جلیانوالہ باغ کے المیے جیسی صورتحال

کلدیپ نئیر  جمعـء 26 مئ 2017

ہاشم پورہ کا المیہ اتنا ہی خون آشام ہے جیسے 1984ء میں سکھوں کوکچلنے کے فسادات ہوئے تھے۔ دونوں اقلیتی فرقوں کے زخم مندمل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس لیے ان کے دلوں میں ابھی تک ان المناک واقعات کی یاد بدستور تازہ ہے۔

اس کی ذمے داری صوبائی مسلح کانسٹیبلری (پی اے سی) پر عائد ہوتی ہے جوکہ یو پی پولیس کی ذیلی شاخ ہے، اور یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ جلد یا بدیر یہ گرد بیٹھ جائے گی اور یہ المیہ بھی ہماری بدنما تاریخ میں دفن ہو جائے گا۔ مجھے یہ سارا معاملہ تمام جزوئیات  کے ساتھ یاد ہے۔ یہ مئی کے آخری دنوں کی بات ہے جب 1987ء میں میرٹھ گیا تھا تاکہ اس قتل عام کی تفصیل جان سکوں۔ میری واپسی پر شہر کے باہر کچھ لوگوں نے مجھے روک لیا اور ہاشم پورہ کے محلہ کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ کم از کم 42 مسلمانوں کو جان بوجھ کر بڑی شقاوت کے ساتھ ہلاک کردیا گیا۔

یہ کام پی اے سی نے کیا اور میری دہشت کی انتہا نہ رہی جب میں نے کئی لاشیں نہروں میں اور دریائے ھینڈن میں تیرتے ہوئے دیکھیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ان سب کو طے شدہ منصوبے کے تحت قتل کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ فوج اور پولیس نے میرٹھ کی مسلمان آبادی ہاشم پورہ کا محاصرہ کرکے سیکڑوں لوگوں کو ٹرک پر بٹھا دیا، جنھیں نہر کے کنارے لے جاکر قریب سے گولیاں مار دی گئیں۔

42 افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ غالباً بھارت کی آزادی کے بعد پولیس کا زیر حراست لوگوں کو ہلاک کرنے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ لیکن اس وقوعے کو زیادہ تفصیل سے دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ 30 سال پہلے سے ایک دشمنی چلی آ رہی تھی جس سے اس المناک واقعے کے کچھ شواہد کا پتہ چلتا ہے۔ یو پی کی سی آئی ڈی پولیس نے جو چارج شیٹ تیار کی اس میں پی اے سی پر قتل عام کا الزام لگایا گیا جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کچھ لوگوں نے اس دن پولیس کی دو رائفلیں لوٹ لی تھیں جس پر 22-5-1987 کو میرٹھ کے محلہ ہاشم پورہ میں غیر قانونی اسلحے کی تلاش کے لیے چھاپہ مارا گیا۔ چارج شیٹ میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ ایک نوجوان پربھات کوشک ایک نامعلوم سمت سے آنے والی گولی کا شکار ہوکر ہلاک ہوگیا جو ایک عمارت کی بالکونی میں کھڑا تھا۔

جرائم کا کھوج لگانے والے ماہرین، جن میں بعض پولیس آفیسر بھی شامل ہیں، نے اسے زیر حراست لوگوں کے قتل کا بدترین واقعہ قرار دیا ہے۔ اس کا مقدمہ بمشکل کہیں جاکر 1996ء میں شروع ہو سکا اور تقریباً دو سال پہلے تمام مجرموں کو ٹرائل کورٹ میں بے گناہ قرار دیدیا گیا جس کو غیر جانبدار لوگوں نے عدل و انصاف کے صریحاً منافی قرار دیا۔

واضح رہے کہ اس مقدمے کے فیصلے میں 28 سال کا عرصہ لگ گیا جس دوران مرنیوالوں کے بہت سے لواحقین بھی زندہ نہ رہے۔ بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ اس مقدمے کا فیصلہ مظلوموں کے حق میں ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کی تحقیقات غیر جانبدارانہ نہیں تھیں۔ میرٹھ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ومبھوئی نرائن راؤنے اس المناک واقعے پر ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے کہا ہے کہ مجھے اس بات کا احساس کرنے میں 5 سے 6 سال کا عرصہ لگ گیا کہ آیا اتنے بھیانک جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا لیکن یہ میرا وہم ہی رہا۔ کسی کو کوئی سزا نہیں ملی۔

جوں جوں وقت گزرتا رہا یہ حقیقت واضح ہوتی رہی کہ بھارتی ریاست کسی مجرم کو سزا دینے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔ ریاست کے تمام ذمے دار لوگ اپنی ذمے داریوں سے منہ چھپاتے رہے اور بہت سے مجرمانہ غفلت کا شکار ہوگئے حتیٰ کہ آج بھی ہاشم پورہ کے لوگ ماضی کے اس واقعے کو یاد کرکے دہشت کا شکار ہوجاتے ہیں اور کھلم کھلا کہتے ہیں کہ پی اے سی نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے قتل عام کیا۔ وہ آبادی انگریزی کے لفظ یو (U) کی شکل کی ہے جسے دونوں طرف سے بند کردیا گیا اور لوگوں کے لیے فرار ہونے کا کوئی راستہ نہ رہا۔ بہت گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں کیونکہ علاقے کے مکینوں کو بہتر زندگی کی امید ہی نہیں رہی۔ اس سے ہمیں جلیانوالہ باغ کا المیہ یاد آتا ہے جس میں 1500 سے زیادہ بے گناہ افراد کو، جو چار دیواری میں گھرے ہوئے تھے، گولیاں مار کر موت کی نیند سلا دیا گیا تھا۔

اس موقع پر شہزادہ فلپ اپنی بیگم ملکہ کے ہمراہ جلیانوالہ باغ کے المیے کے بعد اس کا دورہ کرنے آئے تو ان کا کہنا تھا کہ 1500 کی تعداد بڑی مبالغہ آمیز ہے۔ مجھے جنرل ڈائر سے ملاقات کا موقع ملا تھا جس کے سامنے میں نے اس قتل عام کا ذکر کیا لیکن اس انگریز افسر کو اس کا ذرہ بھر بھی افسوس نہیں تھا۔ ہاشم پورہ کے قتل عام سے بچ جانے والوں نے واقعات کی جو تفصیل بتائی ہے اس کو سن کر دل ڈوب جاتا ہے۔ وہاں سے سیکڑوں لوگوں کو گرفتار کرکے کئی ہفتے پہلے جیلوں میں بند کردیا گیا تھا جن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان تھے۔ بعض لوگوں کو گھسیٹ کر ان کے گھروں سے باہر نکالا گیا اور تھانے لے جایا گیا۔ عینی شاہدوں کے مطابق ہلاکتیں دو مراحل میں پیش آئیں، پہلی مراد نگر کی گنج نہر پر اور دوسری ہینڈن کے مقام پر۔

1984ء میں سکھوں کے خلاف ہونیوالے فسادات میں جو بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہوئے اس میں 3000 سکھوں کے قتل کا سرکاری طور پر اعتراف کیا گیا لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ یہ فسادات کرانے والوں میں کانگریس کے چوٹی کے لیڈر شامل تھے، حتیٰ کہ راجیو گاندھی کی طرف انگلیاں اٹھ رہی تھیں جن کے کہنے پر فوج کی تعیناتی میں تاخیر کر دی گئی تاکہ قتل و غارت کرنیوالوں کو پورا موقع مل سکے۔ یہ مقدمہ بند کر دیا گیا لیکن اس کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے گو کہ ابھی تک کسی کو کوئی سزا نہیں ملی۔ اس واقعے کو اتنا وقت گزر چکا ہے کہ اس وقت کے ارباب اختیار کو تمام ثبوت مٹانے کا موقع مل گیا۔

1984ء کے فسادات کے دوران بے گھر ہونیوالوں میں سے بہت سے لوگ ابھی تک بحالی کی کوشش کررہے ہیں۔ ہاشم پورہ کے واقعے کا بھی پچھلے قتل عام سے کوئی خاص فرق نہیں۔ اس واقعے میں بچ جانے والے بھی اب تک حالات معمول پر لانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ ان کو امید پیدا ہوتی ہے پھر ٹوٹ جاتی ہے۔ انھوں نے دہلی ہائی کورٹ میں اپیل کررکھی ہے جو زیر التوا ہے۔ شاید جلد یا بدیر انھیں انصاف مل جائے۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ کوئی سانحہ کچھ وقت تک لوگوں کو یاد رہتا ہے پھر اس پر وقت کی گرد جم جاتی ہے اور کوئی نیا سانحہ وقوع پذیر ہونے تک یہ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ ایسے واقعات کا کوئی مستقل حل نظر نہیں آتا۔ میں بے شمار سانحات کا خاموش شاہد ہوں۔

جہاں پولیس کا ہاتھ بھی ملوث نظر آتا ہے۔ ہاشم پورہ جیسے واقعات اسی صورت میں ختم ہوسکتے ہیں جب دونوں برادریاں اس بات کا احساس کریں کہ ان کی دشمنی نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایسا واقعہ پھر رونما نہیں ہونا چاہیے لیکن مسلسل آپس کی دشمنی ملک کو بحران میں مبتلا کرتی رہے گی جو جمہوریت اور سیکولرازم کے لیے خطرناک ہے۔ ایسی کوششیں کرنی چاہئیں کہ اقلیتیں خود کو ملک کا مساوی شہری سمجھ سکیں اور وہ تمام سہولتیں حاصل کرسکیں جن کی ملک کے آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔