پی آئی اے کے طیارے سے ہیروئن برآمدگی کا معمہ حل نہ ہوسکا

ویب ڈیسک  جمعرات 25 مئ 2017
پہلے روز حراست میں لئے گئے 19 افراد میں سے 7 کو دوبارہ تحویل میں لے لیا گیا ہے۔  فوٹو: فائل

پہلے روز حراست میں لئے گئے 19 افراد میں سے 7 کو دوبارہ تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: پی آئی اے کے حکام اور دیگر تحقیقاتی ادارے کئی دن گزرنے کے بعد بھی اب تک طیارے میں ہیروئن رکھنے والے شخص کا سراغ لگانے میں ناکام ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق 22 مئی کو بے نظیر انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے لندن جانے والی پی آئی اے کی فلائٹ 785 سے کروڑوں روپے مالیت کی ہیروئن برآمد ہوئی تھی تاہم اب تک پی آئی اے اور دیگر تحقیقاتی ادارے اس بات کا سراغ لگانے میں ناکام ہیں کہ آخر اتنی بڑی مقدار میں منشات اسمگل کرنے والا شخص کون تھا۔

اس خبرکوبھی پڑھیں:  اسلام آباد سے لندن جانے والی پرواز سے 20 کلو ہیروئن برآمد

پہلے روز انسداد منشیات فورس (اے این ایف) کی جانب سے تحقیقات کے لیے حراست میں لیے گئے 3 خواتین سمیت پی آئی اے کیٹرنگ، سیکیورٹی اور صفائی ستھرائی پر مامور عملے کے 19 ارکان کو اگلے ہی روز گھر جانے کی اجازت دے دی گئی تھی تاہم اینٹی نارکوٹکس فورس نے تفتیش کے بعد رہا کئے گئے 7 افراد کو دوبارہ تحویل میں لے کر تفتیش شروع کردی ہے۔ حراست میں لئے گئے 5 افراد کا تعلق کیٹرنگ اور 2 کا سیکیورٹی سے ہے.

ترجمان پی آئی اے مشہود تاجور کا کہنا ہے کہ پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی میں موجود منشیات اسمگلنگ میں ملوث کالی بھیٹروں کی تلاش کا عمل جاری ہے اور تحقیقاتی اداروں میں انسداد منشیات فورس، کسٹم اوراے ایس ایف کے حکام شامل ہیں۔ ترجمان نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ 15 مئی کو لندن کے ہیتھرو ائیرپورٹ پر پی آئی اے کے جہاز میں منشیات موجودگی کی مخبری پاکستان سے ہی ہوئی تھی۔

دوسری جانب قواعد کے معاملے پرمحکمہ کسٹمز اور پی آئی اے ویجیلینس میں ٹھن گئی ہے۔ قواعد کی روسے ریمجنگ رپورٹ پر اے ایس ایف، پی آئی اے ویجیلنس، اے این ایف اور کسٹمز حکام دستخط کرتے ہیں لیکن 22 مئی کو جہاز کی تلاشی، معائنے کے لیے محکمہ کسٹمز کو آگاہ ہی نہیں کیا گیا تھا، جس پر محکمہ کسٹمز نے ہیروئین برآمدگی کے بعد طیارے کی ریمجنگ رپورٹ پر دستخط سے انکار کردیا، کسٹمز حکام کا کہنا تھا کہ طیارے کے معائنے سے قبل قواعد کا خیال نہیں رکھا گیا تو دستخط کیوں کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔