔ فائرنگ اور قتل و غارت گری کی بریکنگ نیوز آ رہی ہے۔ طلبہ کو منشیات کی لت لگنے کی خبریں آ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں لڑائی جھگڑوں اور منشیات کے استعمال کے اعتبار سے تو ہم دنیا بھر میں اپنے ملک کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں، لیکن عالمی رینکنگ میں ہماری کوئی بھی یونیورسٹی پہلی 600 جامعات میں نہیں آتی، جو پورے ملک کے لیے غورکرنے کا مقام ہے۔

یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے جس کے بارے اہل علم و دانش اور ذمے داران کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے اور اس کا حل پیش کرنا چاہیے۔ تعلیم کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ کوئی ملک تعلیم کے میدان میں جتنا بہتر ہو گا، زندگی کے ہر شعبے میں اْتنی بہتری نظر آئے گی۔ تعلیم معاشرتی، اقتصادی، تہذیبی و ثقافتی سمیت ہر میدان میں ترقی کی ضامن ہوتی ہے اور ایک مضبوط تعلیمی نظام ہی مضبوط اور مہذب قوم کی تعمیرکے خواب کو شرمندہ تعبیرکر سکتا ہے اورکسی بھی قوم کو تعلیم کی بلندیوں پر اس قوم کا تعلیمی نظام، تعلیمی مراکز اور ان مراکز سے تعلیم حاصل کرنے والے ہی لے کر جاتے ہیں، اگر ان میں سے کوئی بھی کوتاہی کا مرتکب ہو تو قومیں خود کو دنیا کے مدمقابل کھڑا نہیں کرسکتیں اور ہمارے تعلیمی اداروں میں سیاست، لسانیت، عصبیت، صوبائیت، لڑائی جھگڑوں اور منشیات نے ہمارے تعلیمی نظام کی بنیادوں کو بالکل کھوکھلا کر دیا ہے، جس کی وجہ سے آج ہم ایجادات کے میدان میں دنیا کے مدمقابل نہیں کھڑے، بلکہ بہت پیچھے ہیں۔

ہمارے تعلیمی اداروں کے موجودہ حالات سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام قوم کے بچوں کو زندگی کا شعور، جینے کا سلیقہ، تہذیب اور انسانیت کا احترام سکھانے میں ناکام ہوا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں تربیت نہیں کی جاتی، بلکہ صرف کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، اگر حقیقی معنوں میں تعلیم دی جاتی تو یونیورسٹی تک پہنچتے پہنچتے اتنا شعور تو ضرور آجاتا کہ تعلیمی مراکز علم حاصل کرنے کے لیے ہوتے ہیں، لڑائی جھگڑوں اور منشیات کے استعمال کے لیے نہیں ہوتے۔ یہ بات کافی توجہ طلب اور غوروفکرکرنے والی ہے کہ ہم ایسی کونسی کوتاہی کررہے ہیں جس کے بعد یہ نتائج سامنے آرہے ہیں کہ درس گاہیں بھی تشدد سے محفوظ نہیں۔ اس حوالے سے ماہرین تعلیم کو بہت سنجیدگی کے ساتھ غورکرنا چاہیے تاکہ آیندہ تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات کا سد باب کیا جاسکے۔

اس حوالے سے ملک کے عصری تعلیمی اداروں کو دینی تعلیمی اداروں سے بھی بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ ملک میں ہزاروں کے حساب سے دینی مدارس ہیں، لیکن ان میں شاید ہی آج تک کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہو کہ کسی دینی مدرسے میں لسانی، صوبائی یا جماعتی بنیادوں پر لڑائی جھگڑا ہوا ہو، کسی طالب علم نے کسی استاد کے ساتھ بدتمیزی کی ہو۔ کبھی کسی دینی مدرسے میں منشیات برآمد ہوئی ہوں یا کبھی طلباء کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس کو بلایا گیا ہو، حالانکہ دینی مدارس میں ایک ہی چھت کے نیچے مختلف صوبوں، مختلف قوموں اور مختلف زبانوں کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ دینی مدارس میں یہ اچھی روایت برقرار ہے کہ وہاں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کی جاتی ہے اور اگر عصری تعلیمی ادارے بھی تعلیم کے ساتھ تربیت پر خصوصی توجہ دیں تو کالج و یونیورسٹیاں بھی دینی مدارس کی طرح پرامن ہوسکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔